فوجی بنیاد پر بنائی گئی مستقل سیاسی پارٹی کی تلاش


سیاست کسے کہتے ہیں؟ سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟ سیاسی تربیت کیسے کی جاتی ہے؟ سیاسی شعور کیسے پنپتا ہے؟ مہذب دنیا میں اس کا مطلب بھلے کچھ بھی ہو۔ لغت میں اس بارے جو بھی لکھا ہو۔ پاکستانی ہجوم کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ پاک سر زمین کے باسیوں کی اپنی لغت ہے۔ اپنی سوچ ہے۔ اپنا مطلب ہے۔ اپنا نظریہ ہے۔ لشکروں کی اپنی اصطلاحات ہوا کرتی ہیں۔

پاکستانی عوامی بولی میں، سیاست امیر لوگوں کی نسل در نسل عیاشی کا نام ہے۔ سیاست امیر لوگوں کے ماتھے کا جھومر اور غریب کے گلے کا طوق ہے۔ سیاست ایک ایسی گندگی ہے، جس سے غریب آدمی کو اپنی جان، مال اور عزت سب کچھ بچا کر صاف ستھرا رکھنا ہے۔ صفائی ویسے بھی نصف ایمان ہے۔ جب سے سیاست دھوکہ، جھوٹ اور فریب ہوئی ہے، تب سے مسجد میں سیاسی گفتگو کرنے پر مکمل پابندی ہے۔ اور مسلمانوں کے لیے تو ساری زمین ہی مسجد ہے۔ لہذا، عام آدمی کے لیے سیاست کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔

عام آدمی کے نزدیک سیاسی جلسے میں شرکت کا مقصد اپنی رہی سہی عزت / نوکری بچانا، بریانی کھانا اور ناچنا کودنا ہے۔ سیاسی لوگوں کی حمایت کا مطلب ان کے شر سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ووٹ کو قیمتی سمجھنے کا مطلب اس کی اچھی خاصی قیمت وصول کرنا ہے۔ اکثر تو ووٹ کو اتنی عزت بخشتے ہیں کہ اسے بیلٹ باکس میں ڈالنا اس کی توہین سمجھتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جہاں مردے بھی ووٹ ڈالنے بنفس نفیس تشریف لاتے ہوں، وہاں ’زندگی کے ہر شعبے میں سیاست‘ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

ہم سیاسی لوگوں سے زیادہ امیدیں بھی نہیں باندھتے۔ بس یہی نالی، گلی اور سڑک۔ ظاہر ہے پستی کے اسیر لوگ بد سے بھی بد ترین کے لائق ہوتے ہیں۔ پستی کی اتھاہ گہرائیاں ہی ان کی معراج ٹھہرتی ہیں۔

چند خاندانی کاروباری کمپنیاں، ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں کہلاتی ہیں۔ سیاست کا مطلب ہمارے ہاں انویسٹمنٹ ہے۔ زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا زیادہ منافع کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ آپ کو جس سیاسی کمپنی کا ٹھپہ چاہیے، اس کی سبسکرپشن فیس ادا کریں اور وہ انتخابی نشان آپ کا ہوا۔ آپ نے جتنی سیاسی پارٹیوں میں ’وقت لگایا‘ ہو گا، اتنا ہی آپ کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا۔

خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اعلیٰ ریاستی عہدے داروں، فوجی و غیر فوجی، کی تربیت ایسی ہے کہ یہ ہر مشکل وقت میں قوم اور ملک کا بھلا ہی سوچتے ہیں۔ ہر مصیبت کی گھڑی میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اب اس سیاسی خلا کو کسی خلائی مخلوق نے تو پر کرنا ہی ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ لیکن انتہائی بد قسمت ممالک کا سیاسی نظام ایسا پختہ ہے، سیاسی جماعتیں ایسی منظم ہیں اور عوام اس درجہ سیاسی شعور رکھتے ہیں کہ ان کا کوئی سپریم کمانڈر یا فوجی ہیرو ایک لمحے کے لیے دماغ میں یہ خیال نہیں لا سکتا کہ بگڑتے ہوئے حالات میں وہ بڑھ کر اقتدار پر قابض ہو جائے۔ یہ سعادت صرف ہمارے نصیب میں رکھی گئی ہے۔

ہمارے مائی باپوں نے مختلف قسم کے سابقے لاحقے لگا کر دنیا کے سارے بزنس کیے ہیں۔ اپنے اخراجات، اپنے وسائل سے پیدا کیے ہیں۔ غریب پاکستانی عوام پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔ نہیں کیا تو بس ایک کام نہیں کیا۔ اپنے نام سے اپنی مستقل سیاسی پارٹی نہیں بنائی۔ مختلف ناموں سے عارضی سیاسی پارٹیاں اور گھگو گھوڑے بناتے رہے۔ لیکن مستقل سیاسی پارٹی کا خیال نجانے کیوں نہیں آیا۔ حالانکہ، ہر الیکشن میں ادھر ادھر سے کانٹ چھانٹ کرنا بڑا سردرد ہے۔ راتوں رات جوڑ توڑ کر کے تخلیق کا درد سہنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس روز روز کے جھنجھٹ سے جان چھڑانے کا ایک ہی حل ہے۔ ایک مستقل سیاسی پارٹی، اپنے سابقے لاحقے کے ساتھ۔ جس کا نظم، تربیت اور شعور ایسا مثالی ہو کہ دنیا بھر کی سیاسی تحریکیں اس سے متاثرہوں۔

مسئلہ آئین کا ہے۔ تو آئین ہے ہی کیا؟ ردی کے بھاؤ بھی نہ بکنے والے چند کاغذات کے ٹکڑے۔ ہمیں ویسے بھی اک نئے ’عمرانی معاہدے‘ کی ضرورت ہے۔ نئے آئین میں ریاست کے ہر ادارے اور محکمے کو اپنے حصے کا سیاسی کردار ادا کرنے کی باقاعدہ اجازت ہوگی۔ آئین میں اس قانونی سقم کا خمیازہ قوم کئی دفعہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کی صورت میں بھگت چکی ہے۔

بہرحال، سچ یہی ہے کہ ملک میں حقیقی سیاسی جماعت کی شدید قلت ہے۔ محب وطن، مخلص اور درددل رکھنے والوں پاکستانیوں کی دلی خواہش یہی ہے کہ ہماری منظم اور اسلامی دنیا کی سب سے طاقتور فوج اپنی قوت کا اظہار ایک سیاسی جماعت کے ذریعے کرے۔ رہے چند شر پسند اور ملک دشمن عناصر، تو ان سے ہمیشہ کی طرح آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور عالم اسلام کی دنیاوی اور اخروی ترقی کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس طرح مولانا مودودی کے اس بے سروپا الزام کہ ’مسلمان ملکوں کی فوجیں ان کے لیے مصیبت بن چکی ہیں‘ کا اپائے بھی شاید ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).