خوابوں کے تعاقب میں


اگر آپ اسلام آباد سے بذریعہ موٹر وے ہری پور جارہے ہیں اور گاڑی کی رفتار ایک سودس ہے، تو خان پور انٹرچینج تک ایک گھنٹہ میں پہنچ جائیں گے،جیسے ہی انٹر چینج سے اُتریں گے توایک کشادہ سڑک باہیں پھیلائے جاگتی پائی جائے گی،یہ خان پور سڑک کہلاتی ہے ،آپ ہری پورکی اُور ہولیں، چند ہی منٹ بعد پنیاں چوک میں ہوں گے۔

اس چوک سے دائیں جانب اندر ہوجائیں تو ٹی آئی پی ہائوسنگ کالونی جا پہنچیں گے ،اس کالونی کی سٹریٹ فائیو میں داخل ہوجائیں اور اس کی آخری سے پہلی بائیں طرف والی گلی میں مُڑ جائیں ،بائیں ہی ہاتھ کے تیسر ے گھر کا دروازہ بجائیں ،جیسے ہی لمبے بالوں والی شخصیت دروازہ کھولے گی، ہر کمرے میں موجود کتابیں ،آپ کو خوش آمدید کہیں گی۔

اس گھر میں دستر خوان ہر وقت بچھا رہتا ہے، کچن کا چولہا ٹھنڈ انہیں ہوتا۔ یہ ہری پور شہر ہے ،تاریخ کا سینہ۔اس شہر کی بنیاد اَٹھارہ سواکیس میں سکھ جنرل ہری سنگھ نے رکھی۔اُنیس سواُنتیس میں اس شہر میںجیل کی تعمیر کی گئی ،جو پنیاں چوک سے آدھ کلومیٹر شہر کی جانب واقع ہے۔اس جیل میں تحریکِ آزادی کی اہم شخصیات نے قیدوبند کی صعوبتیں اُٹھائیں،جن میں جواہر لعل نہرواور باچا خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

اس جیل کی کہانی بڑی متاثر کن ہے۔ا س کی تعمیر کے لیے جگہ یہاں کی ایک مالدار خاتون نے عطیہ کی ،مگر اُس عظیم خاتون نے دوشرائط رکھی تھیں،پہلی شرط یہ تھی کہ جیل میں پھانسی گھاٹ نہیں بنایا جائے گا اور دوسری شرط یہ تھی کہ جیل میں کسی خاتون کو قیدمیں نہیں ڈالا جائے گا۔مگر دوہزار پندرہ میں ایک شرط سے منہ موڑا گیا اور پھانسی گھاٹ بنایا گیا۔جیل سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر گھوڑاچوک آجائے گا،یہ اس شہر کا اکلوتا چوک ہے ،جس میں گھوڑا اور سوار موجود ہیں ،مگر دونوں کی حالت بہت مخدوش ہے۔

گھڑ سوار ہری سنگھ نہیں ،جبکہ ہونا چاہیے تھا۔یہ چوک شہر کے عین وسط میں ہے۔یہاں ایک تیلی محلہ ہے ،جس کا نام بعدازاں تبدیل کرکے محلہ قتیل شفائی رکھا گیا، یہاں گیتوں کے بادشاہ کا گھر موجود ہے۔ اس شہر میں مجموعی طورپر چار چھوٹے ریلوے اسٹیشن ہیں۔پاکستان ریلوے کا آخری سٹیشن حویلیاں کا ہے ،جو ہری پور سے لگ بھگ بارہ تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایبٹ آباد کے راستے میں پڑتا ہے۔ا س شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن میں ممتاز دانشور،کالم نگار،شاعر اور سماجی شخصیت منو بھائی کے والد اسٹیشن ماسٹر رہے،یوں منو بھائی کا بچپن(ساٹھ کی دہائی) یہاں گزرا اور اُن کے پائوں کے نشانات گلیوں میں ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔

ممتاز سیاست دان سرتاج عزیز نے ابتدائی تعلیم اسی شہر سے پائی ،اُن کے والد قیامِ پاکستان سے قبل یہاں تحصیل دار تھے۔تحریکِ آزادی میں شامل ایک شخصیت حکیم عبدالسلام ہزاروی کا تعلق اسی شہر سے ہے،یہ آل انڈیا کانگریس خیبر پختونخوا (سرحد) کے صدررہے ہیں، بعدازاں یہ سبھاش چندربوس کی تحریک کا حصہ بن گئے ،سبھاش چندر بوس ،کانگریس کے صدر رہے ،مگرگاندھی سے سیاسی ٹکرائو کی بنیاد پر یہ کانگریس سے الگ ہوگئے اور خفیہ طریقے سے جرمنی کا سفر باندھا۔

ایک تاریخی روایت کے مطابق جب یہ کلکتہ سے سفر کرتے ہوئے گولڑہ ریلوے اسٹیشن پر اُترے تو حکیم عبدالسلام ہزاروی نے استقبال کیا اور یہ دونوں شخصیات پیدل مارگلہ کی پہاڑیوں سے ہوتیںہری پورپہنچی تھیں۔

ہری پوری کی ایک اہم شخصیت ڈاکٹر ایم اے صوفی ہیں جو ملک کے پہلے ڈینٹل کالج کے پرنسپل رہے ،معروف قانون دان احمر بلال صوفی ان کے بیٹے ہیں۔یہ شہر سابق صدر جنرل ایوب خان کا بھی ہے۔جن کا خاندان ملکی سیاست میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔سکھوں نے اس شہر کو تعلیمی ادارے دیے ،اس وقت سب سے بڑا سرکاری سکول سکھوں کا قائم کردہ ہے۔یہ ایک اقامتی ادارہ بھی ہے۔

یہ شہر گھنے پھل دار درختوں اور سبزیوں کے کھیتوں میں گھِرا ہوا ہے۔ آپ اس شہر کے جس ’’کتاب گھر‘‘میں داخل ہوئے تھے ،یہ زاہد کاظمی کا گھر ہے۔یہ شخص بلاشبہ ہری پوری کی جدید تاریخ کا چہرہ ہے۔اِنہوں نے لگ بھگ بیس برس قبل اپنے آبائوں گائوں بریلہ میں لائبریری قائم کی تھی،جس میں اس وقت پینتیس ہزار سے زائد کتب ہیں ۔اس لائبریری کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں اُردو زبان میں بارہ سواور انگریزی زبان میں چار سو سے زائد آپ بیتیاں ہیں۔

یہ ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔اِس ذخیرہ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ غیر معمولی رہی ہے ،دس کے قریب ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے سکالرز نے اپنا زیادہ تحریری مواد اِن آپ بیتیوں سے لیا۔ اس گائوں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر محلہ جوڑیاں قبطہ ،یونین کونسل بریلہ میں ایک سکول ’’باب العلم‘‘موجود ہے۔اس سکول کی کہانی بہت نرالی اور قابلِ تقلید ہے۔یہ ایک روپیہ ماہانہ علامتی فیس کا حامل سکول ہے۔اس میں اُن والدین کے بچے زیرِ تعلیم ہیں ،جو بہت کم مالی وسائل رکھتے ہیں۔

سکول کی بنیاد دوکمروں سے رکھی گئی تھی اور ابتدائی طورپر ایسے پچاس بچوں کو،جن کے والدین ماہانہ آٹھ دس ہزار بہ مشکل کماپاتے تھے،کو داخلہ دیا گیا۔اب یہ تعداد چارسال بعد ایک سوچالیس کے قریب ہے۔ہر بچے پر سالانہ پینتیس ہزار روپے خرچ آتے ہیں ،جس میں کتب، سٹیشنری، بیگ، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور کھانا(کھانا ابھی شروع نہیں ہوسکا)شامل ہیں۔اس میں نو افراد پر مشتمل سٹاف کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔یوں ایک بچے کی اسپانسر شپ کی رقم پینتیس ہزار روپے سالانہ ہے۔

ایک سوکے قریب بچوں کی فیسیں مخیر حضرات کی جانب سے دی جاتی ہیں۔یہ سکول روادار سماج کی تشکیل کا خواب نامہ ہے۔یہ خواب کس کی آنکھوں میں اُترا؟صاف ظاہر ہے کہ بیس برس قبل پہاڑوں کے دامن میں چھپے گائوں کے ایک گھر میں لائبریری کی بنیاد رکھنے والے شخص کی آنکھیں ہی ایساخواب دیکھ سکتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).