کم ظرفوں کی صحافتی افق پر اجارہ داری


میں نے صحافتی کیرئر کو کیوں خیرباد کہا؟ نیوز ایجنسی این این آئی سے قریبا 1 سال وابستہ رہنے اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں آنرزکے ساتھ ساتھ محض شوق کی تکمیل کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجوایشن کرنے کے باوجود صحافتی پلیٹ فارمز سے میرا دل کھٹے ہونے کی وجوہات بے شمار ہیں۔ حالیہ خبروں میں جس طرح ایک معروف صحافی کے خدا بننے کی کوشش کرتے ہوئے مختلف کامریڈز پر مہربانیوں کے دعوے زبان زد عام ہوئے، میں نے سوچا کہ اچھا ہے اس وقت میں کسی کم ظرف کی سفارش کا سہارا نہیں لیا کیونکہ سچ تو یہی ہے، جتنے لوگوں کے اس دھندے میں ہاتھ کالے ہیں شاید ہی کہیں اور ہوں۔

سوا ل یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ظفر و جوہر سمیت صحافت کے دیگر جید ستونوں کی کاوشوں سے جڑ پکڑنے والی صحافت کا زوال اتنی جلد کیسے ممکن ہوا کہ وطن عزیز کے قیام میں آنے کے چند دہائیوں بعد ہی صحافت محض گلیمر اور بلیک میلنگ کی نذر ہو کر رہ گئی؟ آخر یہ صحافی محض اچھی اردو روانی سے بولنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ لگائی بجھائی کے فن میں طاق ہونے کی بنیاد پر ہی کیوں اتنا اچھلنے لگتے ہیں؟ ایسا کون سا ہنر ہے ان کے پاس جس کی بنیاد پر دنیا جہان کے ہر موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی زبان نہیں لڑکھڑاتی؟ آزادی صحافت کے نعرے کی آڑ لیتے ہوئے یہ محض اپنے ذاتی تجزیے اور آقاؤں کی پسند نا پسند کی بنیاد پر جسے چاہیں لا کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں لیکن اپنی حقیقت سے بے خبر ہیں۔

میں نے صحافت کی الف بے این این آئی (نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل ) کے پلیٹ فارم سے سیکھنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ گوہر نایاب قدیمی اور روایتی صحافت کے زریں اصولوں کا پالن کرتے ہوئے بے مول زندگی گزارر ہے ہیں اور محض تعلق، نسبت، رطب السانی یا ظاہری قد و قامت حلیے اور شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے شمار کم ظرف، صحافتی افق پر اپنی اجارہ داری قائم کیے بیٹھے ہیں۔ وہ لکھنے والے جو خبر لکھتے وقت خبر کی نوعیت کے اعتبار سے خوشی اور غم کو محسوس کر کے الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے قارئین کو محض رپورٹنگ تک محدود نہیں رکھتے بلکہ کوئی جامع تعمیری پیغام بھی دینا چاہتے ہیں انہیں کوئی پوچھتا نہیں اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے جھوٹ سچ کی آمیزش پر مبنی مواد کاپی پیسٹ کرنے اور رٹے رٹائے جملے بولنے والے کہیں رشتہ داریوں اور دوستیوں کا فائدہ اٹھا کر تو کہیں جنسی ساخت اور بناوٹی چکاچوند کے باعث ہر کسی سے آگے نکلے جاتے ہیں۔

مجھے دو بار یہ تجربہ ہوا جب ایک بار C 42 اور دوسری مرتبہ دنیا نیوز کے پلیٹ فارم پر انٹرویو دیتے وقت مجھے یہ باور کروایا گیا کہ آپ اپنی ڈگری بارے مت بتایا کریں اس میں کچھ نہیں رکھا۔ آپ کی تعلیم کی بنیاد پر تو آپ کو پرکھا جانا ہی نہیں ہے۔ یہ تو گلیمر اور تعلقات کی دنیا ہے۔ یہاں تو آپ کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ کتنی خوشامد کر سکتے ہیں۔ اپنی عزت نفس کو کس حد تک رہن رکھوا سکتے ہیں۔ مانے ہوئے ٹائیکون کے جھوٹ سچ کو آنکھیں بند کر کے کتنا سپورٹ کر سکتے ہیں؟

میں نے اس وقت بزنس ایڈمنسٹریشن میں آنرز بھی مکمل کر لیا تھا، بیچلرز ان جرنلزم کا امتحان بھی میں پاس کر چکا تھا اور ایم فل پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایڈمشن لینے کے لیے تیار تھا جب کسی شخص نے مجھے یہ باور کروایا کہ وہ ”اچھے وقتوں“ کا سادہ گریجوایٹ ہے لیکن لاکھوں میں تنخواہ لے رہا ہے۔ فلانے اخبار کا کالم نگار 20 لاکھ لیتا ہے اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے انٹر بھی کلیئر نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ بھائی تمہارا کام بھی تو کیا ہے؟ لگائی بجھائی اور بلیک میلنگ کے لیے کیسی تعلیم اور کن ڈگریوں کی ضرورت پڑتی ہے؟ تعلیم یافتہ طبقے کا استحصال کر کے چینلز میں اچھی نشستوں پر براجمان ہو تو ملک میں حال یہ ہے کہ صحافت کسی طور مجموعی قومی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا نہیں کر پار ہی۔ ہزاروں اینکرز خوار ہو رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ ایک شاہزیب خانزادہ ذرا اچھی تیاری کر کے Investigative Journalism کا حق ادا کرتا ہے تو قوم حیران رہ جاتی ہے کہ کیا ایسی صحافت بھی ممکن ہے؟ یہ تم لوگوں کی بدولت ہی ہے کہ ہر چینل پر ہر پروگرام میں قابل تعریف و توصیف اینکرز میسر نہیں ہیں۔

نیوز کاسٹرز اور رپورٹرز کی بھرتیوں کا یہ عالم ہے کہ جو چینلز نیا جنم لیتے ہیں وہ وسائل اور تجربہ کاری کی کمی کی وجہ سے بے ڈھنگے لوگوں کی ٹیم بنانے پر مجبور ہوتے ہیں اور Established Channels کی بات کی جائے توکہیں اینکرز مسلسل جانبدارانہ اظہار رائے کے جرم میں ملوث ہیں تو کہیں ہر دوسرے شخص کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اپنے کردار کا یہ عالم ہے کہ سیاستدانوں سے ہر قسم کی فیور وصول کرنا بھی اپنا حق سمجھیں گے۔

پبلک سیکٹر حتی کہ پولیس کے محکمے میں حاضر ڈیوٹی افسران کو اپنا تعارف کروا کر ان کے کام میں رخنہ اندازی کریں گے، اللہ اللہ بھی کیے جائیں گے ابلیسی ہتھکنڈے بھی نہیں چھوڑیں گے۔ پرچیوں سے دیکھ کر خود بھی پڑھیں گے اور دوسروں کے معاملے میں اسی حرکت کو اگلے کی کمزور ی بنا کر بھی پیش کریں گے۔ پلاٹ اور لفافے لینے کے الزامات کا دفاع بھی بے شرمی سے کرتے رہیں گے اور صاحب اقتدار طبقے سے سوالات بھی یوں پوچھیں گے جیسے خود دودھ کے دھلے ہیں۔

معیار پروگرامز کا یہ ہے کہ شیخ رشید، عامر لیاقت جیسے سیاستدانوں کی مرہون منت پروگرامز کی ریٹنگ اوپر نیچے ہو رہی ہوتی ہے۔ جب تک 3 لوگوں کی لڑائی نا کروا لیں کامیابی کا ہار ان کے گلے نہیں پڑتا۔ کبھی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو بٹھا کر باہمی تفاوت کی مثبت گانٹھیں کھولنے اور کسی ایک کام کے نتیجے پر پہنچنے کی مثال نہیں ملتی۔ جب بیٹھیں گے لڑوائیں گے لوگوں کو اور بس۔ تو کیا یہی کردار ادا کرنے کا نام صحافت ہے؟

سچ بتاؤ نا، تمہیں صرف اپنے تعلقات کا مان ہے۔ صحافت تو لونڈی ہے جس کے بدن کی حدت پر تمہارا دال دلیا گلتا ہے۔ تمہیں کوئی غرض نہیں ہے کہ جس کا تم انٹرویو کر رہے ہو وہ قوم کا کتنامقروض ہے۔ تمہیں صرف اپنے تیار کردہ سوالات کی بوچھاڑ کر کے مقابل کو خاموش کروانا ہے اور بس، چاہے کوئی مثبت جواب ملے نا ملے، چاہے کوئی مسئلہ حل ہو نا ہو، تمہاری جیت ہے۔

نوٹ : پاکستانی صحافت کے دامن میں جو گمنا م یا بھلے پاپولر نایاب گوہر آٹے میں نمک کی تعداد کے برابر موجود ہیں وہ صرف مسکرائیں۔ کیونکہ اگر انہیں یہ کالم پڑھ کر غصہ آیا تو مطلب وہ بھی گوہر نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).