جنسی آسودگی کا خواہشمند شاعر: میرا جی


ایسی شاعری جس کی دنیا میں تخلیقی اظہار کے حدود اخلاقیات کے دائروں میں محدود ہوں۔ جہاں عاشق کا پیشہ محبوب کے حسن کے بیان اور وصال کے تصور پر قائم ہو۔ ہجر اور فراق کے راگ الاپنا اس کا مقدر قرار دیا گیا ہو۔ وہاں عورت کے جسم کے حصول کی باتیں کرنا۔ یا اس سے وابستہ مرد کی جنسی خواہش اور نفسیاتی الجھنوں کے زائیدہ کرب کا اظہار روایتی شعر ی طریقہ کار سے سراسر انحراف ہی ہوسکتا ہے۔ جس کو میراجی نے بخوبی انجام دیا۔ حالانکہ اس انحراف کی راہیں ان کے لئے بہت دشوار تھیں۔ پھر بھی یہ میراجی کا اردو شاعری کی دنیا میں جرأت مند قدم تھا۔ جس کی وجہ سے خصوصاً جدید نظم انسانی ذات کی داخلی کیفیت کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوئی۔ اور اس نے اظہار کے طریقہ کار میں تبدیلی کے ساتھ ہیئت کے تجربوں کا ذائقہ بھی چکھا۔ جس کی وجہ سے میراجی کو نئی نظم کا امام تسلیم کیا گیا۔ حالانکہ میراجی کے علاوہ ان کے معاصرین شعراء میں فیض اور ن۔ م۔ راشد کا نام بھی اماموں کے فہرست میں شامل ہے۔ چونکہ ان شعراء کی راہیں کافی حد تک نئی ہونے کے باوجود روایت سے منسلک تھیں۔ لہٰذا میراجی کے تخلیقی تجربہ کی ندرت اور اظہار کے طریقہ کار کی انفرادیت تسلیم کی گئی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی میراجی کے حوالے سے ن۔ م۔ راشد اور فیض احمد فیض کے متعلق لکھتے ہیں۔

”فیض نے یہ کام نہیں کیا راشد نے یہ کام نہیں کیا۔ ان کا تعلق غزل کی روایت سے کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتا ہے۔ اور ماورا کی شاعری میں تو اختر شیرانی کی اردو غزل اردو شاعری کا عکس و اثر بہت نمایاں اور گہرا ہے“

درحقیقت میراجی نے اپنی الگ شناخت قائم کی۔ اور اردو شاعری میں جس انوکھے تجربہ کے ساتھ نظم کی دنیا میں اپنی بساط رکھی۔ اس کی اولیت اور انفرادیت ابھی تک برقرار ہے۔ میراجی کی تخلیقات کا عمیق مطالعہ کرنے والے ناقدین اور ادیب بلا شک و شبہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ بیان دیکھئے۔

”میراجی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت جنس کی بات کرنا مروجہ اخلاقیات کی سطح پر ایک ناپسندیدہ فعل تھا“

وہ مزید اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

” میراجی نے بھیڑچال سے ہٹ کر اردو شاعری میں ایک ایسا تجربہ کیاکہ خود اردو شاعری میں موضوع اور ہیئت دونوں اعتبار سے ایک ایسی روایت بن گئی کہ ان کی روایت ہی ان کے زندہ رہنے کے لئے کافی ہے“

کچھ اسی طرح کے الفاظ میں میراجی کی تخلیقی اور فنی صلاحیت اور تجربہ کی ندرت کے متعلق ڈاکٹر رشید امجد بھی رقم طراز ہیں۔

”میراجی نفسی مشاہدے کے شاعر ہیں۔ انہوں نے پھٹی ہوئی جیبوں والی پتلون پہن کر۔ اور دنیا کو تین لوگوں میں سمیٹ کر، اس سے بچوں کی طرح کھیلتے ہوئے واقعاتی صداقت کو باریک بینی اور خبر و آگہی کے فنکارانہ تجسس کے ساتھTwistکر کے، تحیر انگیزی کے نئے ہنر کارانہ رویہّ سے شاعری کو نئے ذائقہ اور نئے رُخ سے روشناس کیا“

بہ الفاظِ دیگر سلیم احمد بھی میراجی کی شاعری کی انفرادیت اور ندرت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اردو شاعری کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس حقیقت پر پہنچے ہیں کہ:

”یہ شاعری جیسی بھی ہے اور آپ اس کو جو مقام دیں، لیکن ایک ایسی شاعری جس کا مقابلہ ایسے مسائل سے تھا۔ جس سے اردو زبان کی شاعری کو کسی دور میں بھی سابقہ نہیں پڑا، ان مسائل کو ان کی پوری شکل میں نمایاں کرنے کے لئے اس شاعری نے ایک نئی ہیئت اختیار کی، میراجی کی شاعری کی اولیت ان سے نہیں چھین سکتے۔

میراجی کے تخلیقی تجربہ کی نوعیت اور انفرادیت کے متعلق مذکورہ بیانات گویا اس بات کا اعتراف ہیں کہ میراجی نے تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی پاسدار شعری روایت سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ تخلیقی طریقہ کار میں موضوعات کی سطح سے لے کر طرز اظہار اور ہیئتی نظام میں بھی کافی کچھ نیا کرنے کی کوشش کی، یہ میراجی کا ہی حوصلہ تھا کہ اردو شاعری پہلی مرتبہ انسان کی فطری جنسی دنیا سے روشناس ہوئی، یعنی کہ جو شاعری ابھی تک خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس میں میراجی نے انسان کی ذات کے کچھ ایسے فطری تقاضوں کے متعلق باتیں کرنا شروع کی، جن کو گندہ یا فحش قرار دیا جاتا تھا۔ چاہے میراجی پر یہ مغربی ادب کے عمیق مطالعہ کا اثر ہویا فرائڈ کے تحلیل نفسی کے نظریہ کی دین، بہرحال میراجی کا خصوصاً ابتدائی کلام انسان کی فحش قرار دی گئی قدرتی اور فطری کیفیات کو تہذیب کے پردوں سے باہر لاتاہوامحسوس ہوتا ہے۔ میراجی کی وہ نظمیں پڑھئے اور دیکھئے جن میں انہوں نے خاص طورسے انسان کی جنسی اورنفسیاتی الجھنوں کو مرکزی موضوع کے طور پر برتا ہے، ان نظموں کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میراجی روایتی شاعری کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ وہ کچھ نیا تجربہ کرنے کے لئے پر عزم ہیں، یہی وجہ ہے کے اس طرح کی شعری تخلیقات میں میراجی تصور کا جال بنتے ہیں، مگر احساس ہوتا ہے کہ جیسے میراجی تصور یا خواب کا تانا بانا تو صرف شعری کشش کے لئے بنتے ہیں، اس کے علاوہ نظم میں موضوع کی مطابقت سے جو تاثیر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ فطری معلوم نہیں ہوتی بلکہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سب ان کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہے یا وہ جان بوجھ کر ایسا کرنے پر آمادہ ہیں، کہ وہ اردو نظم کے سانچے میں لفظوں کے پردوں پرانسان کی نفسیات اور جنسی خواہش کی تکمیل کے کیا کیا مراحل ہیں، دیکھا دینا چاہتے ہیں وہ مستعد ہیں کہ نظم کو جنس کے انوکھے اور غیر مانوس تجربہ کا ذائقہ ضرور چکھائیں گے۔

یہ میراجی کی ہی کاوشیں تھی کہ آج اردو شاعری میں روح، جسم اور جنس کے حوالے عام ہیں، اور ان کی تفہیم کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے، اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ میراجیؔ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی اس حد تک ہوئے کہ ان کا نام بدنام ہو کر زیادہ ہوا، ڈاکٹر رشید امجد شاعری کے حوالے سے میراجی کی حوصلہ مندی اور سماج کے رد عمل کے متعلق لکھتے ہیں۔

”میراؔ جی نے اخلاقیات کے اس کھوکھلے پن کو جو رومانی شعراء کے توسط سے ان تک آن پہنچا تھا ردکیا، اسی وجہ سے انہیں جنسی زدگی، بیمار ذہنیت اور فراریت، شکست خوردگی، انفرادیت پسندی اور غیرسماجی ذہن کے طعنے برداشت کرنے پڑے“

سماج کے طعنے تشنے برداشت کرنے والے میراجی کی کوششوں سے جدید نظم انوکھے اور نادر تجربات سے ہمکنار ہوئی، نتیجتاً جو نظمیں وجود میں آئیں، ان کے عنوانات اور موضوعات اس طرح سے ہیں۔ نظم ”جو ئبار“ کامرکزی موضوع استمنا بالید ہے۔ نظم ”برقعے“ میں میراجی نے لباس پرستی، نظم کروٹیں، میں جنسی وصال کے دوران شوہر کی میٹھی میٹھی باتوں اور تن آسانی میں جنسی آسودگی کے موضوع کو برتا ہے، جبکہ جنس سے ذراسا مختلف موضوع ”دن کے روپ میں رات کی کہانی“ کا ہے، دراصل یہ نظم محبت کرنے والے ان عاشقین کے نام ہے جو اپنے لباس کی طرح محبت کو بھی نمائش کی چیز سمجھتے ہیں۔ نظم ”دھوکا“ کا موضوع مندرجہ بالا نظموں کے مضامین سے اس لئے الگ ہے۔ اس نظم میں شاعر نے عورت کو ایک ایسی علامت کے طور پر برتا ہے، جو بذات خود کنواں ہے، اورجنسی تجربہ کے بعد سمندر میں تبدیل ہو جاتی ہے، علاوہ ازیں ”ایک تھی عورت“ نظم بھی کچھ اسی طرح کی ہے، حالانکہ نظم ”چل چلاؤ“ میں شاعر کا موقف ”محبت، زندگی، ازل اور ابد“ پر منحصر ہے۔

مذکورہ نظموں کے علاوہ میراجی کی ان چند نظموں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جن کا بنیادی موضوع جنس اور نفسیات سے متعلق ہے۔ یعنی ”حرامی“، ”عورت“ ”دور کنارا“ ”ایک نظم“، ”عدم کا خلاء“، ”مدھوری بانی“، ”دور نزدیک“، ”خود لذتی“، ”دکھ دل کا دارو“، ”سرگوشیاں ’‘ ، “ سنجوگ ”، “ اونچا مکان ”، “ سنگ آستاں ”، “ جنسی عکس خیالوں کا ”، “ میں جنسی کھیل کو صرف تن آسانی سمجھتاہوں ”، “ اے ریاکاروں ”، “ اجنبی انجان عورت رات کی ”پژ مردگی، “ جسم کے اس پار ”، رتجگا“ دوسری عورت سے ”یہ وہ نظمیں ہیں جن میں میراجی نے جنسی خواہش یانفسیاتی الجھنوں کے دوران ذہنی اور جذباتی کشمکش کو کسی دیگر موضوع سے منسلک نہیں کیا ہے، بلکہ بالواسطہ ان فن پاروں میں تخلیقی تجربہ کا اظہار تہذیبی اقدار کے بر خلاف اس حقیقت کا عکاسی ہے کہ میراجی جنس کو صرف ایک فطری چیز ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک یہ جذبہ اور کیفیت قدرت کی بہت بڑی نعمت ہے، اور جب یہ جذبہ خدا کی دی ہوئی نعمت اور انسانی زندگی کا ضامن ہے، تو گناہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میراجی ایک جگہ لکھتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments