تبدیلی کے سونامی میں ڈوبتا تصوراتی ٹائی ٹینک


ارض پاک آج تاریخ کے جس بدترین سیاسی معاشی اور اخلاقی بحران سے دوچار ہے شاید ہی کبھی کسی بدترین آمریت میں بھی رہا ہو، مدینے کی ریاست کے سپنے، حضرت عمر فاروق رضہ اللہ عنہ کی طرز حکمرانی کی مثالیں، اللہ رب العزت کے قانون اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ صلعم کی حیات طیبہ کی روشنی میں ملک کو فلاحی اسلامی جمہوری مملکت بنانے کے دعویداروں نے محض دو سال میں ہی پاکستان کو بیسویں صدی کی بدترین فسطائیت پسند ریاست میں تبدیل کر دیا ہے، پاکستان کی عوام نے جس مسحورکن تبدیلی کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے کسے معلوم تھا کہ وہ اتنی جلدی یوں تیز ہوا میں اڑتے خزاں کے پتوں کی طرح بکھر جائیں گے۔

خان صاحب کی تبدیلی ملک میں بہت کچھ تبدیل کر گئی اور اس تیزی سے کہ پلک جھپکنے کی بھی مہلت نہ ملی، مگر یہ تبدیلی جو بقول ان کے سونامی ہے واقعی سونامی کی طرح ہر سو تباہی پھیلاتی جا رہی، سیاست بدترین انتقام میں تبدیل ہو گئی، معیشت مستحکم سے غیر مستحکم اور پھر منفی ہو گئی، اخلاقیات کا تو جنازہ ہی نکال دیا گیا، اختلاف رائے جرم بنا دیا گیا، اظہار رائے چھین لیا گیا، لبوں پہ مہر لگا دی گئی، اگر غلطی سے کوئی آواز اٹھے بھی تو بنا کسی لحاظ و مروت، مرد و زن کی تمیز کیے بغیر اس کا وہ حال کرنا ہے کہ تنقید کرنا والا یا آواز حق بلند کرنے والا یا تو دبک کر بیٹھ جائے یا پھر خوفزدہ ہوکر فسطائیت کا ہم آواز بن جائے۔

ان دو برسوں میں پاکستان اظہار رائے کی آزادی کے لحاظ سے بدترین ممالک کی فہرست میں تیزی سے ترقی کرتا اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ اپنی ہر تقریر میں ہٹلر کے نازی ازم اور آر ایس ایس نظریات کے لتے اتارنے والے ریاست مدینہ قائم کرنے کے خواہشمند وزیراعظم نے فسطائیت میں ہٹلر کو اور آر ایس ایس کے نظریات میں مودی کو بھی مات دے دی ہے

سیاسی مخالفین سارے چور اور ڈاکو ہیں، ملک لوٹنے والے ہیں، خان صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اس لیے نیب کو آزاد چھوڑ دیا ہے اور اسے اجازت دے دی ہے کہ تمام بدعنوان، ملک لوٹنے والے با اثر موروثی سیاستدانوں کو جن کے بارے میں ہم وطن نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو کہ یہ بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑے کیے جا سکتے ہیں ان کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالے، ہاں مگر یہ بات یاد رہے کہ نیب کو یہ آزادی صرف مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے لیے ملی ہے۔

انصاف کو اس طرح قرآن و سنت میں بیان کیے گئے عدل و انصاف کے تقاضوں کے ہم آہنگ بنایا ہے کہ سپریم کورٹ کا جج اور ان کا خاندان اپنی جائیدادوں کا حساب بھی دے رہا ہے تو ان کی اہلیہ اپنی خاندانی وراثت میں ملی ملکیت کی رسیدیں بھی دکھا رہی ہیں مگر نہ تو وزیراعظم کی بہن وسائل سے بڑھ کر آمدنی پہ جرمانہ بھرنے کے باوجود اپنی منی ٹریل دینے کی پابند ہے نہ ہی ایک ریٹائرڈ جرنیل اپنی آمدنی سے زائد اثاثوں کا حساب دینے کا، بلکہ ان کی تو صرف وضاحت ہی قابل قبول قرار پائی، مخالفین کے خلاف قانون کے حرکت میں آنے کے لیے صرف بے نام شکایت کی دیر ہے جبکہ اپنے چہیتے اربوں کھربوں کے جزیرے خریدیں یا پوری دنیا میں کمپنیاں قائم کریں یہاں قانون کی آنکھوں پہ پٹی پڑی رہتی ہے۔

پولیس ریفارمز کا نعرہ لگا کر اور خیبرپختونخوا کی ”مثالی“ پولیس کی مثالیں دے کر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس میں ایسی ریفارمز لائے کہ اصلاحات ہی شرما جائیں، سابق آئی جی کے پی کے ناصر خان درانی کو پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے کے لیے ذمے داری سونپی گئی، مگر اصلاحات لانے والوں، پولیس کو غیر سیاسی کرنے اور میرٹ پہ پولیس افسر لگانے والوں نے پاک پتن میں خاتون اول کے سابق شوہر کو پروٹوکول نہ دینے والے پولیس افسر کے ساتھ جو حال کیا اس کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ ناصر درانی کانوں کو ہاتھ لگائے پنجاب پولیس کی ریفارمز کمیٹی چھوڑ بھاگے، دو سال میں پانچ آئی جی تبدیل کرکے اصلاحات کا پیمانہ اس طرح مقرر کیا کہ جو کام نہیں کرے گا (ہماری مرضی کے مطابق) وہ نہیں رہے گا، ایک ترجمان طوطے نے تو یہاں تک کہا کہ پانچ تو کیا اصلاحات لانے کے لیے اگر پانچ سو آئی جی بھی تبدیل کرنے پڑے تو پولیس کو ”اپنے تابع“ کرنے کے لیے کریں گے۔

لاھور کا سی سی پی او اس افسر کو لگایا جس کے لیے سینٹرل سلیکشن بورڈ نے سفارشات پیش کیں کہ یہ شخص نہ تو اگلے گریڈ میں ترقی کا حقدار ہے نہ ہی کسی اہم عوامی عہدے پہ تعیناتی کا، مگر چہیتے مشیر کے احتسابی ایجنڈے کو تقویت ہی ایسے قابل اور ایماندار پولیس افسران کی تقرریوں سے پہنچتی ہے جن کے لیے سلیکشن بورڈ کرپٹ، نااہل، رشوت خور جیسے القابات استعمال کرے۔ پولیس میں ایسی بے مثال اصلاحات متعارف کروائی ہیں جن کے تحت کوئی ماتحت افسر بھی ٹھیک کام کرنے والے آئی جی کو ہی کھڈے لائن لگوا سکتا ہے، ایسی مثالی، جدید ریفارمز، پولیس کو غیر سیاسی کرنے اور میرٹ پر پولیس افسران کی تقرریوں کے معاملے میں خان صاحب کی حکومت نے وہ کام کیا ہے کہ اس سے پہلے شاید ہی کسی حکومت نے کیا ہو۔

ملک کی معیشت آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے خان صاحب کے پاس جدید معیشت کا ماہر ایک ابن خلدون تھا جو اپوزیشن دور میں روزانہ معیشت کی بہتری کے لیے لمبے لمبے بھاشن دیتا گھنٹوں پہ محیط پریس کانفرنسز کرتا مگر جب معیشت ٹھیک کرنے کا اختیار ملا تو پہلے چھ ماہ میں ہی معیشت کی چولیں ہلا ڈالیں نتیجتاً معیشت سدھارنے کا بیڑا آصف علی زرداری کے معاشی ٹیم کے کپتان کے سپرد کرنا پڑا، ساتھ میں معیشت کی نیا پار کرانے کے لیے چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگ شامل کیے جن کے مفادات پاکستانی معیشت اور کاروباری معاملات سے جڑے تھے نتیجا آج ملک کی معاشی حالت کسی بیوہ جیسی ہے۔

تبدیلی جو سونامی کا نام لے کر ملک میں آئی اس نے حقیقتاً سونامی کا ہی کردار ادا کیا ہے کوئی ادارہ، کوئی شعبہ، کوئی طبقہ ایسا نہیں چھوڑا جو اس سونامی کے اثرات سے متاثر نہ ہوا ہو بلکہ بہت ہی بری طرح متاثر نہ ہوا ہو۔ آج ارض پاک کا ہر ذی روح جس کرب و اضطراب میں مبتلا ہے اس کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی مڈل کلاس تقریباً تمام ہو چکی، اپر مڈل کلاس سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے جتن کر رہی ہے جبکہ اپر کلاس خان صاحب کی تبدیلی کے تباہ کن ثمرات سے ابھی تک تو نبرد آزما ہے مگر سوائے انتہائی قریبی امراء کے باقی زیادہ دیر اس تبدیلی کی سونامی کا بوجھ برداشت نہیں کر پائیں گے، اور یوں بڑی تیزی سے تبدیلی کی سونامی کا یہ تصوراتی ٹائی ٹینک ڈوبتا جا رہا ہے اور بچانے والا کوئی آگے نہیں آ رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).