صرف تجاوزات گرانا مسئلے کا حل نہیں


اس ملک میں ایک مسئلہ نہیں۔ یہاں کوئی معاملہ ایسا نہیں جو سیدھا ہو اور کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں عافیت ہو۔ جب بارش کم برسے تو قحط کی کیفیت ہوتی ہے اور اگر برسات زیادہ ہو جائے تو لوگ سیلاب سے مرنے لگتے ہیں۔ رواں سال بارشیں معمول سے کچھ زیادہ ہوئیں جس کے بعد سے پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں آخر یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا اس زوال اور خرابی کی وجہ کیا ہے؟

کون سی دنیاوی نعمت ہے جو ہمیں میسر نہیں اور قدرت نے اپنے خزانے عطا کرتے وقت ہم پر کہاں سختی کی۔ کیا اس ملک کی زمینیں زرخیز نہیں۔ یہاں معدنیات کی کمی ہے۔ یہاں کا موسم بے رحم اور اس کے مزاج میں سختی ہے، یا پھر آب و ہوا غیر معتدل ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں سال بھر بارش، دھند اور کہر کی چادر تنی رہتی ہے یا بالکل ہی قحط و خشک سالی ان کا مقدر رہتی ہے۔ کئی ملکوں میں سورج ہمیشہ سوا نیزے پر رہتا ہے اس کے باوجود ان کی حالت ہم سے بہتر ہے۔ ہمارے ہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے پہاڑ، گلیشئرز، دریا، سمندر، صحرا، زرخیز میدان اور زیر زمین پانی کی نعمت، سب سے بڑھ کر دنیا کی چھٹی بڑی افرادی قوت۔ کس چیز کی کمی ہے کہ پھر بھی ہم بارش کے پانی کی نکاسی کا قابل بھروسا سسٹم نہیں بنا سکتے؟

جب سے ہوش سنبھالا یہی سنتے آئے ہیں ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اقتصادی حالت دگرگوں ہے روزمرہ اخراجات کے لئے روپیہ دستیاب نہیں تو ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم کہاں سے نکالی جائے؟ حد تو یہ ہے کہ ملک کے معاشی حب اور سب سے بڑے شہر کراچی کے نالوں کی صفائی عالمی اداروں سے بروقت رقم نہ ملنے کے سبب نہیں ہو سکی۔ شرمندگی سے دیکھتے اور کڑھتے ہیں، اکلوتی اسلامی ایٹمی ریاست کے اعمال دنیا میں کشکول اٹھائے روزمرہ اخراجات کی ادائیگی کے لئے دربدر پھرتے ہیں۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، گردشی قرضے اور بیرونی ادائیگیاں، اس تقاضے کی وجہ ہیں سن سن کر کان پک چکے۔ کچھ خبر نہیں کب کیسے اور کیونکر یہ ادا ہوں گے اور سرطان کی طرح ان کی مسلسل بڑھوتری کا ذمہ دار کون ہے۔ درجن سے زائد بار آئی ایم ایف کے دروازے پر کاسہ گدائی اٹھائے پہنچنے کے بعد بھی ”ھل من مزید“ کی تکرار ختم کیوں نہیں ہوتی۔ سوال پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے بجلی، گیس کی چوری اور لائن لاسز بہت ہیں، لوگ اپنے حصے کا ٹیکس چھپاتے ہیں اس لئے یہ حشر ہے۔ درآں حالیکہ، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، نیلم جہلم سرچارج، ایف سی سرچارج، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے بعد حکمرانوں کے اللوں تللوں کی نذر کرنے کو عوام کے پاس باقی کیا بچتا ہے۔

یہ درست ہے کہ یہاں ٹیکس چوری اور کرپشن ہے لیکن اس سے نمٹنا کس کا کام ہے؟ کتنی بار یہاں عدلیہ، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور اینٹی کرپشن احتساب کا عزم لیے متحرک ہوئے ہیں۔ انقلابی فضا، نظام بدل دینے کا عزم اور پکڑو جانے نہ پائے کے نعرے بہت بار دیکھے اور بھگتے۔ پھرتیاں اور آنیاں جانیاں تو بہت ہوئیں مگر سفر دو قدم بھی نہیں بڑھا۔ وجہ پھر اس کے سوا کیا ہے کہ سیاست ہی نہیں بلکہ ریاست کے ہر طبقے اور گوشے پر بد عنوانی و لا قانونیت کا پنجہ گہرا ہے۔ بقول منیر نیازی۔ ۔ ۔

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

ایسا اگر نہ ہوتا۔ سرے محل، کوٹیکنا کیس، دس فیصد کک بیکس الزامات، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کہیں سے تو کچھ برآمد ہو جاتا۔ چلیں تسلیم کہ یہ ہاتھ قانون سے لمبے ہاتھ ہیں مگر، ڈاکٹر عاصم، تاجی کھوکھر، عزیر بلوچ، انور مجید، حسین لوائی، فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے مبینہ چھوٹے چوروں سے ہی کچھ نکل آتا۔ بیان کردہ ہر ایک نام پر لگے الزامات کا اگر صرف ایک تہائی ہی برآمد ہو جاتا تو کشکول ٹوٹنے کے ساتھ تمام دلدر دور ہو جانے تھے۔

سیلاب سے پورے ملک میں بہت تباہی ہوئی ہے اندرون سندھ کے اکثر علاقے مکمل ڈوب چکے ہیں۔ پورے کے پورے گاؤں کھلے آسمان تلے اپنے بچے کھچے مال مویشی لے کر سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ آئندہ کئی ماہ تک ان کی زمینوں سے پانی نکلنے اور اگلی فصل کی کاشت ہونے کی امید نہیں رہی۔ بلاشبہ بارش کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کو بھی بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا مگر کراچی کے نقصان کا موازنہ اندرون سندھ سے نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی مگر چونکہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس لیے میڈیا کی زیادہ توجہ وہاں مرکوز ہے۔

اب کراچی میں برساتی پانی سے ہونے والی تباہی کے بعد برساتی نالوں پر قائم تجاوزات قبضہ گروپوں اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف لٹھ اٹھانے کا ارادہ ہو رہا ہے۔ پراپرٹی ڈیلنگ اور بلڈنگ اینڈ ڈیویلپنگ کے خوشنما نظر آنے والے کاروبار کی آڑ میں واقعی کالے دھن اور جرائم کا جہاں پنہاں ہے۔ اس کیس کو سطحی نظر سے دیکھنے والا مگر اس میں پوشیدہ درد و الم محسوس نہیں کر سکتا۔ بہت آسان ہے زبان سے یہ کہہ دینا کہ سرکاری زمینوں پر قائم غیر قانونی گھر اور دکانیں گرا دی جائیں۔

کتنے ہی لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی اور بڑھاپے کا دار و مدار اس پر ہے۔ کتنے والدین کی انویسٹمنٹ صرف اس بنیاد پر ہو گی کہ ویلیو بڑھنے کے بعد پلاٹ کی فروخت سے بچی کے جہیز و نکاح کا انتظام ہو گا۔ غیر قانونی سوسائٹیز سے متعلق کوئی حکم جاری ہونے یا نالوں پر قائم مکانات گرانے سے قبل یہ سوچ بچار کون کرے گا کہ جو لوگ سادگی میں پھنس چکے ان کے خون پسینے کی کمائی کا تحفظ کیسے ہو گا۔ کیا غریبوں کی اتنی مجال ہے کہ وہ کسی آشیرباد کے بغیر خود سے کسی سرکاری اراضی پر مکان تعمیر کرکے بیٹھ جائیں یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے اپنی عمر بھر کی خون پسینے کی کمائی کسی غیر قانونی اسکیم میں لگا دیں؟

میں ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا ہوں صرف میرے شہر میں سوا دو سو سے زائد اسکیمز ہیں جن میں سے تقریباً دو تہائی کے قریب غیر قانونی ہیں۔ ان اسکیمز میں پلاٹ حاصل کرنے والے بیشتر افراد دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ چونا لگا کر اور جھنڈی دکھا کر لوٹنے والے سیٹھ تو قانونی موشگافیوں سے بچ جائیں گے، اگر کبھی کارروائی ہوئی تو غریب اپنی ادا کی ہوئی رقم کا تحفظ کیسے کرے گا؟

قانون اس وقت کہاں ہوتا ہے جب یہ اسکیمز کھمبیوں کی طرح اگنا شروع ہوتی ہیں؟ کسے خبر نہیں کہ معمولی پٹواری اور مختیار کار سے لے کر بہت اونچی مسندوں کی اس کار مکروہ میں معاونت ہوتی ہے۔ پراپرٹی کے شعبے میں کچھ مقدس ادارے بھی موجود ہیں میری اتنی اوقات نہیں کہ نام لے سکوں، ان کے متاثرین بھی قسمت کو رو رہے ہیں۔ غریبوں کو ان کی خون پسینے کی کمائی سے محروم کرنا اور ان کے سر سے چھت چھیننا شاید مسئلے کا عارضی حل تو ہو مگر یہ مستقل نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ مستقل بنیادوں پر اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک بد عنوانی کی اصل جڑیں ختم نہیں ہوتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).