ممتاز مفتی، علی پور کا ایلی اور شہزاد


ممتاز مفتی کا نام ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میں ان سے ان کی کتاب ”لبیک“ کے ذریعے متعارف ہوا جو ان کے سفر حج کی روداد ہے۔ وہ سکول اور کالج کا زمانہ تھا جب اس کتاب کے کچھ حصے ماہ نامہ ”سیارہ ڈائجسٹ“ میں شائع ہوئے۔ موضوع، ان کے اسلوب بیان اور انداز فکر نے مجھے ہی نہیں، بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ جب کتاب چھپی تو تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ بطور ایک افسانہ نگار اور ناول نویس کے ان کے مطالعے کا موقع ذرا بعد میں ملا۔

انہوں نے طویل عمر پائی اور بھر پور ادبی زندگی گزاری۔ وہ 11 ستمبر 1905 کو ہندوستان کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے اور 27 اکتوبر 1995 کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ تعلیم کے مختلف مراحل امرت سر، میانوالی، ملتان، ڈیرہ غازی خان اور لاہور میں مکمل کیے ۔ ابتدا میں کچھ عرصہ سکول میں سینئر انگلش ٹیچر رہے۔ اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ کچھ عرصے تک بطور سٹاف آرٹسٹ کے بھی وابستہ رہے۔ کچھ عرصہ پاکستان ائر فور س میں سائکالوجسٹ بھی رہے۔

کچھ عرصہ آزاد کشمیر ریڈیو کے ساتھ منسلک رہے۔ اس کے علاوہ ولیج ایڈ کے محکمے میں بھی خدمات سرانجام دیں جہان ان کو حفیظ جا لندھری، ابن انشا اور احمد بشیر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اسی دوران میں ان کا تعلق قدرت اللہ شہاب سے استوا ر ہوا جو تا عمر قائم رہا۔ اس تعلق کی نوعیت اور تفصیلات میں جاننے اور لکھنے والوں نے بہت سی متنازعہ اور گفتنی اور نا گفتنی باتوں کاذکر کیا ہے مگر وہ اس وقت اس تحریر کا موضوع نہیں۔

ادب میں ممتاز مفتی کا میدان کار فکشن یا افسانوی ادب ہے۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ”ان کہی“ ، ”گہما گہمی“ ، ”گڑیا گھر“ ، ”چپ“ ، ”روغنی پتلے“ ، اور ”سمے کا بندھن“ قابل ذکر ہیں۔ خاکہ نگاری بھی انہوں نے خوب کی۔ اس حوالے سے ان کے خاکوں کے مجموعوں میں ”اوکھے لوگ“ ، ”اور اوکھے لوگ“ ، ”پیاز کے چھلکے“ اور ”اوکھے الڑے لوگ“ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے ”لوک ریت“ ، نظام سقہ ”، اور“ رام دین ”کے عنوان سے ڈرامے بھی تحریر کیے ۔

سفر ناموں میں ہندوستان کا سفر نامہ“ ہند یاترا ”اور جیسے پہلے ذکر ہو چکا،“ لبیک ”حج کا سفر نامہ ہے۔ ا ن کا ناول“ علی پور کا ایلی ”خاص طور پر قابل ذکر ہے جو دراصل ایک سوانحی ناول ہے۔“ الکھ نگری ”اسی کا دوسرا حصہ ہے مگر اس کا اندا زناول کا نہیں بلکہ آپ بیتی کا ہے۔“ تلاش ”کے نام سے ان کی ایک اور کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک منفرد کاوش ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو“ ستارۂ امتیاز ”ملا۔

ممتاز مفتی کے افسانوں کے بنیادی موضوعات انسانی نفسیات، جنس، عورت کے کردار کے مختلف روپ اور پیچیدہ نفسیات کے کرداروں کے گرد گھومتے ہیں۔ آغا بابر اور کئی اور لکھنے والوں نے مفتی صاحب کی شخصیت کی بعض نفسیاتی گرہوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی تحریریں ان کی اپنی نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کی داستانیں ہیں جن کو مفتی نے فنکارانہ چابک دستی سے مختلف کرداروں میں سمو دیا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شخصیت کی تشکیل میں ان کے بچپن کے ماحول نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو بہت سی نفسیاتی الجھنوں کا باعث بنا جن کی جھلکیاں ان کے افسانوں اور خاص طور پر ”علی پور کا ایلی“ میں نظر آتی ہیں۔

ان کے ہاں عورت کے کردار کی بہت سی جہتوں کے پس منظر میں ان کی نوعمری میں ان کے والد کی دوسری شادی اور ان کی سوتیلی ماں کا روپ ہے جس کی وجہ سے وہ خود بھی والد کی شفقت سے محروم ہوئے اور ان کی اپنی ماں کو بھی گھر میں کام کرنے والی ایک ماسی کا سا کردار ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کے والد بہت رنگین مزاج تھے اور نئی بیوی کے چاؤ چونچلوں میں مگن رہتے تھے جس کا ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر مرتب ہوا۔ ان کی سوتیلی والدہ انتہائی خوب صورت تھی جس سے وہ متاثر بھی تھے مگر نفرت بھی کرتے تھے کہ وہ ان کی ماں کی سوکن ہے۔ اس کیفیت کو انہوں نے خود ”لو اور ہیٹ“ (محبت اور نفرت) کا نام دیا ہے۔

1961 میں ”علی پور کا ایلی“ شائع ہوا تومفتی کے دوستوں نے کہا کہ یہ تو مفتی کی اپنی کہانی ہے۔ بعد کے ایڈیشنز میں مفتی صاحب نے خود اس بات کو تسلیم بھی کر لیا۔ ”علی پور کا ایلی“ بہت ضخیم ناول ہے اور اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ناول کی کہانی اور انداز بیان کے حوالے سے پروین عاطف کی رائے بہت درست معلوم ہوتی ہے :

” جب وہ علی پور کا ایلی کی گٹھڑی اٹھا کر لایا تو اس کے وجود میں سے کئی ہزار وولٹ کی لہریں نکل رہی تھیں۔ ہجوم میں میں بھی کھڑی تھی۔ لوگ بے چین تھے، بے قرار تھے۔ خالص ریشم ہو گا، کوئی بولا۔ کمخواب لگتا ہے، دوسرے نے کہا، ستارہ کی لان۔ گٹھڑی کھلی تو لوگوں کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔ کانچ کے رنگین بنٹے، گندی لیراں، ٹھیکریاں، میٹھی گولیاں، کاٹھ کباڑ، چمکیلے زیور سب ایک ہی جگہ ایک ہی گٹھڑی میں ا وپر تلے ڈھیر۔ دانشوروں نے کہا، شعبدہ باز ہے، پاکھنڈی ہے“ (تعارف، ’اور اوکھے لوگ‘ ) ۔

میں نے ایم اے میں یہ ناول پڑھا تو وہ پرانا ایڈیشن تھا۔ 1994 میں ”الکھ نگری“ پڑھنے کا موقع ملا تو ”علی پور کا ایلی“ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ نیا ایدیشن تھا جس کے آخر میں مفتی صاحب نے ناول کے تمام کرداروں کے اصل نام بھی افشا کر دیے تھے جس سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی اور اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ یہ واقعی ان کی اپنی کہانی ہے۔

ؑعلی پور کا ایلی ”میں کم و بیش سو کردار ہیں جن کے ذریعے یہ کہانی مکمل ہوتی ہے اور مفتی نے بظاہر بقول شخصے اپنی زندگی کے واقعات کا ڈھیر لگا دیا ہے مگر اس ڈھیر میں ان گنت کردار ہیں جو پوری کہانی کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ایک کرداری ناول کہا جا سکتا ہے۔ ان کرداروں میں بہت سے کردار اہمیت رکھتے ہیں، جن میں احمد علی ( ان کے والد) کا کردار، مفتی کا اپنا کردار اور ناول کا مرکزی کردار شہزاد ( اصل نام نور الصباح بیگم) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

شہزاد چھ بچوں کی ماں ہے جو حسن، جوانی، زندہ دلی، رومانویت اور محبوبیت کے اوصاف کی مالک ہے۔ اس میں بے باکی اور جرأت بھی ہے۔ اس میں ماں، بیوی اور محبوبہ کے کردار اس طرح جمع ہو گئے ہیں کہ جہاں اس کے کردار میں قدرے پیچیدگی نظر آتی ہے وہاں ایک خاص طرح کی دل کشی اور کشش بھی جھلکتی ہے۔ اس میں جذبات کی شدت بھی ہے جس سے مجبور ہو کروہ گھر سے فرار ہونے ہونے پر آمادہ ہو جاتی ہے مگر ممتاز مفتی کے ساتھ شادی کے چند سال بعد ہی وفات پا جاتی ہے تو کہانی میں ایک ایسا المیہ موڑ آتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

ممتاز مفتی نے خود اپنے بارے میں لکھا ہے کہ ”اس کے محبوب میں چند اوصاف کا ہونا لازم ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ رنگ گورا ہو، خدو خال اہم نہیں۔ عمر رسیدہ ہو۔ مٹیار ہو اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ محبوب میں ہرجائیت کی واضح جھلک اور دھونس موجود ہو۔ مفتی کسی نیک یا وفادار خاتون سے محبت نہیں لگا سکتا۔ اس کے نزدیک محبوب میں ممتا کا ہونا ضروری ہے“ ( ”چھوٹا“ ، ”اور اوکھے لوگ“ ) تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہزاد میں یہ سارے اوصاف موجود تھے؟

غور کریں تو شہزاد کی شخصیت میں کئی پہلو جھلکتے ہیں جن کا ذکر مفتی نے کیا ہے۔ مثال کے طور پر اس کی عمر مفتی سے زیادہے، وہ حسین ہے، وہ قریب بھی آتی ہے اور دور بھی ہو جاتی ہے، جب مفتی بے اختیار ایک اضطراری کیفیت میں اس کے قدموں میں گر جاتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلتے ہیں تو شہزاد اس کو اپنے پاؤں سے اٹھاتی ہے تو مفتی کو اس میں ایک طرح کی ممتا محسوس ہوتی ہے۔ وا قعات کا تانا بانا قاری کواپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس رومانوی معرکے کا انجام شہزاد کی موت کی صورت میں ایک ایسی ملال انگیز فضا پیدا کرتا ہے کہ قاری کو مفتی اور شہزاد کے ساتھ ہمدردی بھی محسوس ہوتی ہے اور اس کے ذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔

بطور ایک قاری کے میرے ذہن میں بھی اس حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا تو ان کے جوابات حاصل کرنے کے لئے میں نے مفتی صاحب کو ایک خط لکھا۔ انہوں نے کمال مہربانی سے میرے سوالات کے جواب دیے مگر بہت اختصار کے ساتھ۔ تاہم سوالات کے جواب سے مفتی اور شہزاد کے تعلق کی نوعیت، شادی کے بعد کے نتائج اور شہزاد کی موت کے بعدان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرے سوالات کے اصل الفاظ کا ریکارڈ تو میرے پاس نہیں مگر ان کا مفہوم ذہن میں بالکل واضح ہے جس کے مطابق میرے سوالات کا لب لباب اور مفہوم یہ تھا :

1۔ شہزاد آپ سے شادی کے کتنے عرصے کے بعد انتقال کر گئی؟ کیا آپ کو صدمہ نہیں ہوا کہ وہ شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی؟ اور آپ نے اس صدمے کو کیسے برداشت کیا؟

2۔ آپ اور شہزاد کی عمر میں کتنا فرق تھا اور جب وہ فوت ہوئی تو اس وقت اس کی عمر کتنی تھی؟
3۔ ”علی پور کا ایلی“ میں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شادی کے بعد آپ کو پچھتاوا ہوا۔ کیا ایسا ہی ہے؟
ممتاز مفتی نے میرے خط کا جواب 13 نومبر 1994 کو لکھا اور ترتیب سے میرے سوالات کے جواب دیے :

1۔ شہزاد چار سال بعد (شادی کے ) فوت ہو گئی۔ وہ اپنا بیٹا چھوڑ گئی۔ عکسی ( عکسی مفتی) میرے لیے شہزاد تھا۔ میں نے عکسی میں شہزاد کو جیا۔

2۔ ہماری عمروں میں 8 / 10 سال کا فرق تھا (شہزاد مفتی سے بڑی تھی) ۔ وفات کے وقت اس کی عمر تقریباً 35 سال تھی۔

3۔ پچھتاوا نہیں ہوا، غصہ ہوا، رنج ہوا۔ اس کی بیٹیاں ( سابقہ شوہر سے ) میری غربت سے نالاں تھیں۔ انہوں نے آزادی اپنا لی۔ ماں بیٹیوں کا ساتھ دینے پر مجبور تھی۔ (علی پور کا ایلی پھر دیکھئے ) ۔

ممتاز مفتی کے جوابات سے بطور قاری مجھے ”علی پور کا ایلی“ اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں یقیناً مدد ملی اور عین ممکن ہے کہ ایک بار پھر اس ناول کا مطالعہ کروں تو کچھ اور سوالات پیدا ہوں مگر اب ان کا جواب دینے کے لئے مفتی صاحب موجود نہیں۔ تاہم اس ناول کا سحر اب بھی قائم ہے اور یہی کیفیت میرے علاوہ اور قارئین کی بھی ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).