ماں: میکسم گورکی سے ساجد گوندل تک



ساجد گوندل کی ماں رو رہی ہے۔ آسمان کانپ رہا ہے کہ نہیں، ارباب اختیار بت بنے بیٹھے ہیں۔

مان لیا کہ گوندل کو ریاست کے کسی ادارے نے اغوا نہیں کیا۔ مان لیا کہ حساس ادارے بے حس نہیں، بلکہ انتہائی حساس ہیں۔ اتنے حساس کہ کوئی ”اوئے“ کی آواز بھی لگا دے تو ان کا دل دکھ جاتا ہے، اور آنسو آ جاتے ہیں۔ یہ ہر وقت قوم کی خدمت میں رہتے ہیں۔ جان بھی دیتے ہیں۔ جان پر کھیلتے بھی ہیں۔ مگر یہ کیسے مان لیا جائے کہ ہمارا یہ فخر، ہماری جان، ہمارے ادارے، اتنے نکمے ہیں کہ کئی راتیں بیت جانے کے بعد بھی گوندل کو ڈھونڈ نہیں پا رہے۔

بھائی صاحب، ہم اداروں کو ظالم اور سخت دل تو مان سکتے ہیں، نالائق نہیں مان سکتے۔ ساجد گوندل کوئی نو سرباز یعنی احسان اللہ احسان تھوڑا ہی تھا کہ چکما دے کر بھاگ جاتا اور جا کے ہمارے اداروں کے خلاف لغویات بکتا۔ یہ تو ایک کلین شیو پڑھا لکھا نوجوان تھا کہ جس کی ماں روز اس کے گھر لوٹنے کے لیے آنکھیں بچھائے بیٹھی رہتی تھی۔

مائیں بھی کیسی عجیب مخلوق ہیں۔ بیوی کا شوہر مر جائے تو بیوہ ہو جاتی ہے۔ بیٹی کا باپ مر جائے تو یتیم ہو جاتی ہے۔ پر ماں کا بیٹا مر جائے، وہ پھر بھی ماں ہی رہتی ہے۔ روتی رہتی ہے۔ آنسو پیتی ہے، پر ماں ماں رہتی ہے۔ مر بھی جاتی ہے تو ماں ہی رہتی ہے۔ قبر کی مٹی کے نیچے جا کر بھی اوپر والے کی جان نہیں چھوڑتی۔ کیوں کہ ماں تو ماں ہوتی ہے نا۔

ساجد گوندل کی ماں نے خدا کا کٹہرا لگا لیا ہے۔ کیس بھی خود پیش کیا ہے، گواہی بھی خود دی ہے، اور فیصلہ بھی خود ہی سنا دیا ہے۔ بس سزا دینا خدا پر چھوڑ دیا ہے۔ اور یہی بحیثیت قوم ہمارے لیے فکر کی بات ہے۔ ہم اپنی ماں کے لیے تو کچھ کر نہیں پائے، سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ گوندل کی ماں کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اغوا کاروں کو یہ جان کر خوشی بلکہ اطمینان ہو گا کہ ہم گوندل کی ماں کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ بلکہ وہ تو پہلے سے ہی جانتے ہوں گے کہ ہم قلم والے تو لکھنے کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ نہ ہم چھوٹے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھنے وزیراعظم کے گھر جائیں گے، نہ گوندل کی اماں کو تسلی دینے عدالت پہنچیں گے۔ ہم تو فقط اے سی والے کمرے میں بیٹھ کر کمپیوٹر کے چار بٹن دبائیں گے، انگلی پہ خون لگائیں گے، اور چپ کر کے سو جائیں گے۔

بھائی صاحب، گوندل غائب ہوا ہے، ہم یا ہمارا سگا بھائی تو نہیں نا۔ ہم کیوں پریشان ہوں؟ ہمارے گھر تھوڑا ہی آگ لگی ہے؟ آگ تو گوندل کے گھر لگی ہے۔ ہم گھر بیٹھ کے دعا مانگ رہے ہیں نا۔ اور کیا کریں؟ خود چلے جائیں اتنی گرمی میں آگ بجھانے؟ یہ بھی کوئی سمجھداری ہے؟ اور اس سے کون سا گوندل لوٹ آئے گا، یا اس کی اماں کے آنسو تھم جائیں گے۔ الٹا اپنے گلے ڈھول پڑ جائے گا کہ یہ بھی شر پھیلانے آیا تھا۔

بھائی صاحب، مائیں سانجھی ہوتی ہیں، پر اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی ہے کہ ہر ماں کو اپنی ماں، اور اس کا دکھ اپنا دکھ سمجھ لیں۔ حقیقت میں تو اپنی صرف ایک ہی ماں ہے نا۔ اور وہ تو سکون سے گھر میں آرام کر رہی ہے۔ اسے تھوڑا ہی دربدر کی ٹھوکریں کھانے کو مل رہی ہیں؟

سو ہم آپ سب کو مشورہ دیتے ہیں، خبردار، کچھ دن تک نہ ٹی وی دیکھیں نہ سوشل میڈیا۔ ایویں دل خراب ہوگا۔ دو چار دن گزر جائیں، یہ گوندل جیسے لوگوں کی خبر تھوڑی پرانی ہو جائے، تا کہ میڈیا بھی اس کو چھوڑ کر کوئی مجرے وغیرہ دکھانے لگے، پھر دیکھیے گا ٹی وی۔

تب تک کے لیے، آپ کو آپ کی ماں مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).