میثاق پاکستان: راتاں ہوکے بھرن دیاں نیئں


تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا ایک نیا اتحاد تشکیل کے مراحل میں ہے، پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف، چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی مشاورت سے اس نئے اتحاد کا مجوزہ نام ”میثاق پاکستان“ ہے، جس کا حتمی اعلان آئندہ چندروز میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں کیا جائے گا۔ اخباری ذرائع کے مطابق کانفرنس کے ایجنڈے اور دیگر معاملات پر ابھی مزید مشاورت اور اور غور و فکر جاری ہے۔

میثاق پاکستان کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ بنیادی طور پر 2006 ء میں ہونے والے میثاق جموریت کا تسلسل ہے، کہ میثاق جمہوریت اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیلز پارٹی اور مسلم لیگ ن شامل تھیں جب کہ نو تشکیل اتحاد میں 8 سے 10 سیاسی جماعتیں شامل ہوں گیں، اسی لیے اس اتحاد کا نام میثاق پاکستان تجویز کیا گیا ہے۔

اتحاد نو کا بنیادی نکتہ ایک پلیٹ فارم سے حکومت مخالف تحریک چلانا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت شاید پہلی حکومت ہوگی جس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی تیاری کا عمل انتخابات کے اگلے روز ہی سے شروع ہوگیا تھا اور اس کا بڑا سبب وہ خرابی تھی جو تحریک انصاف کی تشکیل نو اور انتخابات میں اس کی کامیابی کے پس منظر میں موجود تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا اصرار ہے کہ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوچکی ہے اور اس کا مزید اقتدار میں رہنا ملک کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوگا۔

اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا صرف ان ہاؤس تبدیلی سے حکومت تبدیل ہوگی؟ یا نئے انتخابات کے ذریعے تمام کا تمام سیٹ اپ تبدیل ہوگا؟ اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہے، کیونکہ حالیہ بارشوں کے سلسلے نے پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اس کا ادراک ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف تحریک رنگ لے بھی آئی اور انتخابات کا اعلان ہوگیا اور صاف و شفاف انتخابات منعقد ہو گئے تو پیپلز پارٹی کے لیے سندھ کے اقتدار کا حصول بھی ناممکن ہوگا۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی اس کمزوری کا اپنی طاقت بنانا چاہتے ہوئے

نئے انتخابات پر بضد ہے اور اس نقطہ نظر کو نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت حاصل ہے، رہے شہباز شریف، تو ان کا معاملہ بین بین نظر آتا ہے۔ یہ اتحاد کس قدر کارگر ہوگا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی سنجیدگی کا معیار کیا ہے؟ اس کا اندزاہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار روز قبل شاہد خاقان عباسی کی زبان سے یہ بات کہلوایا گیا کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں مریم نواز کی شرکت حتمی نہیں ہے۔ مریم نواز مسلم لیگ کی صف اول کی عہدیدار ہیں، ایک زمانے میں تو ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ خاموش ہی نہیں رہتا تھا اور اب بالکل ہی خاموش ہے، مریم اکثر و بیشتر اپنی کسی نہ کسی سرگرمی سے سیاسی ماحول میں ہلچل بھی پیدا کردیتی ہیں، اگر ان کی ہی شرکت حتمی نہیں ہے تو لگتا یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کا ان ہاؤس تبدیلی کا نقطہ نظر ہی کانفرنس میں منظور ہوگا۔

ہماری اب تک کی سیاسی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ حکومت مخالف اتحاد حکومت کی پالیسیوں کا مثبت متبادل دینے کی بجائے شکست کے انتقام کے نتیجے میں وجود پاتے ہیں۔ قومی خدمت اور ترقی کے حوالے سے اگر حزب اقتدار کا دامن خالی ہے تو اس معاملے میں حزب اختلاف کی جماعتیں بھی بانجھ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ حکومت ہے، انھیں کس نے روکا ہے کہ وہ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کے عوام کی خدمت نہ کریں؟ ، آج جوں ہی وفاقی حکومت نے کراچی کے لیے ایک بار پھر ترقیاتی پیکچ کا اعلان کیا بلاول بھٹو شہر شہر علاقہ علاقہ جاکر عوام کے ساتھ نئے عہد و پیمان باندھ رہے ہیں۔ کراچی میں خطاب کے دوران اس جماعت کو للکارنا شروع کر دیا جس کے لطف و الطاف کو زوال پذیر ہوئے بھی سالوں بیت گئے۔ بلاول بھٹو نے خاص کر کراچی کی بہتری کے لیے نئے عزم کا اظہار بھی کیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول کے یہاں پشیمانی کا دور دور تک بھی شائبہ نہیں پایا جاتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے اخباری بیانات پڑھ لیں، پریس کانفرنس اور ٹی وی چینلز پر گفتگو سن لیں دو ہی باتیں ملیں گی، ایک حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ اور دوسرا نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات کا دفاع، اگر نہیں ہے تو صرف مناسب متبادل پروگرام۔

سیاست جس کا مقصد نظم اجتماعی کے تحت ریاست کے معاملات کو چلاناہے، جسے اجتماعی دانش بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ جواب سیاسست ہی کے پاس ہیں کہ اقتدار کس کے پاس اور کیسے ہوگا؟ ، انسانی معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ ، قانون سازی اور قانون پر عمل در آمد کیسے ہوگا؟ لیکن ہمارے یہاں تو سارے ہی ستونوں نے سیاست کے ایسے کس بل نکالے ہیں کہ سیاست خدمت کی بجائے گالی بن چکی ہے۔ جو ہوا سو ہوا! لیکن آج بھی ہمارے سیاست دان اور با اختیار ادارے ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے اسی راہ پر گامزن ہیں، جس کے سبب آج ملک کی یہ حالت ہے۔ اگراپوزیشن جماعتیں ذاتی اور گروہی مفادات سے باہر نکل کر ملک و قوم کی خدمت میں سنجیدہ ہیں تو سیاست کو بازیچہ ء اطفال سمجھنے اور الزام تراشی کی بجائے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ٹھوس متبادل پروگرام پیش کریں اور نہیں تو کم از کم منیر ؔنیازی مرحوم کے ان اشعار ہی سے استفادہ کر لیں کہ:

کس دا دوش سی کس دا نیئں سی
ایہہ گلا ہن کر دیاں نیئں
ویلے لنگھ گئے توبہ والے
راتاں ہوکے بھرن دیاں نیئں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).