موٹروے ریپ کیس کی ابتدائی رپورٹ


ذرائع کے مطابق پولیس کی ابتدائی تحقیق میں خاتون کی بیان کردہ ایف آئی آر کو درست پایا گیا ہے اور پولیس نے سرگرمی سے مجرموں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ کل یہ اندوہناک خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی اس کا نوٹس لیا تھا۔

ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کی سربراہی میں پولیس کی 20 ٹیمیں تفتیش میں مصروف ہو چکی ہیں اور نصف درجن سے زائد مشتبہ افراد سے تحقیقات جاری ہیں۔ ڈی این اے شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیج، جیو فینسنگ اور نادرا ریکارڈ کی مدد سے ملزمان کی تلاش کی جا رہی ہے۔

خاتون رات کے دو بجے کے بعد لاہور سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلی تھیں کہ گجر پورہ کے نزدیک گاڑی کا پٹرول ختم ہونے کے باعث ان کی گاڑی بند ہو گئی۔ انہوں نے تین بجے اپنے عزیز کو کال کی جنہوں نے انہیں فوراً 130 پر کال کر کے موٹر وے پولیس سے مدد لینے کا کہا اور خود گوجرانوالہ سے ان کی لوکیشن پر تقریباً چار بجے پہنچ گئے جہاں انہیں خالی گاڑی کھڑی ملی جس کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور وہاں خون کے دھبے موجود تھے۔

موٹر وے پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ جگہ ان کی حدود میں شامل نہیں ہے اور رنگ روڈ کی حدود میں ہے۔ اس صورت میں بھی ان کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی ہے۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ایک اکیلی خاتون اگر رات کے تین بجے انہیں ایک ویرانے میں سڑک پر بے یار و مددگار کھڑی مدد کے لیے کال کر رہی ہے تو کیا یہ موٹر وے ہیلپ لائن کا فرض نہیں بنتا کہ اس معاملے کو انتہائی اہمیت دے اور رنگ روڈ اور لاہور پولیس کو فوراً مطلع کرے تاکہ اس کا اور اس کے بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے؟

اسی بارے میں

لاہور موٹروے ریپ: بارہ مشتبہ افراد گرفتار۔ ملزمان کے گاؤں کی نشاندہی ہو گئی
لاہور: موٹروے کے قریب خاتون کے ساتھ مبینہ ریپ، ڈکیتی، وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا نوٹس
 لاہور کے نواح میں موٹر وے پر بچوں کے سامنے خاتون سے اجتماعی زیادتی

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).