جدید ریاست مدینہ میں عورت کی تکریم


نئے پاکستان اور جدید ریاست مدینہ کے قیام کے بلند بانگ نعرے لگانے والے ہمیں قدم قدم پر باور کرواتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینا اور خوشی خوشی جینا شروع کر دیں گے۔ انصاف کا بول بالا، عدل کا اجالا اور ظلم اور ظالم کا منہ کالا ہو جائے گا۔ پھر سونے چاندی کے زیورات سے لدی عورت کراچی سے کشمیر اور لیپا سے لنڈی کوتل تک جائے گی مگر کوئی ظالم، زانی، غنڈہ اور بدمعاش و اوباش اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہیں سکے گا۔

ان بلند آہنگ مگر کھوکھلے نعروں کی سر بریدہ اور بدن دریدہ لاش موٹر وے کے ساتھ لہلہاتے جھومتے ان کھیتوں کے بیچ پڑی نیو ریاست مدینہ والوں کا منہ چڑا رہی ہے جہاں دو دن قبل دو انسان نما درندوں اور وحشیوں نے کم سن بچوں کے سامنے ان کی ماں کا ردائے عصمت تار تار کردی۔ ہمیں جدید ریاست مدینہ کے خلیفۂ معظم سے تو کوئی امید ہی نہیں تھی کہ وہ اس اندوہناک واقعے کے خلاف کوئی سنجیدہ و ٹھوس ایکشن لے سکے گا کیونکہ ماضی میں وہ خود پلے بوائے اور رنگین مزاج شہزادے کے نام سے مشہور رہا ہے اور کئی خواتین اس کی خلوت و جلوت کے نشاط انگیں اور لذت اندوز واقعات سے پردہ اٹھا چکی ہیں۔

اس واقعے کے خلاف اس کی طرف سے موثر اور بروقت ردعمل کی توقع ہمیں اس لیے بھی نہیں تھی کہ کل ساہیوال میں ننھے منے بچوں کے سامنے جب ان کے بے گناہ والدین کو خون میں نہلا دیا گیا تھا تو موصوف کے بڑے بڑے دعوؤں کی جھاگ اس وقت بھی بہت جلد بیٹھ گئی تھی کیونکہ اس دردناک سانحے میں جو نشانہ باز ملوث تھے اس مقام پر پہنچ کر خلیفۂ وقت کے پر بھی جلنے لگتے تھے۔

امید تو ہمیں سی سی پی او لاہور سے بھی نہیں تھی کہ جس وقت وہ درندے اس بے بس خاتون کے ساتھ یہ مکروہ اور گھناؤنا کھیل کھیل رہے تھے، تب موصوف شہر میں سیاست کی بساط بچھا کر عامل لاہور سے پانچویں آئی جی کو ذلیل کروا کے اپنے عہدے سے فارغ کروانے میں مصروف تھے۔ ہمیں ان کا یہ بیان پڑھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ عورت کے ساتھ ہونے والے واقعے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ریاست مدینہ کی موٹر وے پر اکیلی سفر کر رہی تھی۔

اس موقعے پر ہمیں کسی شاعر کا وہ مشہور شعر یاد آیا ہے جس میں ایک قتل کے مقدمے میں منصف نے وکیل کی قاتل کے حق اور مقتول کے خلاف یہ دلیل تسلیم کر لی تھی کہ مقتول خود خنجر کی نوک پر گرا تھا۔ اس لحاظ سے ہماری ایک عدالت نے بلوچستان اسمبلی کے ایم پی اے کے حق میں بالکل درست فیصلہ دے کر اسے قتل کے الزام سے بری کر دیا کہ اس واقعے کے خلاف گواہ اور ثبوت ناکافی تھے۔ حالانکہ ساری دنیا نے سی سی ٹی وی کے ذریعے دیکھا کہ کس طرح شراب کے نشے میں دھت ایم پی اے نے کانسٹیبل عطا اللہ کو بے دردی سے کچل دیا تھا مگر قانون و انصاف تو اندھے ہوتے ہیں اور قانون شہادت پر چلتے ہیں۔

ہمارا جی چاہتا ہے کہ سیاسی بساط پر آئی جی صاحب کو شکست فاش دینے والے سی سی پی او صاحب سے پوچھیں کہ اگر یہ واقعہ مظلوم و مجروح عورت کے اکیلے سفر کرنے کا شاخسانہ ہے تو پانچ پانچ سال کی معصوم کلیوں کو گھر سے اٹھا کر کسی ویرانے میں جا کر کیوں نوچا جاتا ہے؟ لاتعداد کم سن بچوں کو درندگی کے بعد جان سے کیوں مار دیا جاتا ہے؟ کسی پانچ سالا مروہ کی کٹی پھٹی، مسخ شدہ اور لہو لہو لاش کچرا کنڈی سے کیوں ملتی ہے؟

اسے بھی چھوڑ دیں، کسی دردمند اور بیدار مغز شخص نے کیسا سلگتا، بلکتا اور تڑپتا، سسکتا سوال اٹھایا ہے کہ اس سانحے کو عورت کے اکیلے سفر سے جوڑتے والے علت باز اس بارے میں کیا کہیں گے کہ عورت کی لاش کو بھی محرم کے ساتھ دفنایا جائے؟ کیونکہ ہمارے ہاں تو جنسی درندے اور وحشی عورت کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان سے منہ کالا کرتے ہیں۔

ادھر ہمارے واعظان خوش بیان و ناصحان معجز بیان جو کشمیر، فلسطین، افغانستان، روہنگیا، بوسنیا اور دوسرے ممالک کی مسلم خواتین کی عصمت دری پر خون کے آنسو روتے رہتے ہیں اور بات بات پر عورت کی مظلومیت کی دہائی دے کر محمد بن قاسم، حجاج بن یوسف، معتصم باللہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو آواز دیتے نہیں تھکتے وہ بھی اس واقعے کو اگر، مگر اور لیکن وغیرہ کے پردے میں لپیٹ کر اسے سند جواز عطا کرنے میں مصروف ہیں۔

ہم ریاست مدینہ کے کرتا دھرتاؤں، حاملان جبہ و دستار، عاملان نظم و اقتدار اور ارباب بست و کشاد سے دست بستہ عرض پرداز ہیں کہ اگر اس مکروہ فعل کے مجرموں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا نہیں دے سکتے تو اپنے بے سروپا اور نفرت انگیز بیانات سے اس مظلوم عورت، حرماں بخت بچوں، بد قسمت خاوند، بے بس خاندان اور اپنے دل میں انسانیت کا درد رکھنے والے کروڑوں خواتین و حضرات کے جذبات سے بھی نہ کھیلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).