میرا بھائی: ڈاکٹر شیر شاہ سید


سن 2002 میں جب فیگو (FIGO) نے ڈاکٹر شیر شاہ کے لیے ایوارڈ کا اعلان کیا تب ان کے اہل خانہ نے اس خوشی کو پرجوش طور پر منایا۔ گھر میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں خاندان کے افراد کے علاوہ ڈاکٹر شیر شاہ کے احباب کو بھی مدعو کیا گیا۔ اکثر احباب کو اس ایوارڈ کی اطلاع اسی تقریب کے ذریعے ملی۔ ڈاکٹر شیر شاہ کی بہن ڈاکٹر شاہین ظفرنے اس موقع پر جو مضمون پڑھا وہ ان صفحات میں شائع کیا جا رہا ہے۔

٭٭٭      ٭٭٭

آج کی اس خوشگوار شام، اس چھوٹی سی تقریب میں اپنے خاندان کی طرف سے میں آپ سب کو خوش آمدید کہتی ہوں ہم سب کو یہ احساس ہے کہ آپ سب نہایت مصروف لوگ ہیں اور ہمارے لئے یہ نہایت اعزاز کی بات ہے کہ ہماری خوشی میں شرکت کے لئے آپ نے وقت نکالا اور ہماری حوصلہ افزائی کے لئے یہاں تشریف لائے۔

خواتین و حضرات! جیساکہ آپ جانتے ہیں، آج کی اس محفل کا اہتمام فیگو (FIGO) کی طرف سے شیر شاہ کوملنے والے بین الاقوامی اعزاز کے حوالے سے کیا گیا ہے اور یہ محفل آپ سب کی موجودگی سے پررونق اور سجی نظر آ رہی ہے۔ شیر شاہ کو شاید سب ہی جانتے ہیں۔ کوئی کم جانتا ہے، کوئی زیادہ اور کوئی بہت زیادہ۔۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ انہیں پورا کوئی بھی نہیں جانتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ارادوں اور اگلے کام کا نہ کسی کو اندازہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی پیش گوئی کر سکتا ہے۔

کچھ عجیب نہیں کہ کسی دن یہ ہمالیہ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر مردوں کے حقوق پر روسی یا فرانسیسی زبان میں لکھی اپنی کتاب لہرا رہے ہوں اور ”دنیا کے مردو ایک ہو جاؤ“ کا نعرہ لگارہے ہوں۔

رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود جو شخص لڑ جھگڑ کر میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کر لے، کراچی جیسے شہر میں میل گائناکولوجسٹ کا پیشہ اختیار کرے جو ایک کمیاب جنس (rare species) ہے، جو ایک دن نہ صرف خود مراتھن دوڑنا شروع کر دے بلکہ شہر کے نوجوانوں، مردوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ دوڑانے لگے اور ہر سال دوڑاتا رہے ایک دن اچانک پتہ چلے کہ اس کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہو گیا ہے اور پھر ایک کے بعد دوسرا، تیسرا اور چوتھا مجموعہ شائع ہو جائے اور ہر لمحہ دھڑکا لگا رہے کہ اگلا مجموعہ آنے والا ہے۔۔۔ اس شخص کے بارے میں یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ ”میں شیر شاہ کو پورا جانتا ہوں۔“

ایک راز کی بات یہ ہے کہ یہ موصوف بہاری، اردو اور انگریزی کے علاوہ آئرش، Gaelic، فرنچ، چینی، جاپانی سمیت آٹھ دس زبانیں نہایت روانی سے نہ صرف بول سکتے ہیں بلکہ ان زبانوں میں گا بھی سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہاں کوئی صاحب زبان موجود نہ ہو۔

ہمارے چھوٹے بہنوئی نے ایف سی پی ایس کا امتحان پاس کیا تو انہیں فون کیا گیا کہ اس خوشی کو منانے کے لئے ہم سب کھانے پر جا رہے ہیں آپ بھی آ جائیں۔ جواب ملا ”میں تو اس وقت بس میں سفر کر رہا ہوں اور بس سکھر جا رہی ہے۔

پوچھا ”کہ یہ اچانک سکھر کا سفر کیسے؟“

جواب آیا کہ ”فسٹولا کے کچھ کیسز جمع ہو گئے تھے۔ ان کا آپریشن کرنا ہے اور ابا اماں کو بتا دینا کہ رات کو گھر نہیں آؤں گا۔“

شاید۔۔۔ بلکہ یقیناً ان کی اسی قسم کی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں یہ اعزاز دیا گیا ہے۔ اس ایوارڈ کو دلوانے میں کس کا ہاتھ ہے؟

Dr Sher Shah – First from the left

اس سے پہلے یہ سن لیجیے کہ یہ ایوارڈ کیا ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف گائناکالوجسٹ اینڈ آبسٹیڑیشنز : (فیگو FIGO/) ایک غیر منافع بخش (non profit) بین الاقوامی تنظیم ہے۔ جو 1954 میں قائم ہوئی تھی۔ دنیا کے تقریباً سو ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں اور اس تنظیم کا مشن یہ ہے کہ دنیا میں عورتوں کی صحت کے معاملات میں بہتری لائی جائے۔ آزادی کے کئی برس بعد تک پاکستان ٹیگو کا رکن نہیں بن سکا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں قومی سطح پر آبس اینڈ گائنی کی کوئی تنظیم نہیں تھی۔

پنجاب کی سوسائٹی الگ تھی اور باقی ملک کی الگ۔۔۔ جب ان دونوں سوسائٹیوں کو ضم کر کے ایک قومی تنظیم تشکیل پائی تب پاکستان کو رکنیت دی گئی۔ عورتوں کی صحت کی بہتری کے حوالے سے دنیا بھر میں فیگو کے کئی پروجیکٹ جاری ہیں، ”سیف مدر ہڈ“ ان میں سے ایک ہے۔ برطانیہ کی رائل سوسائٹی آف آبس اینڈ گائنی اور امریکن کالج کا فیگو میں زیادہ عمل دخل ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ کو 2002 میں فیگو کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اور نومبر 2003 میں چلی کے شہر سانتیاگو میں منعقد ہونے والی فیگو کی 27 ویں کانفرنس میں ایوارڈ دیا گیا۔ شیر شاہ پاکستان کے پہلے فرد ہیں جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس ایوارڈ کا نام ہے :

(Distinguished Community Servicee Award for Emergency Obstetric Care for 2002)

یہ ایوارڈ ہر سال دنیا کے پانچ چھ ایسے گائناکالوجسٹس کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے ملک میں ماؤں کی صحت کی بہتری کے کی لیے نمایاں خدمات انجام دی ہوں۔

اس ایوارڈ کے ساتھ ایوارڈ پانے والے کو 5 ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں۔ یہ رقم ذاتی استعمال کے لیے نہیں ہوتی بلکہ عورتوں کی بہتری کے منصوبے کے لیے ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شیر شاہ یہ رقم قطر ہسپتال اورنگی میں خرچ کریں گے۔

ایوارڈ کے ساتھ ڈھائی ہزار ڈالر اس ملک کی آبس اینڈ گائنی سوسائٹی کو دیے جاتے ہیں اور اس رقم کامقصد یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ سوسائٹی فیگو ایوارڈ پانے والے اپنے ممبر اور اپنے ملک کے گائناکولوجسٹ کی خدمات کا اعتراف کرے، اس کے لیے ایک پبلک میٹنگ منعقد کی جائے، میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر ہو تاکہ صحت اور خصوصاً عورتوں کی صحت کی بہتری کے لیے کام کرنے کے حوالے سے دوسروں کی حوصلہ افزائی ہو۔

سماج میں اپنے کام (community work) کے بارے میں تو آپ کو شیر شاہ اور ان کے ساتھی بتائیں گے، میں تو آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ شیر شاہ کو یہ ایوارڈ دلوانے میں کس کا ہاتھ ہے اور یہ اصل میں کس کو ملنا چاہیے تھا۔ یہ عورتوں کے حقوق یا ویمنز رائٹس کا جو معاملہ ہے اور جس کے حوالے سے انہیں یہ عزت ملی ہے، اس کا آغاز کس طرح ہوا؟

کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن شیر شاہ کی کامیابی کے پیچھے ہزاروں خواتین کا ہاتھ ہے اور یہ وہ خواتین ہیں جن کے حقوق اور جن کی صحت کے معاملات میں بہتری لانے کے لیے ان کا جہاد کئی برس سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اندر عورتوں کے مسئلے مسائل اور ان کے دکھوں اور تکلیفوں پر تڑپنے کا جذبہ کیسے پیدا ہوا؟ کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے، چنانچہ یہاں بھی معاملہ رد عمل ہی کا ہے اور یہ رد عمل ہے اس ظلم و ستم کا جو شیر شاہ نے اپنے بچپنے میں صنف نازک، یعنی ہم تین چھوٹی بہنوں پر کیا تھا۔

ہم سب اسکول سے آ کر ساتھ کھیلتے تھے۔ اگر چور سپاہی کھیلا جا رہا ہے تو یہ چور کبھی بھی نہیں بنیں گے۔ اگر چھک چھک ریل گاڑی کھیلیں، تو یہ ہمیشہ ریل کا انجن بنتے اور ہم تینوں ریل کا ڈبہ بن کر ان کی قمیض کا دامن پکڑ کر ہانپتے کانپتے گرتے پڑتے ان کی طوفانی رفتار کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے۔ یہ انجن نہ تو کسی اسٹیشن پر رکتا تھا اور نہ آہستہ ہوتا تھا۔ (کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید ابھی تک میں ان کی قمیض کا دامن پکڑ کر ان کے پیچھے دوڑتی جا رہی ہوں ) ۔ جب یہ جھگڑا بڑھا اور صنفی امتیاز پر احتجاج کیا گیا کہ یہ نا انصافی ہے تو فرمایا کہ میں تو لڑکا ہوں اور تم سب لڑکیاں ہو، اسی طرح کھیلنا ہو گا۔ مقدمہ ابا کے سامنے پیش ہوا تو انہیں خاصی ڈانٹ پڑی کہ لڑکی، لڑکا سب برابر ہوتے ہیں اور برابر سے کھیلو (ہم بہنوں کو اس ڈانٹ کا بڑامزا آیا) ۔

اب اگلے دن فرمایا کہ میں تو عینک لگاتا ہوں اور خاندان کا ہر بڑا اور پڑھا لکھا آدمی عینک لگاتا ہے اس لیے میں تو چور نہیں بن سکتا۔ گویا انہوں نے اب اپنی عینک کو وجہ امتیاز بنا لیا۔ ہم سب بہنیں احساس کمتری میں مبتلا خوب دعائیں مانگتیں کہ کسی ایک کو عینک لگ جائے تاکہ ان کی برتری ختم ہو۔ مظلوموں کی آہ کا اثر ہوا اور خوشخبری ملی کہ مجھے چشمہ لگانا ہو گا۔ اب ہم بھی خم ٹھونک کر سینہ پھلا کر برابری کی بنیاد پر کھیلنے آئے۔

انہوں نے ترپ کا آخری پتا پھینک دیا کہ میں تم تینوں سے بڑا ہوں۔ اس لیے وہی ہو گا جو میں کہوں گا۔ کھیلنا ہے تو کھیلو ورنہ نہ کھیلو۔ اس حربے کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ کیونکہ بڑوں کی بات ماننا گھر کے سخت ڈسپلن میں شامل تھا۔ ہماری آپا جو کہ ان سے ایک سال چھوٹی ہیں آج تک کف افسوس ملتی ہیں کہ اگر ان سے ایک سال بھی بڑی ہوتیں تو ان کو سیدھا کر دیتیں۔

یہ ہماری گڑیوں کا نکاح بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھایا کرتے۔ موٹے شیشوں کی عینک لگائے قاضی صاحب جب یہ کہتے ”گاجر کی پیندی گل شبو کا پھول، کہو میاں دولہا تمہیں دلہن قبول“ تو بڑا مزا آتا۔ کچھ عرصے بعد کسی گڑیا کا انتقال ہو جاتا اور ہم سب نہایت عزت و احترام سے اس کا جنازہ تیار کرتے اور اسے دفناتے۔

یہ سب باتیں ہمیں یاد ہیں تو انہیں بھی یاد ہوں گی۔ چنانچہ لگتا ہے کہ بچپن میں بہنوں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کا رد عمل یہ ہوا کہ ان کی ساری ہمدردیاں اور کاوشیں عورتوں کے لیے وقف ہو گئی ہیں اورگائناکولوجسٹ ہونے کے ناتے غریب، بیمار عورتوں کی صحت اور حقوق کی حفاظت کو انہوں نے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو اب اچھی طرح یہ علم ہو گیا ہو گا کہ اس ایوارڈ کو دلوانے میں اصل ہاتھ کس کا ہے۔

آپ نے ایسے لوگ بہت دیکھے ہوں گے جو تین گھنٹے کا کام تین دن میں کرتے ہیں، لیکن چند لوگ تین دن کا کام تین گھنٹے میں کر کے ختم کر کے کہتے ہیں۔ ”ہل من مزید“ ۔

شیر شاہ اس دوسری قسم کے اقلیتی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ کبھی کچھ نہیں کر رہے ہوتے، بہت سے لوگ ایک وقت میں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایک ہی وقت میں آٹھ دس کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ان کا شمار اس گروپ میں ہوتا ہے۔ جو ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کی غلطیوں کو کبھی معاف نہیں کر پاتے اور چند ایسے ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کی غلطیوں کا کوئی خاص احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔ شیر شاہ اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔

زیادہ تر لوگ صبح اپنے وقت پر اٹھتے ہیں۔ دفتر یا کام پر جاتے ہیں اور شام ڈھلے گھر آ جاتے ہیں۔ یہ ہر گز اس قسم سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ حضرت تو رات کی نیند میں ہی تین عدد ٹیلی فون سیٹ بھگتا رہے ہوتے ہیں۔ کب سوتے ہیں کب جاگتے ہیں کسی کو خبر نہیں۔

ایک آپریشن کرتے ہیں، دس منٹ سو جاتے ہیں۔ دوسرا آپریشن کرتے ہیں دس منٹ پھر سو جاتے ہیں۔ پھر تیسرا آپریشن کرتے ہیں۔ گاڑی چلاتے چلاتے سڑک پر ایک جانب رک کر دس منٹ سوتے ہیں۔ لیجیے ان کی نیند پوری ہو گئی۔

فرنگی کے ملک میں بھی اور اپنے وطن میں بھی ہر قسم کے خطرناک ایکسیڈنٹ کر چکے ہیں۔ ہر دفعہ بڑی عافیت یہ ہوئی کہ چشمہ یا تو ٹوٹا ہی نہیں یا جیب میں اضافی عینک رکھی ہوئی تھی۔ چنانچہ حادثے کے بعد گاڑی سے صحیح سلامت مسکراتے ہوئے برآمد ہو جاتے ہیں۔

تقریباً طوفانی رفتار سے چلنے والے ان کے ہر پروجیکٹ میں ان کے پلان ”اے“ کے پیچھے ہم ”پلان بی“ اور ”پلان سی“ بھی تیار رکھتے ہیں۔ ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب کون سے پلان پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ آخر میں جب ان کو بتایا جائے فلاں موقعے پر پلان بی اور پلان سی کی وجہ سے بچت ہو گئی۔ تو جواب ملتا ہے کہ ٹھیک ہے، کام تو ہو گیا، مقصد تو حاصل ہو گیا۔

آپ ایک ایسی فوج کا تصور کریں جس کا سپہ سالار جھنڈا لے کر میلوں آگے دور رہا ہے۔ اور اس کی نظر دور افق پر کسی منزل پر ہے۔ اس کی فوج لڑھکتی، گرتی پڑتی ساتھ رہنے کی کوشش میں ہلکان ہوئی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ راستے میں تھک کر ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ فوج کم ہو جاتی ہے۔ مگر راستے میں کچھ اور لوگ آ جاتے ہیں اور فوج کی نفری پھر بڑھ جاتی ہے۔ کبھی کوئی جعلی سپہ سالار انہیں دھکا دے کر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہانپتی کانپتی فوج آڑے آتی ہے اور اصلی سپہ سالار فوج لے کر چلتا رہتا ہے اور منزلوں پر منزلیں طے ہوتی رہتی ہیں۔

ساری دنیا میں انہوں نے اپنے ایجنٹ یا گرگے چھوڑ رکھے ہیں۔ کیا یہود و ہنود، کیا سکھ عیسائی، دنیا میں کہیں بھی عورتوں کی صحت، عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کچھ بھی ہو رہا ہے، کہیں نہ کہیں ان کا نام سنائی دے جائے گا اور طرہ یہ لوگ ان کی تعریف بھی کر رہے ہوں گے۔

دنیا بھر میں موجود اپنے دوستوں اور مداحوں سے یہ حسب ضرورت کام لیتے ہیں۔۔۔ اور یہ کام ان کی اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتے، عورتوں کی صحت میں بہتری کے کسی منصوبے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جسے انہوں نے مقصد حیات بنا لیا ہے۔

اور اب 2020 میں
پیچھے دی گئی تحریر کئی سال پہلے لکھی گئی تھی۔ تھوڑا سا اپ ڈیٹ کر دوں۔

جس افق پر ان کی نظر تھی۔ وہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ اب کوہی گوٹھ ہسپتال ان کا (Passion) بن چکا ہے۔ اور اس کو بنیادی جگہ بنا کر سارے ملک کی عورتوں کی صحت کا مسئلہ حل کرنا ان کا مسئلہ بن چکا ہے۔

خاص کر مڈوائفری تربیتی پروگرام کے ذریعے حمل کی وجہ سے مرنے والی عورتوں کی اموات کو کم کرنا زندگی کا نصب العین ہے۔ (ہمارے ملک میں یہ شرح اموات شرمناک حد تک زیادہ ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ )

مڈوائفری اسکول کی شروعات بھی میں نے اپنے چھوٹے بھائی عرفان کی مدد کے ساتھ ہسپتال کے گیراج میں ٹوٹی پھوٹی کرسیاں رکھ کر بیس سال پہلے کی تھی۔ اپنی عادت کے عین مطابق اب میرے بڑے بھائی شیر شاہ اس کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکے ہیں اور منزل پہ منزل طے کیے جا رہے ہیں۔ جس بلندی تک اس کو پہنچا چکے ہیں وہ تو ہماری سوچ میں بھی نہیں تھا۔ اور ابھی آگے مقام اور بھی ہیں۔ ان کا خواب یہ ہے کہ پاکستان میں ایک لاکھ تربیت یافتہ مڈوائف اگر میدان میں آ جائیں تو ماؤں کی موت کی شرح بہت گر سکتی ہے۔ اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ ساری مڈوائفری لڑکیاں اپنے اپنے خاندان کو غربت کے گڑھے سے نکال لیں گی۔

اس وقت کوہی گوٹھ ہسپتال، کوہی گوٹھ مڈوائفری اسکول اور عطیہ اسکول آف مڈوائفری اور عطیہ جنرل ہسپتال سب مل کر اس خواب کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سندھ بلوچستان کے دور دراز گاؤں سے لڑکیاں آتی ہیں۔ دو سال کی ٹریننگ کے بعد یہ واپس اپنے گاؤں جا کر خدمات انجام دیتی ہیں۔ مخیرحضرات ان کی ٹریننگ کا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ اس دو سال میں ان لڑکیوں کی کیا (Catharses) ہوئی ہے ناقابل ہے۔ ایک نئی مہذب تعلیم یافتہ، ہنرمند، پراعتماد اور طبی معلومات سے لیس۔ جب یہ سر اٹھا کر چلتی ہیں تو دل فخر سے بھر جاتا ہے۔

انہی گزشتہ سالوں میں انہوں نے ایک اور شوق بھی پال لیا ہے یعنی گانے کا۔ جی حیران نہ ہوں گانا گانے کا۔ فیملی اور دوستوں کی محفلوں میں میوزک کے ساتھ غزلیں، پرانے گانے، لوک گیت سب خوبی سے گاتے ہیں اور لوگوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ یہ راز میں کھول رہی ہوں تاکہ آپ سب لوگ بھی مستفید ہو سکیں۔ یہ اپنی عادت کے مطابق 6 گھنٹے پہلے فون کرتے ہیں کہ رات کو کھانے پر دس لوگوں کو بلا لوں؟ مطلب یہ کہ اجازت لیتے ہیں جواب ہمیشہ ہاں میں ملتا ہے۔ پھر کہتے ہیں اچھا تو فلاں فلاں کو بھی بلا لوں۔ چنانچہ چھ گھنٹے کے نوٹس پر 25۔ 20 لوگ کھانے پر آ جاتے ہیں اور گھر ہر طرف خوشگوار فضا سے بھر جاتا ہے۔

جب کھانا اور گانا دونوں ہوں تو چھوٹی بہن صفیہ کی باری آتی ہے۔ کیونکہ ان کے خاوند ڈاکٹر سرور کو اس فن سے خاصا شغف ہے اور کافی ماہر ہو چکے ہیں۔ تو یہ ان کے گھر میں ہوتا ہے مگر وہی چالیس پینتالیس لوگ کہہ کر 65۔ 70 تو آ ہی جاتے ہیں۔

تو جناب ہر قسم کی رنگینیاں اور تفریحات بھی چلتی ہیں۔

تفریح کے نام پر ہر بار اب۔ ان کی بہت بڑی تفریح یہ ہے کہ سرجیکل کیمپ لے کر ملک کے کونے کونے میں جا کر خواتین کی سرجری کی جائے جو کہ غریب ترین ہیں اور شہر آنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر سال تین چار کیمپ ہوتے ہیں۔ سال میں ایک بڑا کیمپ ہوتا ہے سندھ میں۔ 50۔ 60 آپریشن تین چار دن میں کر کے پلٹتے ہیں۔ پوری ٹیم پورے سازو سامان کے ساتھ کراچی سے روانہ ہے۔ اور کئی گھروں میں روشنیاں بکھرآتی ہے۔

جیسے میں نے پہلے کہا تھا کہ میں اور عرفان آج تک ان کی قمیض کا دامن پکڑ کر ان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ سانس پھول جاتی ہے مگر رکنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب یہ کچھ عرصہ کے لئے امریکہ جاتے ہیں تو تھوڑا سانس لے پاتے ہیں۔ مگر سر پر یہ خطرہ منڈلا رہا ہوتا ہے کہ واپس آ کر پھر نہ جانے کیا کیا ناممکن پروجیکٹ سوچ کر آئیں گے۔ اور ممکن بنانے میں جت جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).