عورت کو غیرت کے نام پہ مارنے والے، عورت کو شرم سے نہ مرنے دیں


میں پاکستان کے دارالحکومت یعنی اسلام آباد میں رہتی ہوں۔ ابھی بہت زیادہ دن نہیں ہوئے غالباً گزشتہ جمعرات کی رات دو بجے ہوں گے، میری اسلام آباد سے کراچی کے لیے پرواز تھی، فلائٹ ٹائمنگ علی الصبح تھی۔ میں نے اپنے کچھ دوستوں سے ذکر کیا کہ مجھے ائرپورٹ پہنچا ہے تو پتا چلا کہ ہمارے ایک ساتھی نے بیلاروس جانا ہے، ان کی اور میری پرواز میں دو گھنٹے کا وقت فرق ہے۔

آخر طے ہوا کہ میں اور میرے دوست اکٹھے ائرپورٹ جائیں گے۔ جبکہ میری گاڑی ہمارے تیسرے ساتھی کے سپرد کی جائے گی۔ شاید، میرا یہ فیصلہ میری گاڑی کو پسند نہیں تھا کہ وہ کسی اور کے ہاتھوں سے چلے۔ اتفاق سے میری گاڑی ائرپورٹ کے داخلی دروازے کے باہر بند ہو گئی۔ اور بند بھی ایسا ہوئی کہ پھر دوبارہ نہیں چلی۔

ارے، یہ تو بتایا ہی نہیں کہ میں ایک لڑکی ہوں میرا پیشہ صحافت ہے، دن رات کام کی عادت ہے مجھے۔ باقی صحافیوں کی طرح۔ خیر۔
کسی نہ کسی طرح گاڑی کو دھکا لگا کر ہم نے ایک طرف کھڑا کیا کہ جانچ پڑتال کریں کہ یہ کیوں رک گئی جبکہ بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا۔

گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے دو بج کر تیرہ منٹ ہوئے تھے اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ مجھے گاڑی یا جہاز کس کا ”سفر“ کرنا ہے۔ یہ سفر دونوں صورتوں میں سفر ہی تھا خواہ آپ انگریزی میں پڑھے یا اردو میں۔

چلیں کسی طرح لفٹ لے کر ہم نے اپنے بیلاروس جانے والے ساتھی کو نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کیا اور اپنی گاڑی کو چلانے اور میکینک کو بلانے کی تگ و دو شروع کر دی۔

جب ہم گاڑی کے نہ چلنے پہ راضی ہو گئے تو ایک لمحے کو خیال آیا کہ موٹر وے پولیس یا اسلام آباد پولیس کی مدد لیتے ہیں۔ بس یہ سوچ آنے کی دیر تھی اور میں نے 15 پہ کال ملائی۔ اگلی آنے والی آواز تمام احساسات اور غصہ کے جذبات کو ابھارنے کے لیے کافی تھے۔ ۔ ۔ ”آپ کا ملایا گیا نمبر کسی کے استعمال میں نہیں کال انکوائری 1217 فار اسسٹنٹس“ ۔
مجھے لگا میرے کان غلط سن رہے ہیں، پھر نمبر ملایا۔ پھر سے وہی میسیج دوہرایا گیا اور ایسا کئی بار کیا ہو گا۔

اس کے بعد باری آئی اسلام آباد ٹریفک پولیس کی ہیلپ لائن 1915 یا 915 کی۔ اتفاق کہیے یا میری قسمت۔ یا فون کی گھٹیا سروس۔ نمبر نہیں ملا۔ شاید میرا فون ہی خراب ہو۔

ائرپورٹ کے داخلی دروازے کے قریب گارڈ سے پوچھا اس جگہ کو کون سا تھانہ لگتا ہے؟ جواب ملا شاید ”گولڑہ“ ۔ اس بات کو مذاق سمجھ کہ میں غصہ پی گئیں۔ میرے موبائل پر آئی جیز سے لے کر تھانے کے تمام محرروں کے نمبر موجود تھے لیکن رات کے اس پہر کس کو کال کروں؟ سمجھ نہیں پا رہیں تھیں۔ لیکن ڈرتے ڈرتے اپنی سہیلی کو جو اسلام آباد میں ایس ایچ او ویمن تھانہ رہ چکی ہیں، معذرت کے ساتھ میں نے جگا دیا۔ صورتحال بتائی اور اپنی گزارش بھی۔ جواب ملا ”صوفیہ اس وقت اپنی گاڑی لے کر کیوں گئی“؟

اس لمحے وہ مجھے میری سہیلی کم اور سی سی پی او لاہور پولیس عمر شیخ زیادہ لگی تھی جن کے خیال میں خواتین کو رات کو گاڑی لے کر نہیں نکلنا چاہیے کیونکہ حادثے کی صورت میں ذمہ دار وہ خود ہی ہوتیں ہیں۔

میری سہیلی نے دوستی کا پورا حق ادا کیا اور ساتھ ہی دوچار مشورے بھی دیے کہ آئندہ مجھے کیا کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔

میرا مسئلہ، ابھی بھی ویسے ہی موجود تھا، اور وہ تھا اسلام آباد پولیس مدد لینا تھا۔ کیوں کہ پانچ سال میں نے خود آئی ٹی پی 92.4 ریڈیو کے ذریعے لوگوں کو بتایا تھا کہ گاڑی خراب ہو جائے تو اسلام آباد ٹریفک پولیس کا ایک یونٹ شہریوں کی مدد کے لیے چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے۔

میں ہیلپ لائن ملانے میں ناکام رہیں۔ اب میں نے اپنے جغرافیہ سے اندازہ لگایا کہ اگر اس بین الاقوامی ہوائی اڈے میں اسلام آباد پولیس کی ایک چوکی ہے تو یہ اڈہ کس تھانے کو لگتا ہو گا؟ پہلی کال شمس تھانے کے لینڈ لائن پر ملائی، جہاں سے ائرپورٹ کے حدود کا تعین نہیں ہو پایا۔ دوسری کال تھانہ ٹیکسلا ملائی جواب ملا نیا ائرپورٹ ہماری حدود میں نہیں ہے شاید اسلام آباد ترنول تھانے لگتا ہے۔ ترنول تھانے میں موجود ڈیوٹی افسر کچھ رحم دل بھی تھا، کچھ پرانی سلام دعا بھی نکل آئی اور انھوں نے مجھے اپنی ذاتی گاڑی سے گھر بھیجنے پر خلوص دعوت بھی دی۔ جس پر میں ان کی مشکور ہوں۔ لیکن وہ بھی مجھے بتا نہیں پائے کہ نیا اسلام آباد ائرپورٹ کہاں ہے؟

میں اپنا غصہ اسلام آباد پہ نکالنا چاہتی تھی لیکن اس وقت مجھے گھر واپس پہنچنا تھا۔ اپنے دوست کی خواری کا احساس بھی تھا۔ اس لیے اپنے اندر کی ”صحافتی بدمعاشی“ کو باہر نہیں آنے دیا۔ کسی نہ کسی طرح ہم نے اپنی گاڑی دوسری گاڑی سے باندھی اور ورک شاپ کھڑی کر دی۔

پولیس ہیلپ لائن اور نئے ائرپورٹ کی حدود کی تلاش میں سورج نے نمودار ہونے کے لیے کروٹیں بدلنا شروع کر دی تھی۔ پہلی فرصت میں ایک ٹویٹ بھی کر دیا جس میں اسلام آباد پولیس سے سوال تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟

اب آتے ہیں موضوع پہ، اگر میں اس رات اکیلی ہوتیں؟ تو یہ سب کیسا ہوتا؟ نہیں نہیں۔ موٹروے کے قریب گجر پورہ جیسا ”سفر“ جو اس بدنصیب خاتون نے اپنے بچوں کے ساتھ سہا؟ کیا میں بھی ۔ ۔ ۔ ارے نہیں صاحب! نہیں۔ اتنا قلم اور ذہن دونوں لکھنا سوچنا گوارا نہیں کرتے۔

مجھے تھانے کی حدود کا تعین کرنے والا نہ بنائیں، مجھے تو ایک ہیلپ لائن چاہیے اس پر کال ملتے ہی تمام مدد گار ادارے اپنے رابطے تیز کریں، حرکت کریں اور کسی ماں کو اس کے بچوں کے سامنے ریپ نہ ہونے دیں۔ کسی ”زینب“ کو سسکیوں میں نہ سونے دیں۔ کسی مرد کو بھی نہ لٹنے دیں ”عورت تو بدکردار بھی ہو سکتی ہے“ اس کا لباس بھی نا مناسب ہو سکتا ہے۔ اور وہ آوارہ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن بس اتنا چاہتی ہوں کہ آپ مجھے غیرت کے نام پر مارنے سے پہلے شرم سے نہ مرنے دیں۔ ایک کال، جس میں شکایت کروں اور مسئلہ کسی بھی پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہو، بس مسئلہ حل کریں نا کہ شکایت کرنے والوں کو کارڈیشن پہ لگا دیں۔ کوئی تو زیرو ہیلپ لائیں ہو۔ پولیس اسٹیشن کی حدود ہو نہ ہو بس پولیس مدد کرے۔

اس ملک کی عزت بچائیے۔ عورتیں جینا سیکھ ہی جائیں گی اگر انھیں مرنے سے بچا لیں تو۔
اور آخر میں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ نئے اسلام آباد ائرپورٹ کو ضلع راولپنڈی کا تھانہ ”فتح جنگ“ لگتا ہے۔ خود یاد رکھیے گا کیونکہ کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی پولیس کو ٹھیک سے معلوم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).