ساری غلطی ہے ہی اس ریپ ہونے والی عورت کی


آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔ سچ کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ حکمران بتاتا ہے کہ سچ اور حق کیا ہے۔ اور اس وقت پورے سوشل میڈیا پر جس شخص کا سچ چھایا ہوا ہے وہ لاہور کے پولیس چیف ہیں جن کی حمایت حکومت کے نامی گرامی وزرا اور مشیر کر رہے ہیں یعنی ان کے موقف کو حکومتی موقف سمجھا جانا چاہیے۔

انہوں نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ موٹر وے پر ہونے والے واقعے میں بنیادی غلطی کس کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں ”میں سیدھی بات کرنے والا افسر ہوں۔ کیا ہم اپنی بہن کو ماں کو اکیلے بچوں کے ساتھ جانے دیتے ہیں ساڑھے بارہ بجے۔ پاکستان میں کوئی اس طرح نہیں جانے دیتے۔ نمبر ون۔ اگلا سوال یہ ہے کہ اگر وہ جائیں بھی کسی ایمرجنسی سے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ بیٹا جی ٹی روڈ سے جانا۔ یہ باتیں کرنے سے میری مراد اسے مورد الزام ٹھہرانا نہیں ہے۔ مجھے یہ بتانا ہے کہ ہماری سوسائٹی اس طرح کی ہے۔ بہنوں والو بیٹیوں والو آئندہ خیال رکھو ۔ ۔ ۔ دیکھیں اس کی فیملی فرانس کی ہے اس کا ہسبینڈ فرانس رہتا ہے۔ اس نے یہ سارا کام اس لیے کیا ہے کہ اس کی اورینٹیشن میں فرانس تھا۔ یہ مینلی اسی طرح کا محفوظ معاشرہ ہے اور معاشرے وہاں پہ صرف لا سے نہیں محفوظ ہوتے۔ وہاں اخلاقی قدروں سے محفوظ ہیں۔ رول آف لا کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ رٹ آف گورنمنٹ کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ اس لیے بچیاں وہاں پہ رات کو ٹریول کرتی ہیں، موٹر ویز پر کرتی ہیں، ان کو کچھ نہیں ہوتا۔“

اب دیکھیں انہوں نے اس خاتون کو ہرگز بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا ہے۔ لیکن معاملہ پانی کر دیا ہے۔

سوال یہی ہے کہ کیا وہ خاتون اس ارض پاک کو یورپ سمجھ بیٹھی تھی؟ کیا اسے نہیں پتہ تھا کہ بال بچے دار عورتیں یوں رات گئے گھر سے باہر نہیں نکلتی ہیں؟ اور جب جی ٹی روڈ موجود ہے تو اس طرح موٹر وے پر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر حکومت نے چوبیس گھنٹے موٹر وے کھول رکھی ہے تو اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں کہ خواتین اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ کیا اس خاتون کے گھر میں کوئی مرد نہیں تھا جو اسے کہتا کہ بیٹا جی اول تو رات کو گھر سے مت نکلو، اگر نکل ہی گئی ہو تو جی ٹی روڈ سے جانا۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ اس مرد نے اسے اجازت ہی کیوں دی گھر سے نکلنے کی؟ کیا اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ پاکستان ہے، یورپ نہیں۔ یہاں اخلاقی قدریں نہیں ہیں، یہاں رول آف لا نہیں ہے، یہاں رٹ آف سٹیٹ نہیں ہے، اس لیے یہاں بچیاں رات کو ٹریول نہیں کر سکتیں۔

ویسے کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ فرانس نہیں ہے، پاکستان ہے، پھر کیوں وہ یورپ چھوڑ کر پاکستان آ گئی تھی کہ اپنے بچوں کو یہاں کے ماحول میں پلائے بڑھائے جبکہ یہاں نہ تو اخلاقی قدریں ہیں، نہ ہی رول آف لا ہے اور نہ رٹ آف سٹیٹ کیونکہ یہ یورپ نہیں ہے۔ غلطی پھر کس کی ہوئی؟ ظاہر ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی تو ہرگز نہیں ہے، اسی خاتون کی ہے۔ نہ وہ ہوتی نہ یہ جرم ہوتا۔

بعض ناقد کہیں گے کہ ساتھ مرد بھی ہوتا تو کیا ہوتا۔ سلطان راہی کا قتل رات کے اسی پہر جی ٹی روڈ پر ہوا تھا جس کا راستہ اختیار کرنے مشورہ دیا جا رہا ہے۔ سلطان راہی خود بھی کڑیل مرد تھے اور ان کے ساتھ ایک دوست بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود وہ گوجرانوالہ کے قریب جی ٹی روڈ پر قتل ہو گئے۔ اور وہ بھی چوتھائی صدی پہلے 1996 میں جب جرائم کی شرح اتنی زیادہ بری نہیں تھی جتنی آج ہے۔ وہ بھی سلطان راہی کی اپنی غلطی تھی۔ کیا وہ جی ٹی روڈ کو فرانس سمجھ بیٹھے تھے؟

اب بعض لبرل وہی گھسا پٹا ڈھول بجائیں گے کہ لباس یا رات گئے گھر سے نکلنے کا ریپ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کراچی کی اس پانچ سالہ بچی کی مثال دے دیں گے جسے گزشتہ ہفتے کراچی میں دن دیہاڑے ریپ کر کے قتل کیا گیا اور اس کی لاش جلا دی گئی۔ وہ بچی بھی کسی محافظ کے بغیر تھی اور اس کے والدین کا بھی یہی خیال ہو گا کہ یہ فرانس ہے اور یہاں پولیس اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کا تحفظ کریں۔ وہ لوگ ہی ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ ہیں جو پاکستان کو فرانس سمجھتے ہیں۔

اچھا اب یہ کٹ حجتی پر اترے لبرل یہ کہیں گے کہ قبر سے عورتوں کی لاشیں نکال کر ان کی بے حرمتی بھی تو کی جاتی ہے۔ ادھر کہاں سے محافظ آئے گا؟ حق بات ہے کہ ان کی اس دلیل کا ہمارے پاس بظاہر کوئی جواب نہیں ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ کوئی مسئلہ تو موجود ہو مگر اس کا حل نہ ہو۔

ہمارے پاس ان تمام مسائل کا حل موجود ہے جو گلی محلے سڑک اور گھر کے اندر بھی لڑکی کی حفاظت کرے گا، اور قبر کے اندر بھی۔ حل یہ ہے کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جائے۔ نہ لڑکی پیدا ہو گی، نہ وہ ریپ ہو گی۔ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ حمل ٹھہرتے ہی الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے نومولود کی جنس کا تعین کروا لیا جائے اور اگر لڑکی نکلے تو اسقاط کروا دیا جائے۔

بعض افراد کو یہ فعل ظالمانہ لگے گا کہ لڑکی کو زندہ دفن کیا جائے یا پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے جبکہ ہماری رائے میں تو یہ رحم دلی ہے کہ لڑکی کو ہر دم مارنے کی بجائے ایک ہی بار مار دیا جائے اور اسے نجات دلا دی جائے۔ ہاں پاکستان کا جب یورپ بن جائے تو پھر لڑکیوں کو زندہ رہنے کی سہولت فراہم کر دی جائے ورنہ موجودہ پاکستان میں جہاں نہ اخلاقی قدریں ہیں، نہ رول آف لا ہے اور نہ ہی رٹ آف گورنمنٹ، وہ زندہ رہ کر کریں گی بھی کیا؟ اسی موٹر وے والی خاتون کی طرح پولیس والوں کے آگے گڑگڑاتی رہیں گی کہ حلف دو کسی کو اس واقعے کے بارے میں بتاؤ گے نہیں، میں جینا نہیں چاہتی، تمہیں تمہارے بچوں کا واسطہ ہے مجھے گولی مار دو۔ یا پھر کسی دن کراچی کی بچی کی طرح کسی کوڑے کے ڈھیر پر ان کی جلی ہوئی لاش ملے گی اور پھر ان کا مردہ خراب ہو گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar