قبر میں اکیلی کیوں لیٹی؟


باہر اکیلی کیوں نکلی؟

رات کے وقت سفر کیوں کیا؟

سر پہ دوپٹہ کیوں نہیں تھا؟

منہ حجاب سے کیوں نہیں ڈھانپا؟

جینز کیوں پہنی؟

شوخ رنگ کیوں اوڑھے؟

بھنویں کیوں ترشوائیں؟

چست لباس سے جسم کیوں نمایاں کیا؟

چادر سے جسم کے زاویے چھپائے کیوں نہیں ؟

منہ پھاڑ کے ہنسی کیوں؟

زیادہ باتیں کیوں کرتی ہے ؟

میک اپ کیوں کیا ؟

بال کیوں کٹوائے تھے؟

لڑکوں کے ساتھ تعلیم کیوں حاصل کی؟

مردوں کے ہمراہ دفتر میں کام کیوں کیا؟

یہ وہ تاویلات ہیں جو کوئی وحشی بھیڑیا ریپ کے بعد اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے کے لئے تراشتا ہے اور اپنے اس مکروہ فعل کی ذمہ داری عورت کے گلے میں لٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نزدیک عورت صرف اسی صورت میں قابل معافی ہے جب وہ اپنے آپ کو سات پردوں میں مستور رکھے، تہہ خانوں میں زندگی بسر کرے، نہ زندوں میں ہو نہ مردوں میں، بس جب بستر پہ بلائے جانے کا وقت ہو، لبیک کہے۔

لیکن کیا واقعی ایسی صورت میں وہ محفوظ ہوگی؟

اجازت ہو تو کچھ مکروہ واقعات یاد دلا دوں، شاید شیخ عمر اور بہت سے ان جیسوں کی کھوئی ہوئی یادداشت واپس آ جائے۔

2019 میں اسماعیل گوٹھ قبرستان کراچی میں دفن ہونے والی بدقسمت عورت کو کچھ ہی گھنٹوں بعد قبر میں بھی نہیں معاف نہیں کیا گیا۔ کیا تھا قبر میں؟ ایک عورت کا جسم، گوشت جو ابھی گداز تھا، ہاتھ بازو کے جوڑ بند میں کچھ لوچ باقی تھا تو کیوں نہ اس سے دل لبھایا جاتا۔ کیا ہوا جو عورت زندہ نہیں تھی، دل دھڑکنا بند کر چکا تھا، زندگی کی حرارت موت کی ٹھنڈک میں بدل چکی تھی۔ بھلا غلاظت انڈیلنے کے لئے دل کی دھڑکن اور آنکھ کی جوت کی کیا ضرورت؟

 2011 میں محمد ریاض نے نارتھ ناظم آباد کے قبرستان میں اڑتالیس دفن ہونے والی عورتوں کا قبر میں ریپ کیا۔ ہاں کہہ لیجیے کہ کفن نامی لباس ناکافی تھا، رات کا پچھلا پہر بھی تھا اور تنہائی بھی۔ ان لاشوں کا قصور یہی تو تھا کہ دنیا کے جھمیلوں سے آزاد ہو کر سب زیادتیوں کے داغ سیمٹ کر وہ رات کے اندھیرے میں شہر خموشاں کے سنسان گوشوں میں بنی قبروں میں آ پہنچی تھیں مگر آخر وہ اکیلے کیوں لیٹی تھیں؟ محمد ریاض کی آتش شوق کو بھڑکانے کے لئے یہ خیال ہی کافی تھا۔

لیجیے، دور کیوں جائیے، فروری 2020 میں اوکاڑہ کے ایک قبرستان میں اشرف نامی شخص نے یہ کارنامہ پھر سے سر انجام دیا ہے۔ دیکھیے نا جب تک عورتیں مختصر سی چادر لپیٹ کے اکیلے دفن ہونے سے باز نہیں آئیں گی، مرد کیسے خود کو روک سکتا ہے اتنی بے حیا عورت کو دیکھ کر؟

آنسوؤں پونچھتے نہ جانے کیوں منٹو کا ایشر سنگھ یاد آگیا جو مردہ عورت کو زندہ سمجھ کے فعل کا ارتکاب تو کر بیٹھا لیکن اب اسے ٹھنڈے گوشت کا سرد پن بھلائے نہیں بھولتا۔  منٹو کے افسانے سے معلوم ہوتا ہے کہ 72 برس پہلے ایشر سنگھ جیسے کرداروں میں ضمیر کی رمق باقی تھی، رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی۔۔۔

سنو منٹو! ایشر سنگھ کی کہانی لکھنے پہ تو تمہیں عدالت نے ناکوں چنے چبوا دیئے لیکن اب وہی عدالتیں اپنے سامنے ٹھنڈے گوشت کے بیوپاریوں کو نشان عبرت بنانے سے قاصر ہیں کیونکہ  عدالتوں کو آج کل کچھ دوسرے ضروری کام نمٹانا ہیں۔

ارے ہم تو اس نباض منٹو کو یاد کرتے کرتے موضوع ہی سے ہٹ گئے۔ کیا کیجیے، قلم سے لہو ٹپکے اور منٹو یاد نہ آئے؟

قبر سے نکل کے اب چاردیواری کے اندر اپنوں کے ہاتھوں مسل دی جانے والی ننھی کلیوں کو یاد کرتے ہیں۔

جون 2019 میں راولپنڈی کے گولڑہ شریف کی رہائشی چودہ برس کی بچی جسے کسی غیر مرد نے نہیں، تین سگے بھائیوں نے دو برس مسلسل اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور ان تین میں سے ایک بھائی صاحب کا تعلق مدرسے سے بھی تھا۔ رات کے اندھیرے میں اپنے ہی بھائی، اپنے ہی گھر میں، اپنی ہی ننھی بہن کو باری باری بے لباس کرتے ہوئے…. شیخ عمر صاحب توجہ فرمائیں؟

رتہ امرال راولپنڈی (فروری 2020) کی اس بچی کو مت بھولیے جو ماں کے انتقال کے بعد باپ کے کام پہ جانے کے بعد گھر میں اکیلی ہوتی تھی اور اس اکیلی چھوٹی بچی کو تین ادھیڑ عمر ہمسایہ مردوں نے ماں بنا دیا۔ نہ جانے تینوں میں باپ کا رتبہ کسے ملا؟ مگر سوال وہی ہے کہ اپنا گھر اور اپنی ہی چاردیواری، پھر بھی؟

جون 2019 میں گرجا روڈ راولپنڈی کی رہائش پذیر ایک بچی اپنے سگے باپ کے ہاتھوں بار بار ریپ ہوئی اور اپنے سگے باپ کے بچے کی ماں بن گئی۔ وہ باپ جس کے نطفے کے نتیجے میں اس نے جنم لیا اور اسی باپ نے اپنی ہی کلی کو تار تار کر دیا۔ ہم کسی غیر سے کیا گلہ کرتے؟

اکتوبر 2018 میں کتار بند روڈ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور کے رہائشی اس باپ کا کیا کیجیے جس نے اپنی پانچ برس اور نو برس کی بچیوں کو کئی برس مسلسل ریپ کیا۔ بچیوں نے ماں کو بتایا” امی، ابا ہمارے ساتھ گندی حرکتیں کرتا ہے”۔ مجبور عورت نے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ ثبوت موجود نہیں۔ ماں نے ڈھیٹ اور شرم سے عاری باپ کو پھر سے بچیوں کے ساتھ ظلم کرتے دیکھا تو وڈیو ریکارڈ نگ کے ثبوت کے بعد پولیس کو یقین دلانے میں کامیاب ہوئی۔

نومبر 2019 ملتان کی ساکن تیرہ سالہ بچی جسے اپنے گھر میں سگے باپ نے اپنے چار دوستوں کے ساتھ مل کے ریپ کیا۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ باپ کی نظر کس طرح سے اٹھی ہوگی بچی پہ؟

قصور کی آٹھ سالہ زینب انصاری جو کسی ایسی تاویل کے دائرے میں نہیں بیٹھتی تھی، بچپن اور میٹھی ٹافی کے شوق کی قیمت اپنے ہی محلے میں اپنے جسم اور اپنی زندگی کی صورت میں چکا بیٹھی۔ کیا اس کے ننھے جسم کے پیچ و خم اس قابل تھے کہ کسی کے جذبات میں تلاطم آ جاتا؟

اسلام اباد کی فرشتہ مومند کی کہانی اس سے مختلف نہیں تھی۔ ننھی بچی کا جسم کسی چڑیا جیسا نازک تھا مگر زندگی کا خراج اسے بھی دینا پڑا۔

رات گئے گھر سے نکلنے کی اچھی کہی۔ خدیجہ صدیقی تو دن دیہاڑے شملہ پہاڑی لاہور پر واقع سکول کے دروازے پر درندگی کا شکار ہوئی تھی، جہاں وہ اپنی چھوٹی بہن کو لینے گئی تھی۔ ڈرائیور ہمراہ تھا۔ اس پر چھری کے 23 وار کئے گئے۔ تب لاہور بار کونسل کی تاویل کچھ اور تھی۔

دہلی کی رہائشی چھیاسی برس کی دادی کا ریپ صرف دو دن پہلے کا واقعہ ہے، جب بوڑھی عورت اپنے گھر کے سامنے گوالے کا انتظار کر رہی تھی۔ کیا چھیاسی برس کی بڑھیا کے جسم میں کچھ رہ گیا ہو گا جسے دیکھ کر ریپسٹ کے جذبات برانگیخته ہوئے؟

6 ستمبر 2020 کراچی میں لاپتہ ہو کے جھلسی ہوئی لاش کی صورت میں کوڑے کے ڈھیر پہ پائی جانے والی پانچ برس کی مروہ، نہ جانے ہنستی زیادہ تھی یا شاید مختصر فراک پہن کے گھر سے نکلی تھی کہ کسی کے جذبات بھڑک اٹھے۔

لکھنؤ میں چار ماہ کی گڑیا کو تیس برس کے بھیڑیے کے بھبھوڑنے کا واقعہ بھی فروری 2020 کا ہے۔ کیا بھاؤ اور نرت دکھائے ہوں گے اس چار ماہ کی بچی نے جسے یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ وہ ایک ایسی دنیا میں آن پہنچی ہے جہاں وہ مردوں کی ہوس کے چارے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

اور اب لاہور کے نواح میں ایک عورت کا اپنے بچوں کے سامنے بے آبرو ہونا۔۔۔ وہ عورت جو اپنے بچوں کو مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے طور طریق سے روشناس کروانے اپنے وطن آئی تھی۔

صاحب کیا سمجھے آپ؟ کچھ اندازہ ہوا ؟

تو پھر جان لیجیے کہ مسئلہ نہ عورت کا قوس قزح سا لباس ہے اور نہ لباس کا حجم۔ نہ چڑھتی جوانی کی جھلک ہے اور اور نہ ہی نہ ناز و انداز اور عشوے وغمزے۔ نہ جسم کے پیچ و خم ہیں اور نہ گیسوئے دراز۔ نہ سکول کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم ہے اور نہ دفتر کی نوکری اور مردوں کا ساتھ۔ نہ گھر سے باہر اکیلے نکلنے کا مسئلہ ہے اور نہ دن کا کوئی وقت اور رات کا پچھلا پہر۔ نہ کھلکھلاتی ہوئی ہنسی ہے اور باتیں۔ نہ چادر، نقاب اور حجاب ہے اور نہ میک اپ اور بالوں کا ڈھکے نہ ہونا!

پھر وجہ کیا ہے آخر عورت کی اس تذلیل کی؟

مسئلہ ملکیت ہے، ذاتی ملکیت! بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھیڑ، بکری ، گائے، بھینس اور عورت! عورت کا جسم مرد کی نظر میں ایک جائیداد ہے ایک مشترکہ چیز جیسے شام لاٹ زمین کا ٹکڑا۔ ایک ایسی ارزاں چیز جس پہ جب چاہے، جیسے چاہے کوئی آ کے اپنی مہر ثبت کرے اور چلتا بنے۔

عورت کا جسم گوشت کا ایسا ٹکڑا ہے جسے مرد جب چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ چاہے وہ سڑک پہ ہو یا گھر میں، دفتر میں ہو یا سکول میں، ہسپتال میں ہو یا قبر میں، ماں کی گود میں ہو یا مسجد میں۔ جب چاہو چٹکی بھر لو، جب چاہو ہاتھ پھیر لو، جب چاہو روند کے گزر جاؤ اور جب چاہو چیر پھاڑ کے رکھ دو۔

ارے عورت ہی تو ہے، مرد کے استعمال کے لئے بنائی جانے والی چیز! پیدا ہی مرد کی تفنن طبع کے لئے کی گئی ہے۔ دودھ پیتی بچی ہو، یا دادی، گلی میں غبارہ خریدتی بچی ہو یا قبر میں لیٹی مردہ لاش جیسے چاہو برتو!

مرد کو بتا دیا گیا ہے کہ اسے ان سب پہ فضیلت حاصل ہے سو یہ فیصلہ کرنے کا حق بھی اسی کا ہے کہ سامنے نظر آنے والی عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ گرسنہ نظروں سے ٹٹولا جائے، سانپ کی طرح رینگتے ہاتھوں سے کام لیا جائے، فحش فقرے اچھالے جائیں یا پھر ریپ ہی کر لیا جائے۔ اس کی قسمت کہ بچ نکلے کہ نہیں، مرد تو ایسا جانور ہے جو بخشنے والا نہیں۔

اور آخر کیوں وہ کیوں بخشے؟ جانتا ہے وہ جو بھی کر گزرے، ریاست کے کرتا دھرتا ہیں نا اپنی بودی تاویلات سے اپنے جیسوں کو تحفظ دینے کے لئے یہ کہتے ہوئے، ” آخر رات کو اکیلی باہر کیوں نکلی؟” موجود ہوں گے۔

ہمیں اس دن کا انتظار رہے گا جب اسی جھونک میں وہ یہ فرما دیں،

” آخر قبر میں اکیلی کیوں لیٹی؟”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).