خواجہ فرد فقیر اور نخل سخن کا سوز دروں


سخنوروں کی بستی گجرات شعروادب کا اہم مرکز رہی ہے۔ یہ مشہور زمانہ ”نخل سخن“ کی ہی کرامت ہے کہ یہاں شعروشاعری کی بہار ہمیشہ قائم رہی ہے۔ اس کا چشمہ فیض گجرات میں محلہ شاہ حسین میں صوفی بزرگ شاہ حسین ملتانی کے مزار سے مغرب میں ملحقہ خواجہ فرد فقیر کی قبر ہے جو مسجد کے صحن میں ایک کونے میں واقع ہے۔ قبر کے ساتھ ایک درخت ہوا کرتا تھا جو آج نظر نہیں آیا اسے ”نخل سخن“ کہا جاتا تھا۔ روایت مشہور تھی بلکہ ہے کہ اس کے پتے کھانے سے شاعری کا سوز دروں پیدا ہوتا ہے۔

اور پتے کھانے والا سخنور بن جاتا ہے۔ شاید اسی نخل سخن کا ہی فیضان ہے کہ اس کی مہک سے گجرات شہر رنگ و بو بن گیا۔ ویسے گجرات شہر کا قدیم نام بھی ”اودھے نگری“ ہی ہے جس کے معنی بھینی خوشبوؤں کا شہر ہے۔ آج 07 ستمبر کی شام گجرات کے ادب دوست استاد ڈاکٹر ایم ابو بکر فاروقی سے عرض کیا کہ کئی سال قبل خواجہ فرد فقیر کی قبر پر حاضری دی تھی تب درخت بھی موجود تھا۔ آج صحت کی بحالی کے بعد ایکبار پھر قلم و قرطاس سے رابطہ بحال کرنے کی خواہش کے ساتھ قبر پر جانا چاہتا ہوں تو ابو بکر فاروقی نے فوراً حامی بھری اور مجھے لے کر محلہ شاہ حسین پہنچے۔

مسجد اور دربار کی تعمیر نو و تزئین و آرائش سے نقشہ بدلا بدلا پایا اور پھر اٹھارہویں صدی کے سچے اور سچے مرد فقیر، پنجابی کے نامور شاعر، صوفی، درویش صفت عالم دین خواجہ فرد فقیر کی قبر نظر آئی۔ پندرہ، بیس سال پہلے قبر پر کتبہ موجود نہ تھا آج کتبہ موجود تھا جس کی وجہ سے قبر پہچاننے میں مدد ملی۔ نامور محقق ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے اپنی کتاب ”خفتگان خاک گجرات“ میں خواجہ فرد فقیر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی زندگی کے بارے بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

محققین کے لیے ان کے احوال و آثار کی معلومات کا ذریعہ بھی ان کی رچناواں ہی نظر آتی ہیں۔ انہی میں ان کے جیون کے متعلق اشارے ملتے ہیں۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ فرد فقیر اپنے عہد کے ممتاز پنجابی شاعر اور قرآن، حدیث اور فقہ کے عالم تھے۔ ڈاکٹر منیر سلیچ نے ان کی پیدائش کا سن اندازہً 1710 ء لکھا ہے جبکہ بعض دیگر لکھاریوں نے 1720 ء رقم کیا ہے۔

خواجہ فرد فقیر نے ساری حیاتی بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ وہ فارسی بھی خوب جانتے تھے لیکن ماں بولی سے محبت کے جذبے کی بدولت شعروسخن کے لیے پنجابی زبان کا ہی انتخاب کیا۔ وہ پنجابی میں بڑی بلند پایہ اور فکر انگیز شاعری کرتے تھے۔ صوفیانہ مزاج و افکار کی جھلک بھی ان کے پنجابی شعروں میں نمایاں ہوتی تھی۔ سی حرفیاں، باراں ماہ، دوہڑہ جات، کسب نامہ حجاماں، کسب نامہ بافندگان، ان کی مشہور پنجابی تصنیفات ہیں۔

ان کا تعلق گجرات سے تھا کا پتہ بھی ان کی تحریروں سے ہی ہوتا ہے۔ ”باراں ماہ“ کے آخر میں یہ الفاظ چھپے ہیں کہ ”تمام شد باراں ماہ فردفقیر مرحوم و مغفور ساکن گجرات۔ ملک پنجاب۔ خانصاحب پروفیسر قاضی فضل حق اپنے ایک مضمون جو“ فرد فقیر ”کے نام سے مجلہ“ پنجابی دربار ”لائل پور کے اگست 1928 ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ میں رقمطراز ہیں کہ“ بولی ولوں وی ایہ صاف معلوم ہوندا اے کہ اینہاں دا وطن مبارک ”پنجاب دا یونان“ گجرات ای سی۔ ”گجرات کو خطہ یونان کی شہرت بھی حاصل ہے۔ خانصآحب کا خیال ہے کہ سی حرفی فرد فقیر پنجابی کی عمومی سی حرفیاں نہیں ہیں بلکہ منفرد بحر میں لکھی گئی ہیں۔ یہ بحر عام طور پر“ واراں ”میں استعمال کی جاتی تھی۔

بارہ ماسے جنہیں پنجاب میں بارہ ماہ کہتے ہیں بہت مشہور ہے اور کثیر تعداد شعراء نے اس میں لکھا ہے۔ قاضی فضل حق نے ہی اپنا ایک مضمون ”پنجابی لٹریچر“ جو انہوں نے اپریل 1936 ء میں ادارۂ معارف اسلامیہ کے دوسرے اجلاس منعقدہ لاہور میں پڑھا میں کہا تھا کہ ”سب سے پہلا شاعر جس سے ہم آشنا ہوتے ہیں فرد فقیر جس کا بارہ ماسہ فرد پریم کے نام سے مشہور ہے۔ بارہ ماسہ دراصل ایک شوہر سے بچھڑی ہوئی مہجور عورت کی داستان درد ہوتی ہے جو ہر مہینے اپنے محبوب کے انتظار میں واویلا کرتی رہتی ہے۔ اور ضمنناً ہر مہینے کی موسمی خصوصیتیں بیان کر کے اپنے دل سوزش کی آتشیں زبان سے ترجمانی کرتی ہے۔ قاضی صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ“ اک ہور شخص مہتاب نال انہاں نوں بڑی محبت معلوم ہوندی اے تے بھانویں باراں ماہ لکھے گئے وی اسے لئی ہون۔ فرد فقیر کہندے نیں۔

کوئی آکھے جا مہتاب نوں
کہیہ کیتو فردؔ بے تاب نوں
تیری تاب بغیر نہ تاب ہے
دینہ سکھ نہ راتیں خواب ہے

فرد فقیر کے بارہ ماہ اپنی قسم کے بڑے دلکش نمونے ہیں۔ ہر مہینے کے لیے چار بند ہیں۔ ہر بند میں تین بیت ہیں۔ تمہید اور خاتمہ ملا کر اس میں کل 162 شعر ہیں۔

اسی طرح ان کی کسب نامہ بافندگان شائع ہوئی اس میں بھی انہوں نے اپنے دو شاگردوں کا نام دیا ہے۔ ایک رسالہ کسب نامہ حجاماں کے نام سے اپنے ایک نائی شاگرد دسوندھی کے کہنے پر لکھا۔ اسی طرح اپنے ایک اور جولاہے شاگرد جس کا نام بھی ملاں دسوندھی ہی تھا کے کہنے پر ”کسب نامہ کاسبیاں“ لکھا۔ اس رسالہ میں 167 بیت ہیں جن میں جولاہوں کے پیشے کی فضیلت بتائی گئی ہے۔ کچھ کلام سی حرفیاں، نصیحت نامہ اور کسب نامہ بافندگان ملا کر لاہور سے ”دریائے معرفت“ کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا۔

ڈاکٹر منیر سلیچ کے مطابق ”نعمت نامہ“ ، ”فقر نامہ“ اور ایک اردو نظم بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔ فرد فقیر کے کلام میں کمزور، اور پسے ہوئے محنت کش طبقات کی زبردست حمایت اور ان طبقات پر ہونے والے مظالم کا ذکر اشعار میں جابجا ملتا ہے۔ قاضی فضل حق کے مطابق دیہاتوں اور قصبات کے مدرسوں و مکتبوں میں لاکھوں بچوں کو پڑھائی اور یاد کروائی جانے والی کتاب ”روشن دل“ بھی فرد فقیر ہی کی تصنیف ہے اور مصنف اس کا نام، اپنے کلام میں ”فرائض ہندوی“ لکھتا ہے۔

اس کتاب میں ہر اس بنیادی بات کا تھوڑا تھوڑا ذکر ہے جسے ہر ایک مسلمان کے لیے جاننا ضروری ہے لیکن سب سے دلچسپ بات انسان اور شیطان کے تعلق بارے ان کی سیدھی رائے ہے ساری بات کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”سبھے گلاں اوسدیاں بدیاں سر شیطان“ ۔ خواجہ فرد فقیر کے نام کے ساتھ جڑا فقیر کا لفظ ہی اس فقیرمنش اور درویش صفت سخنور کے مزاج کا عکاس ہے۔ صوفیانہ کلام استادانہ کمال کے ساتھ کہتے تھے۔ اس لیے فرد فقیر کے متعلق عارف کھڑی شریف میاں محمد بخش نے فرمایا تھا کہ

فرد فقیر ہویا کوئی خاصہ مرد صفائی والا
فقہ اندر بھی چست سخن ہے، عشق اندر خوشحالا

خواجہ فرد فقیر نے لگ بھگ 1790 ء کے داعی اجل کو لبیک کہا اور گجرات کے مشہور فوارہ چوک سے پرنس چوک کی طرف آتے ہوئے محلہ شاہ حسین میں دفن ہوئے۔ میں نے ڈاکٹر ایم ابو بکر فاروقی کے ہمراہ حاضری دی، دعائے مغفرت کی اور فردفقیر کی خدمات کو یاد کیا۔ احاطہ سے باہر نکلے تو ایک قدیم درخت ابھی وہاں موجود پایا۔ یہ نخل سخن تھا یا نہیں اس کو چھوا اس کے پتے سونگھے اور ذہنی طور پر سخنوری کے آداب کے سے جڑنے اور انہیں قلب میں بسائے رکھنے کا عہد کیا۔ کاش اہلیان گجرات نخل سخن سے سوز دروں حاصل کرنے کی برکت سے جڑے رہیں کہ اب فرد فقیر کا شہر گجرات شعروادب کی روایت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ بعض روایات بے معنی ہونے کے باوجود پیروکاروں کو معنی آشنا کر دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).