نئی ریاست مدینہ کے موٹر وے پر بے فکری سے ڈرائیو کرتی محفوظ عورت


ملازمت کے تین مہینے بعد افسر اعلا نے میری کارکردگی سے خوش ہو کے تنخواہ میں دس ہزار اضافہ کر دیا۔ ہم کاروں کو کھانے کی دعوت دی۔ پروڈیوسر، ایسوسی ایٹ پروڈیوسر، اسسٹنٹ سبھی تین سے چار گاڑیوں میں سوار ہو کے سپر ہائے وے کی طرف بڑھے۔ رش کے باعث کوئی آگے چلا گیا تو کوئی پیچھے رہ گیا۔ ہم تین دوست ایک کار میں تھے۔ یاسر ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔ اس نے کار الآصف اسکوائر کے بالکل سامنے کھڑی کر کے ٹیلی فون کال کی، کہ پتا کریں باقی ساتھی کہاں رہ گئے ہیں۔ الآصف اسکوائر کے سامنے بسوں کا اڈا ہے، اور بہت پر رونق علاقہ ہے۔ جنھیں کال کی گئی تھی وہ ہم سے بہ مشکل ایک منٹ کی دوری پہ تھے۔ جونہی کال ڈس کانیکٹ ہوئی، ڈرائیونگ سیٹ کی طرف کے شیشے پر دستک ہوئی۔ ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا ہاتھ میں پسٹل لیے کھڑا تھا۔ اتنے میں فرنٹ سیٹ کے دروازے کے سامنے ایک تیرہ چودہ سال کا لڑکا، اپنے ساتھی کو کور دینے ‌آ گیا۔ یہ سب اتنا آناً فاناً ہوا کہ کچھ اور سوچنے کا لمحہ ہی نہ ملا۔ آٹھ دس سال پہلے کراچی میں یہ معمول کا واقعہ تھا کہ راہ چلتے ڈکیتی ہو جائے۔

کراچی میں قیام کے دنوں میں یہ تربیت ہوئی کہ جیب میں اتنی ہی رقم لے کے چلو، جو کھو جائے تو صدمہ محسوس نہ ہو۔ سپر ہائے وے جاتے میں ایک اے ٹی ایم سے رقم لینے گاڑی سے اترا تھا۔ ایک یہ وجہ بھی ہوئی کہ ہم قافلے سے بچھڑ گئے تھے۔ عامل معمول کے تماشے کی طرح یاسر نے شیشہ اس حد تک نیچے کیا کہ سیل فون پکڑایا جا سکے۔ لیکن عامل مطمئن نہ ہوا اور بٹوے کا مطالبہ بھی کیا۔ یاسر کو میں اکثر چھیڑتا تھا، کہ تم بیوی سے اتنی ہی پاکٹ منی لاتے ہو، جس میں سے کسی دوست کو چائے تک نہ پلائی جا سکے۔ ڈاکو یہ بات کیا جانے کہ یاسر کا بٹوا خالی ہے۔ دوسری طرف شبیہ حیدر بیٹھا تھا، تیرہ چودہ سالہ ڈاکو نے شبیہ کا ٹوٹا پھوٹا سیل فون ہتھیاتے بے وجہ ہی اس کے منہ پر مکا جڑ دیا۔ میں پچھلی سیٹ پر تھا۔ اب وہ بچہ میری طرف بڑھا۔

اے ٹی ایم سے نکلوائے تازہ تازہ خوش بو دیتے نوٹ میری پاکٹ میں تھے، جن کے لٹنے کا افسوس میں اولین لمحوں ہی میں کر چکا تھا۔ میرے شکستہ فون کو نظر انداز کر کے بچے نے میری جیب کو یونہی ٹٹولا، جوں ناکے پہ کھڑا سپاہی، نا چار شہری کو ٹٹولتا ہے۔ اس کے نصیب برے کہ دوسری جیب میں موجود بڑے نوٹوں کے بہ جائے بٹوے میں رکھے سو دو سو ہی دکھائی دیے۔ یہ سب محض پینتیس سے چالیس سیکنڈ کی واردات کا احوال ہے۔ دونوں کم سن ڈاکو لوٹنے کے بعد الآصف اسکوائر کی طرف نہایت سکون سے بڑھے جیسے سنیما ہال سے پکچر دیکھ کے نکلے ہوں۔

ڈاکو ابھی نگاہ ہی میں تھے کہ دوسری کار ہمارے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔ ہم کار کلی طور پہ بے خبر تھے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے کیا نہیں۔ جونہی انھیں بتایا گیا، وہ دیکھو وہ ڈکیت جا رہے ہیں جو ہمیں لوٹ گئے، تو ہم کاروں میں سے ایک نے انھیں للکارا۔ آواز سن کے ڈاکو بھاگ کھڑے ہوئے۔ ساتھیوں میں سے کچھ نے ان کا پیچھا کیا، لیکن وہ لڑکے الآصف اسکوائر میں داخل ہو کے کہیں گم ہو گئے۔ اگر کوئی ہدایت کار اس منظر کو فلمانا چاہے، تو بھرے بازار میں جتنے بھی ایکسٹرا کیریکٹر بھرتی کرے، انھیں ہدایات دے کہ وہ ایسے اداکاری کریں، جیسے وہ شہری اس منظر کا حصہ ہی نہیں ہیں۔

کھانا کھانے سے پہلے ہی کھانے کا مزہ کرکرا ہو چکا تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ تھانے میں رپٹ درج کروائی جائے۔ سو دو سو میٹر آگے جا کے یو ٹرن لیا تو شہریوں کی ہر دم حفاظت کے لیے رینجرز کا ناکا لگا دکھائی دیا۔ ان سے کیا کہنا تھا اور کیا کہتے۔ ہم تھانے پہنچے، مدعا بیان کیا۔ ظاہر ہے میڈیا پرسن ہونے کا بھرم بھی تھا۔ تھانے دار نے نہایت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہمیں کرسیاں پیش کیں۔ پھر ہم سے چند لمحوں کی اجازت چاہی اور اس دوران میں ایک شہری کو کان پکڑوا کے توبہ تائب کیا۔ اس فرض سے سبک دوش ہو کر ہمارے سامنے آ کے نہایت خوش دلی سے چائے پانی کا پوچھا۔

تفصیل سن کے تھانے دار نے تاسف بھرے لہجے میں بتایا کہ وہ علاقہ ہی بد نام ہے۔ پھر نہایت شفیق لہجے میں سمجھایا کہ آپ کو وہاں ٹھیرنا تو کیا، وہاں سے گزرنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ ایسا سن کے کس غیرت مند کے کان لال نہ ہوئے ہوں گے۔ قریب تھا کہ میں غصے کا اظہار کرتا اور اس شہری کی طرح جسے تھوڑی دیر پہلے کان پکڑوا کے گناہوں سے توبہ کروائی گئی تھی، مجھے بھی توبہ پر مجبور ہونا پڑتا، میرے سینیئر نے بات سنبھال لی۔ تھانے دار نے شفقت سے سمجھایا کہ میں ایف آئی آر تو کاٹ لوں گا، لیکن آپ کو آئے دن شناخت پیریڈ کے لیے تھانے بلایا جائے گا۔ آپ ملازم لوگ کہاں خجل خوار ہوتے پھریں گے۔ بہتر ہے جو ہوا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے بھول جائیں اور شکر ادا کریں آپ کی جان سلامت ہے۔

میڈیا کا رعب، میڈیا کی دھونس، بڑے افسروں کو کی گئی کالیں، اور تھانے میں گھنٹا ڈیڑھ کی تکرار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ایف آئی آر کٹی بھی تو الٹا ہماری قسمت ہی میں خواری ہے۔ ڈکیتی میں گیا ہی کیا تھا کہ صدمہ ہوتا، تھانے میں وہ غرور لٹا، وہ عزت گئی، وہ مان گیا کہ آپ اس ملک کے معزز شہری ہیں، جہاں ریاست آپ کے تحفظ کے لیے دن رات جاگتی ہے۔ شکر الحمد للہ! شکر الحمد للہ! اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر بجا لائیں وہ کم ہے کہ ہم ان نا چاروں میں سے نہیں جنھیں کان پکڑوا کے راۂ راست پر لایا جاتا ہے۔ میں نے دوستوں سے کہا، چلو آؤ بھول جاؤ۔ سپر ہائے وے چلتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ میری جیب سے سو دو سو ہی گیا ہے، باقی رقم محفوظ ہے۔

گزشتہ شب رپورٹ ہوا کہ لاہور کے نواح میں موٹر وے پر ایک خاتون کا ریپ ہوا ہے تو پہلے یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا بھی کیا اندھا راج کہ موٹر وے جیسے محفوظ سفر میں ریپ ہو اور کوئی مدد گار نہیں! پھر پولس کی ابتدائی تفتیش سے ثابت ہوا کہ مظلوم کی شکایت درست ہے۔

پولس چیف عمر شیخ نے جب میڈیا پہ یہ موقف اپنایا کہ خاتون کو رات کے چار بجے، بچوں کے ساتھ اکیلے سفر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، تو پہلے میں نے شکر ادا کیا، شکر الحمد! شکر الحمد! اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ عورت ہمارے گھر کی نہیں، پھر مجھے اصلی ریاست مدینہ کے بعد کے دور میں آنے والے سرکاری تاریخ نویسوں کا گھڑا وہ فسانہ یاد آیا، جب صحرا میں اکیلی عورت سفر کرتی تھی اور کوئی اس پہ میلی نگہ نہیں ڈال سکتا تھا۔

دنیا میں آپ کسی بھی مقام پر لٹ سکتے ہیں، ریپ ہو سکتا ہے، قتل ہو جاتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے کوئی ڈاکو کے ہاتھ لٹے، پھر محافظ صبر کی تلقین کرے کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ پہلے ریپسٹ کپڑے اتارے پھر سرکاری اہل کار ننگا کر کے چوک میں کھڑا کر دے۔ یہ پاکستان میں ہوتا ہے۔

سرکاری تجزیہ کار آج بھی ایسی ہی تاریخ لکھ رہے ہیں : ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ ہم افغانستان نہیں، کشمیر نہیں، فلسطین نہیں، جہاں ہماری ماؤں بہنوں، بیٹیوں کی عزت محفوظ نہ ہو۔ شکر الحمد للہ! یہ ملک سلامت ہے تو ہم سلامت ہیں۔ ہم اسرائیل کی تابع ہوتے، بھارت کا حصہ ہوتے تو نہ جانے ہمارا کیا احوال ہوتا۔ خدا اس ملک کو تا قیامت سلامت رکھے، جہاں ہم آزادی سے سانس لیتے ہیں۔ آمین!

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran