کیا انڈیا میں گدھی کا دودھ سات ہزار روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا ہے؟


गधी का दूध

کسی کو اگر گدھا کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے بیوقوف سمجھا جا رہا ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو ہر وقت کام میں مگن رہتے ہیں اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’وہ (شخص) جو گدھوں کی طرح کام کرتا ہے۔‘

پاکستان اور انڈیا میں گدھوں کو عام طور پر بوجھ ڈھونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن موٹر سے چلنے والے انجنوں کی مارکیٹ میں آمد کے بعد سے گذشتہ چند برسوں میں گدھوں کے استعمال میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

لیکن اب گدھوں کے بارے کچھ ایسی معلومات سامنے آ رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اُن کی آبادی دوبارہ سے بڑھانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا نے آٹھ ستمبر کو ایک خبر شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہریانہ میں انڈین زرعی تحقیقاتی کونسل کے ذیلی ادارے نیشنل ریسرچ سینٹر آن ایکوائنز (آین آر سی ای) یعنی گھوڑوں اور گدھوں پر تحقیق کرنے والے ادارے نے ایک دودھ کا پلانٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اخبار کے مطابق اس میں ہلاری نسل کے گدھیاں رکھے جائیں گے اور ان کا دودھ نکالا جائے گا۔

اس کے علاوہ، اے بی پی نیوز، نوبھارت ٹائمز، نیشنل ہیرالڈ جیسے مختلف میڈیا اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان گدھیوں سے حاصل ہونے والا دودھ سات ہزار روپے فی لیٹر تک فروخت کیا جا سکتا ہے۔

ان اطلاعات میں گدھے کے دودھ کے فوائد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

گدھی کے دودھ سے بنا پنیر اتنا مہنگا کیوں

آئیے اس فیکٹ چیک رپورٹ میں جانتے ہیں کہ گدھے کے دودھ سے کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں اور اِس کی قیمت سات ہزار روپے فی لیٹر تک کیسے ہو سکتی ہے؟

گدھی کے دودھ سے فائدہ

اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ بہت سے جانوروں کے دودھ کو قدرے کم معیار کا سمجھا جاتا ہے جس میں گائے اور گھوڑی کا دودھ بھی شامل ہے۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ گدھی اور گھوڑی کے دودھ میں ایسے پروٹین پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے بھی مفید ہیں جو گائے کے دودھ سے الرجک ہوتے ہیں۔

ایف اے او کے مطابق یہ دودھ انسانی دودھ کی طرح ہے، جس میں پروٹین اور چربی کم ہے لیکن اس میں لیکٹوز ہوتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ دودھ جلد پھٹ جاتا ہے لیکن اس دودھ سے پنیر نہیں بنایا جا سکتا۔ ایف اے او کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کاسمیٹکس اور دواسازی کی صنعت میں بھی استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں خلیوں کی افادیت اور قوت مدافعت بڑھانے کی بھی خصوصیات ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ قدیم مصر کی حکمران ملکہ کلوپیٹرا اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے گدھی کے دودھ سے غسل لیتی تھیں۔

این آر سی ای کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر مکتی باسو کا کہنا ہے کہ گدھے کے دودھ کے دو بڑے فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ دودھ خواتین کے دودھ کی طرح صحت مند ہے، اور دوسرا اس میں ایسے مرکبات ہیں جو جلد کی پرورش کرتے ہیں اور ان کی صحت بہتر بنانے کے علاوہ انھیں نرم و ملائم بھی رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر باسو کہتے ہیں انڈیا میں گدھی کے دودھ پر ابھی بہت تحقیق ہونا باقی ہے کیونکہ لوگ اس کے فوائد سے واقف نہیں ہیں جبکہ یورپ میں لوگ اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ وہاں نوزائیدہ بچوں کے لیے پاسچرائزڈ دودھ استعمال ہو رہا ہے اور اب امریکہ نے بھی اس کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔

ڈاکٹر باسو کا کہنا ہے کہ گدھی کے دودھ سے انڈیا میں کم مصنوعات بنائی جا رہی ہیں لیکن جب اس کی مانگ میں اضافہ ہو گا تو مشکلات ہو سکتی ہیں کیونکہ انڈیا میں گدھوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔

گدھی کتنا دودھ دیتی ہے

دودھ حاصل کرنے کے لیے این آر سی ای گجرات سے ہلاری نسل کے گدھے لا رہا ہے۔

گجرات کی آنند زرعی یونیورسٹی کے محکمہ حیوانات سے منسلک پروفیسر ڈی این رنکے کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب انڈیا میں گدھوں کی نسل کے بارے میں ایسا کام کیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’انڈیا میں گدھوں کی سپتی نسل کو پہچانا گیا تھا۔ اب گجرات کے جام نگر اور دوارکا میں پائے جانے والے ہلاری نسل کے گدھوں کو بھی پہچان لیا گیا ہے۔ یہ گدھا عام گدھوں سے قدرے اونچا اور گھوڑوں سے چھوٹا ہے۔ ابھی تک انڈیا میں گلیوں اور سڑکوں پر گھومنے والے گدھوں کی نسل کا تعین نہیں ہو سکا تھا لیکن اب ہم نے دو نسلوں کی شناخت کر لی جو کہ خوش آئند بات ہے۔‘

پروفیسر رنکے کا کہنا ہے ایک گدھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ آدھا لیٹر دودھ دیتی ہے اور اگر گدھی کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو یہ اور بھی کم ہو جائے گا۔

کیا گدھے کا دودھ سات ہزار روپے کا ہے؟

یورپ اور امریکہ میں گدھے کے دودھ کا کاروبار کافی پہلے سے ہے لیکن انڈیا میں ابھی اس کی صرف شروعات ہیں اور یہ دودھ مہنگا ہے، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اسے فی لیٹر سات ہزار روپے تک فروخت کیا جائے۔

اسی کے ساتھ ڈاکٹر باسو کا کہنا ہے کہ یہ تو ابھی شروعات ہے اور تمل ناڈو، کیرالہ اور گجرات میں صرف چند لوگوں نے گدھیوں کو فارم میں رکھنا شروع کیا ہے۔

سلیم عبد اللطیف دادن ممبئی سے ’ویری ریئر آن لائن ڈاٹ کام‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں جو اونٹ، بھیڑ، گائے اور گدھی کے دودھ کے ساتھ ساتھ گھی اور دودھ کا پاؤڈر بھی آن لائن فروخت کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’گدھے کے دودھ کی قیمت طے نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ دودھ کسی فارم سے حاصل کرتے ہیں۔ ہم یہ دودھ اپنے گاؤں کے لوگوں سے لیتے ہیں۔ جو اس کو خریدتے ہیں ان کا مقصد ہوتا ہے اسے ادویات اور کاسمیٹکس بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔‘

سلیم کا کہنا ہے کہ اگر آپ اسے کہیں دور بھیج رہے ہوں تو اس پر سات ہزار روپے فی لیٹر لاگت آ سکتی ہے کیونکہ یہ جلد خراب ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ ممبئی میں ہیں تو یہ دودھ فی لیٹر پانچ ہزار روپے میں مل جائے گا۔

گدھے کے دودھ کی مصنوعات کا آغاز

ٹاٹا انسٹٹیوٹ آف سوشل سائنس سے ایم اے کرنے کے بعد دہلی کی پوجا کول نے فیصلہ کیا کہ وہ گدھوں کے ذریعے کام کرنے والے لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتی ہیں۔

اس کے بعد انھوں نے ایسے مزدوروں اور کسانوں کو جمع کیا جن کے پاس ریاست مہاراشٹر کے علاقے کولہاپور میں گدھے تھے۔

انھوں نے عام لوگوں کو گدھے کا دودھ بیچنے کے لیے ایک ماڈل وضع کیا لیکن وہ ابتدا میں ناکام ہوئیں۔

لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’آرگانک‘ نامی ایک سٹارٹ اپ شروع کیا جو گدھے کے دودھ تیار کی جانے والی جلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات تیار کرتے اور فروخت کرتے ہیں۔

پوجا کا کہنا ہے کہ ’ہم نے دہلی میں شروعات سنہ 2018 میں کیں۔ ہم نے غازی آباد اور اس کے آس پاس کے ایسے مزدوروں کی نشاندہی کی جو گدھے پالتے تھے۔ ان کے ذریعے وہ ایک دن میں 300 روپے کماتے تھے لیکن ہم نے انھیں دودھ بیچنے پر راضی کیا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’ابتدا میں ان کے گھر کی خواتین بھی اس پر اعتراض کرتی تھیں۔ ان کو لگتا تھا کہ ہم جادو ٹونا کر رہے ہیں اور ان کا گدھا مر جائے گا لیکن پھر انھوں نے دودھ دینا شروع کر دیا۔‘

پوجا کا کہنا ہے کہ وہ دودھ دو سے تین ہزار روپے فی لیٹر پر خریدتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال سات ہزار روپے فی لیٹر دودھ کہیں بھی فروخت نہیں کیا جا رہا کیونکہ یہ کسی فارم سے حاصل نہیں کیا جاتا۔

گدھے کے دودھ سے بنے صابن اور جلد کی نشو نما کی مصنوعات بڑی تعداد میں آن لائن سٹورز جیسے ایمازون اور فلپ کارٹ میں ملتی ہیں۔

پوجا خود کہتی ہیں کہ ان کا بنایا ہوا 100 گرام صابن پانچ سو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

انڈیا میں گدھوں کی تعداد کتنی ہے؟

لیکن جہاں ایک جانب انڈیا میں گدھے کے دودھ کی قیمتیں ایک ہزار روپے فی لیٹر سے زیادہ ہیں، وہیں ملک میں گدھوں کی تعداد کم ہو کر محض ایک لاکھ رہ گئی ہے۔

انڈیا میں سنہ 2012 میں کی گئی جانوروں کی گنتی کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ تھی، سنہ 2019 کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد میں 61 فیصد کمی ہوئی ہے اور اب ملک میں صرف ایک لاکھ بیس ہزار گدھے رہ گئے ہیں۔

اگر گدھوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد کی صورت میں اگر گدھے کے دودھ کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر اس کی قیمت بھی بڑھ سکتی ہے لیکن اس وقت ہمارے فیکٹ چیک کی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ گدھے کے دودھ کی قیمت سات ہزار روپے فی لیٹر تک نہیں پہنچی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp