اک ستارے میں ہے مکاں میرا



انہوں نے اپنے ساتھ بچھی چارپائی کی طرف اشارہ کر کے کہا ”یہاں آجاؤ میرے پاس۔“ میں نے اپنی کرسی ہٹا دی اور چارپائی کھینچ کر ان کی چارپائی کے اور قریب کرلی۔

وہ سیدھے لیٹے تھے، نظریں دور کہیں آسمان کی پہنائیوں میں گم تھیں۔ بجلی تعطیل پر تھی۔ کشادہ آنگن میں چار سو تاریکی تھی، نہ خنک نہ گرم، پھیکی پھیکی سی بدمزہ تاریکی۔ ہوا بند تھی۔ دیواروں کے پار گلی اور دیگر مکانوں کی بتیاں بھی بے جان تھیں۔ اندر ایک کمرے میں چائنا کی چارج ہونے والی بتی روشن تھی جس کی مریل لو جالی والے دروازے سے چھن کے بمشکل برآمدے میں آتی اور دم توڑ دیتی تھی۔

اس تاریکی کی وجہ سے تارے بہت روشن نظر آتے تھے۔ کچھ خوب روشن اور موٹے، کچھ کم روشنی والے اور نسبتاً چھوٹے۔ کچھ جو بہت ہی دور تھے وہ غبار کی صورت تھے۔ گویا کسی نے چمک دار تاروں کے بیچ خالی جگہوں میں دھند بھر دی ہو۔

وہ خاموش تھے، کہیں کھوئے ہوئے۔ میں نے چارپائی پر لیٹ کے ان کی طرف کروٹ لی، بایاں بازو موڑ کے سر کے نیچے رکھا اور دایاں ہاتھ ان کے بازو پر رکھ کے پوچھا

”کیا سوچ رہے ہیں ابو؟“

وہ چپ رہے۔ میں ہاتھ سے دھیرے دھیرے ان کا بازو دبانے لگی۔ بازو، جس کے گوشت کے ریشوں کو بڑھاپے اور بیماری نے تحلیل کر کے ملغوبہ سا بنا دیا تھا۔ پٹھوں کا نام نشان نہ تھا۔ اسے دباتے ہوئے ہتھیلیوں میں عجیب سا احساس سرایت کرتا تھا۔ زندگی سے عاری، کوئی بے جان لجلجا سا احساس۔

یہ وہی بازو تھے جن میں کبھی میں کھیلی تھی۔ جن کے سہارے میں قدم قدم چلنا سیکھی تھی۔ یہ بازو ایسے بھرے بھرے اور طاقتور ہوا کرتے تھے کہ مجھے ہوا میں دور تک اوپر اچھال دیتے۔ ہوا مجھے گدگداتی اور میں کھلکھلا کے ہنسا کرتی اور پھر نیچے آتے ہوئے یہی بازو ہوا میں مجھے تھام لیتے۔

آسمان پر نظریں گاڑے گاڑے وہ بولے
”وہ تارا دیکھ رہی ہو؟“
”کون سا ابو؟“
”وہ جو مسجد کے مینار کے بالکل اوپر چمک رہا ہے“

میں نے گردن موڑ کے اوپر دیکھا۔ تاروں کی نیلی روشنی میں مسجد کا مینار کچھ زیادہ ہی طویل لگ رہا تھا، جیسے آسمان کو تھامے ہوئے کوئی ستون کھڑا ہو۔

”وہاں تو بہت سے تارے ہیں ابو“
”بہت سوں کی بات نہیں کر رہا میں۔ وہ دیکھو جو ذرا کم روشن ہے، دور چھوٹا سا، اکیلا۔“

میں نے خاصا غور کیا مگر وہاں بہت سے ستارے تھے۔ میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کس کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم میں نے ان کو مشقت سے بچانے کے لئے کہ دیا ”جی ابو دیکھ رہی ہوں“

” اس کو یاد رکھنا“
” کیوں، اس میں کیا خاص بات ہے، عام تاروں جیسا تارا ہے یہ بھی“
” ابھی تو عام تارا ہے مگر جلد ہی یہ خاص بننے والا ہے“
ان کا لہجہ اسرار میں لپٹا تھا۔
فضا کی خامشی میں ایک ناگوار سی ٹھنڈک گھل گئی۔
”میں سمجھی نہیں ابو“

”میں جلد وہاں شفٹ ہو جاؤں گا۔ وہاں سے تمہیں دیکھا کروں گا۔ کبھی میری یاد آئے تو اس تارے کو دیکھ لیا کرنا۔“

وہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوئے۔ بیماری نے ان کو اتنا کم زور کر دیا تھا کہ وہ چند جملے بول کے تھک جاتے تھے۔ میں نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا، ان کا بازو دھیرے دھیرے دباتی رہی۔

” اگر کبھی کوئی پریشانی آئے یا اداس ہوا کرو تو یہیں اسی چارپائی پر لیٹ کر اس تارے سے باتیں کیا کرنا۔ میں تمہیں سنا کروں گا۔ جواب بھی دیا کروں گا مگر شاید تم سن نہ پاؤ“

مجھے پتہ تھا وہ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ اکثر جب وہ ایسی باتیں کرتے تو میں ان کو ٹوک دیا کرتی۔ میرا دل بھر آیا کرتا تھا۔ لیکن اس روز میں بھی ان کے رنگ میں رنگ گئی۔

”میں کیوں نہیں سن سکوں گی آپ کو؟“

”تمہاری زمین اور میرے ستارے کی فریکوئنسی میں فرق ہوگا۔ ویو لنتھ الگ ہوگی سو تمہارے کانوں کے ٹرانسمیٹر میری آواز کو کیچ نہ کر سکیں گے۔ ہاں کبھی ہو سکتا ہے فریکوئنسی اتفاقاً مل جائے اور تم مجھے سن سکو“

”لیکن ابو فریکوئنسی کا فرق آپ پر بھی تو اثر انداز ہوگا نا، آپ بھی تو مجھے نہیں سن سکیں گے“

انہوں نے اپنے تارے سے نظریں ہٹائیں اور گردن ذرا سی میری طرف موڑ کے مجھے دیکھا۔ ان کے ہونٹوں پر بے رنگ سی کمزور مسکراہٹ تھی۔ کہنے لگے

”اولاد کی آواز سننے کے لئے والدین کو کسی میڈیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ آواز کی بھی حاجت نہیں ہوتی۔ میں تمہیں سنا کروں گا“

آسمان پر اتنے ستارے ہیں ابو۔ آپ ہی نے بتایا تھا کہ صرف ہماری اس کہکشاں میں اڑھائی سو ارب ستارے ہیں۔ آپ نے اتنی دور کا اور چھوٹا ستارا کیوں پسند کیا؟ یہاں قریب کا کوئی روشن ستارا پسند کر لیتے ”

”کب سے دنیا بنی ہے اور تب سے ہی لوگ اپنا اپنا وقت پورا کر کے یہاں سے جا رہے ہیں۔ قریب کے ستارے تو سب الاٹ ہو چکے ہوں گے پہلے جانے والوں کو۔ بس پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ یہ ستارا میرے انتظار میں ہے۔ یہیں مجھے رہنا ہے تمہارے پاس سے جانے کے بعد۔“

”مگر ابو وہ بہت چھوٹا ہے“
”میرے لئے بہت ہے۔ زیادہ کی چاہت ہوس ہوتی ہے“

ہم دونوں ہی خاموش ہوگئے۔ وہ پھر سے اپنے ستارے میں گم ہوگئے تھے۔ میری نظریں ان کے چہرے پر تھیں مگر میں انہیں دیکھ نہیں رہی تھی۔

” ابو۔“
” ہوں۔ ؟“
” آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں؟“
” کیسی باتیں؟“
” یہی، جانے کی، ہجرت کی اور بچھڑنے کی“
” جانا تو ہے نا ایک دن“
”وہ تو سب کو ہی جانا ہے ابو“
”میرے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے“
”ابو پلیز“
میرا جی بھر آیا
آنگن میں موت کی بے آواز چاپ سنائی دینے لگی تھی۔
”تمہیں ابھی سے خود کو عادی کرلینا چاہیے، میرے بغیر رہنے کا“
” جدائی کا بھی کبھی کوئی عادی ہوا ہے ابو؟“
”عادتیں تو ساری زندگی بنتی اور ترک ہوتی رہتی ہیں“
وہ سانس لینے کو رکے پھر بولے

”عادتیں، ماحول کی اور حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ ہم رشتوں کے عادی ہوتے ہیں۔ پھر نئے رشتے زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں، پرانے قدرے پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ رشتے جو چھوڑ جاتے ہیں، ہم ان کے بغیر رہنے کے بھی عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ عادی ہونے کا عمل جاری رہتا ہے ساری زندگی۔“

”اچھا اچھا ہوتا ہوگا، اب آپ پلیز ایسی باتیں نہ کریں“
انہوں نے میری بات جیسے سنی ہی نہ ہو

”تمہاری زندگی میں ابھی بہت سے نئے رشتے آنے ہیں۔ تمہارا میرا رشتہ بوڑھا ہوکر انجام۔ پذیر ہونے کو ہے۔ آگے جو رشتے تم سے ملنے والے ہیں وہ بہت رنگین اور جواں ہوں گے۔ جیون ساتھی کا رشتہ، اولاد کا رشتہ، اولاد کی اولاد کا رشتہ“

”ابو! مجھے نہیں چاہیے کوئی بھی نیا رشتہ بس آپ کا ساتھ رہے“

”کبھی کوئی ساتھ ہمیشہ بھی رہا ہے۔ آغاز اور اختتام کی بندشوں میں جکڑی ہوئی ہے یہ زندگی۔ ہر تعلق کی ابتدا ہے اور انتہا۔ ہر واقعہ بالآخر اختتام سے آشنا ہونا ہوتا ہے۔ اور پھر جو رشتے تمہیں آگے ملنے والے ہیں، تمہیں چونکہ ان کا تجربہ نہیں ابھی تک، اس لئے تم ان کی اہمیت سے بھی آگاہ نہیں ہو۔ محبت کی ندی بھی زمینی دریاؤں کی طرح نشیب کو بہتی ہے، نیچے کی طرف“

”اچھا مجھے نہیں جاننی اہمیت وغیرہ۔ میرے لئے آپ اہم ہیں اور بس۔ آپ ایسی باتیں نہ کریں نا پلیز“
میری ہمت جواب دے گئی تھی۔

”آج مجھے کرنے دو باتیں۔ جب وقت قریب آن لگتا ہے نا تو انسان کی سوچ کے کواڑوں پر دستک ہونے لگتی ہے۔ ساری زندگی نت نئی سوچیں دل اور دماغ کے دروازوں پر دستک دیتی ہیں مگر یہ اور ہی طرح کی دستک ہے۔ بانگ درا جیسی، قافلہ روانہ ہونے سے قبل اطلاعی گھنٹے کی آواز جیسی۔ کوئی کوچ کی صدائیں دینے لگتا ہے۔ میں اس سے زیادہ وضاحت نہیں کر سکتا۔ لفظوں کی وہ بساط ہی نہیں کہ اس کیفیت کا ابلاغ کرسکیں۔ مگر جس کے دل پر دستک ہوتی ہے، اسے سب سمجھ آ رہا ہوتا ہے کہ کنڈی کھٹکھٹانے والا ساتھ لے جانے کو آیا ہے۔ میں یہ دستک کئی دنوں سے سن رہا ہوں مگر آج تو اس کا رنگ کچھ اور ہی ہے۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے بیٹا۔ قافلہ چلنے کو ہے“

”ابو پلیز۔ ۔ ۔“ میں چیخی، اور پھر میرے گلے میں کوئی غیر مرئی سی رکاوٹ در آئی، ناکا سا لگ گیا تھا جس نے میری آواز روک لی۔ موت کی چاپ کا احساس مزید واضح ہوگیا۔ میں سسکیاں بھرنے لگی مگر انہیں جیسے کوئی پروا ہی نہ تھی۔

”میری بڑی خواہش تھی کہ تمہیں اپنے گھر میں بستا دیکھ کر جاتا مگر تمہاری ضد کے آگے ہارنا پڑا۔ تم۔ پر میری تیمارداری کا بھوت سوار رہا“

وہ بولتے بولتے تھک گئے تھے۔ خاموش ہوکر لمبے لمبے سانس لینے لگے۔

اوپر دور کہیں، آسمان سے ذرا نیچے ایک جہاز گزر رہا تھا۔ اس کی لال نیلی بتیاں بھی ستاروں کی طرح تھیں۔ جلتی بجھتیں، جیسے ستارے ٹمٹماتے ہوں۔ انسان کی بنائی ہوئی تیز ترین سواری کی رفتار کو فضا کی وسعتیں حقارت سے دیکھتی تھیں اور جہاز رینگتا محسوس ہوتا تھا۔ ان کی نظریں اب ستارے سے ہٹ کر جہاز کی متحرک روشنیوں پر تھیں۔

”مسافر اپنی اپنی منزلوں کو سفر کرتے ہیں۔ اس مسافر کا سفر بھی تمام ہونے کو ہے۔ منزل قریب آن لگی ہے“

چار سو خامشی بچھ گئی۔ زمین و آسمان دم بخود گویا یہ مکالمہ سنتے تھے اور ان کے درمیان جو جو کچھ ہے، سب چپ تھے۔

”سرسری دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کل ہی کی بات ہے جب اس دنیا سے آشنا ہوا تھا لیکن ذرا سا جزئیات پر غور کرتا ہوں تو سفر بہت طویل محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے ہمیشہ سے جیتا آیا ہوں۔ اب تھک بھی تو گیا ہوں“ ۔

میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ سسکیاں روکے نہ رکتی تھیں۔ میں ان کے سامنے رونا نہ چاہتی تھی مگر یہ میرے بس میں نہ تھا۔

میں نے اک ذرا خفگی سے کہا ”ابو آپ باز نہیں آئیں گے؟“

”موت سے بڑی حقیقت اور کون سی ہے بھلا۔ جب سے دنیا بنی لوگ آ رہے ہیں اور اپنا وقت پورا کر کے جا رہے ہیں۔ تمہارے باپ کے لئے اصول تو نہیں بدلیں گے۔ جانا تو ہے نا مجھے“

”اچھا ٹھیک ہے لیکن آپ ایسی باتیں نہ کریں نا میرے دل کو کچھ ہوتا ہے“

”خود کو تیار کرو ہر طرح کے حالات کے لئے۔ تمہیں اپنے باپ کے ساتھ موت کو جوڑنا ٹھیک نہیں لگ رہا لیکن موت نے تو آنا ہے۔ ہر انسان کا مقدر ہے یہ۔ تمہیں ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے کہ تمہارے باپ کو بھی بہرحال مر جانا ہے ایک دن۔ یا شاید ایک دن سے بھی پہلے“

دل کٹ کے رہ گیا مگر میں خاموش ہوگئی۔ وہ پھر سے اپنا ستارہ دیکھنے لگے۔ گلی سے ایک بھدی آواز والا موٹر سائیکل گزرا جس کے ساتھ ساتھ کتے کے بھونکنے کی آواز چلتی تھی۔ آنگن کی فضا پر تنی بوجھل خاموشی تار تار ہوئی تو میری سوچ کی یک رخی کیفیت بھی بدل گئی۔ موٹر سائیکل کا پھٹا ہوا سائلنسر چنگھاڑا، کتے کی آواز پیچھے رہ گئی۔ موٹر سائیکل کی آواز دور جا کر معدوم ہوگئی، کتا بھی موٹر سائیکل کو اپنی عمل داری سے نکال کر چپ ہوگیا۔

میں اب ان کا ہاتھ دبا رہی تھی۔
دونوں چارپائیوں کے گرد موت خاموش قدموں سے طواف کرتی تھی۔
”اچھا ابو ایک بات بتائیں“
”پوچھو“
میں نے آسمان کی طرف دیکھا
”ان میں میرا ستارہ کون سا ہے بھلا؟“
ایک دم انہیں گویا کرنٹ لگا۔
موت گھبرا کر پیچھے ہٹی اور دیوار سے جا لگی۔ ۔

ان کے لاغر ہاتھ میں جانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی۔ میرے ہاتھ کو زور سے جھٹکا اور غصے میں گھور کر مجھے دیکھتے ہوئے بولے

”شرم تو نہیں آتی فضول بکواس کرتے ہوئے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).