اکثریت نہیں چاہیے، فعالیت چاہیے


ایک قانون جس پر ہم سب بلا استثنا ایمان رکھتے ہیں، وہ ہے قانون اکثریت۔ پاکستان آج کیوں تک ترقی نہیں کر سکا؟ کیونکہ سب ایک نکتے پر جمع نہیں ہو سکے۔ مذہبی جماعتیں ملک میں کیوں کوئی قابل ذکر کام انجام نہیں دیں سکیں؟ کیونکہ سب ایک پیج پر نہیں ہیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے اور منزل تک پہنچ جانے کا جو معجزہ ہم کرنا چاہتے ہیں، یہ علمی و عملی کسی لحاظ سے امکان پذیر ہی نہیں ہے۔ تاریخ بھر میں رونما ہونے والی نمایاں سیاسی تبدیلیوں میں کبھی بھی اکثریت شامل نہیں رہی بلکہ ہمیشہ محدود عوامی گروہ نے اپنی فعالیت کی بنیاد پر اکثریت کو مغلوب کر لیا۔

قرآن مجید نے بھی قانون اکثریت کو صریحاً رد کیا ہے بلکہ اکثریت کی نفی کی ہے۔ قرآنی داستانوں میں ہمیشہ اقلیتی گروہ نے اکثریت پر غلبہ پایا ہے اس لیے قرآن نے کہیں بھی کامیابی کا معیار اکثریت کو قرار نہیں دیا۔ اس کے علاوہ ہم عملی طور پر بھی کسی معاشرے کا جائزہ لیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اکثریت حالات حاضرہ سے لا تعلق ہوتی ہے، اگر کوئی سروکار رکھے بھی تو اپنی انفرادی زندگی سے متعلق مفادات کو مد نظر رکھتا ہے۔ اکثریت بھیڑ چال کا شکار ہوتے ہیں اس لیے دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ اکثریت کا غم ان کی ذات ہے نہ کہ معاشرہ، اس لیے اکثریت سیاسی و سماجی شعور سے خالی ہوتے ہیں اور ہمیشہ اقلیت کے پیچھے چلتے ہیں۔ لہذا اکثریت سے تعقل و تفکر کی امید لگانا دانش مندی نہیں۔

انقلاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انقلاب عوامی ہوتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ انقلاب عوامی ہونا چاہیے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اکثریت کو انقلاب کے لیے آمادہ کیا جائے اور تب تک انتظار کیا جائے جب تک اکثریت انقلابی راہ پر نہ آ جائے۔ عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب کا آغاز عوام سے ہو اور اس کے اندر تمام عوامی طبقات کی موجودگی شامل ہو۔ اگر کوئی خاص گروہ مثلاً اساتذہ، مزدور یا کوئی اور طبقہ اپنے حقوق کے لیے میدان میں آ جائے اور کامیاب بھی ہو جائے تو یہ انقلاب نہیں کہلائے گا۔

مثال کے طور پر، انقلاب روس میں تمام عوامی طبقات شامل نہیں تھے بلکہ صرف مزدور طبقہ میدان میں لڑ رہا تھا، وہاں سیاسی تبدیلی کی وجہ بھی مزدورطبقہ نہیں تھا بلکہ حکومتی سطح پر موجود ہرج و مرج اور حماقت تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد روسی فوج شکست خوردہ بھی تھی اور خستہ حال بھی، علما شدید لا ابالی پن کا شکار تھے، سلطنت روس کا آخری فرمانروا اپنی رنگین مزاجی کے باعث مشہور تھا، روز مرہ کی اشیائے ضرورت ناپید تھیں۔ ایسی صورتحال سے لینن کی کمیونسٹ تحریک نے فائدہ اٹھا کر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اگر حکومت مضبوط اور سمجھدار ہو، عوام خوشحال ہو، اقتصاد مستحکم ہو تو کبھی بھی صرف ایک مخصوص عوامی گروہ انقلابی تبدیلی نہیں لا سکتا۔

اصطلاح میں انقلابی حرکت کو ”عمودی حرکت“ کہا جاتا ہے، یعنی اس انقلابی تحریک کا ایک سرا عوام میں موجود ہوتا ہے اور ایک سرا بلندی کی طرف حرکت کر رہا ہو تا ہے۔ اگر اس حرکت عمودی میں اوپر سے نیچے تبدیلی آئے تو یہ انقلاب نہیں اصلاحات کہلاتی ہیں۔ انقلاب کبھی بھی حکومتی ایوانوں سے شروع نہیں ہوتا بلکہ عوام کے اندر سے آغاز ہوتا ہے۔ اگر علم، وسائل، طاقت اوراثرو رسوخ کے لحاظ سے معاشرے کے بڑے طبقات سے تبدیلی شروع ہو تو یہ ماحول اصلاحات کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے جبکہ انقلاب کے لیے لازمی ہے کہ عوام کے اندر ایک آئیڈیالوجی متعارف ہو، عوام کی سوچ، مزاج، فیصلے اور راہیں تبدیل ہوں اور یہ آگاہانہ طور پر انقلابی راستے کا انتخاب کریں۔ بندوق کی نوک پر یا مفادات کا جھانسادے کر عوام کو آمادہ کر کہ کوئی سیاسی تبدیلی لے آنا کودتا کہلاتا ہے نہ کہ انقلاب۔

لہذا انقلابی افراد کے لیے یہ نکتہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ جمہوریت کا محور اکثریت ہوتی ہے لیکن آئیڈیالوجی کا محور فعالیت ہوتی ہے جو تمام عوامی طبقات سے مل کر وجود میں آنے والا اقلیتی گروہ انجام دیتا ہے۔ قلیل عوامی گروہ سے انقلاب کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی بھرپور فعالیت اور انقلابی عمل سے اکثریت پر غلبہ پا لیتا ہے۔ ہم اپنے ملک میں اکثریت کا حال دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اکثریت کبھی بھی فعال نہیں ہوتے بلکہ فعالیت دکھانے والے اقلیتی گروہ سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔

یہ قانون ہمیشہ سے موجود ہے اور موجود رہے گا یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک کروڑ غیر فعال اکثریت عملی طور پر شاید ایک فرد کے برابر بھی نہ ہوں جبکہ دس فعال افراد دس لاکھ افراد کے برابر سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے بھی ایک صاحب استقامت انسان کو بیس افراد کے برابر شمار کیا ہے اور در حقیقت اسی استقامت و فعالیت کی بنیاد پر لاتعلق اکثریت ان کے ہمراہ ہو جاتے ہیں۔ اس قلیل عوامی گروہ کی فعالیت اتنی ہمہ گہر ہوتی ہے کہ ساکت اکثریت ان کی تائید کرتے ہیں یا کم ازکم ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔

پاکستان میں انقلابی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں اپنی تمام تر توانائیاں اکثریت کو بدلنے میں ضائع کر رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک انقلاب کا معیار آئیڈیالوجی نہیں بلکہ اکثریت کی رائے ہے، وہ سمجھتے ہیں اگر اکثریت انقلاب کی مخالفت کریں تو انقلاب ختم ہو جائے گا۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے، انقلاب آغازبھی قلیل عوامی گروہ سے ہوتا ہے، انقلاب کامیاب بھی عوامی اقلیت کی فعالیت سے ہوتا ہے اور انقلاب محفوظ بھی اسی اقلیت کی فعالیت کی وجہ سے رہتا ہے۔ جس دن سے یہ فعال اقلیت میدان سے ہٹ جائے گی، انقلاب ختم ہو جائے گا۔ اس قلیل گروہ کی فعالیت اتنی زیادہ اور ہمہ جہت ہوتی ہے کہ دیکھنے والوں کو لگتا ہے جیسے پورا معاشرہ انقلابی بن گیا ہے اور پوری ملت انقلابی ہے۔

انقلاب اسلامی کی تاریخ میں بھی یہی قانون نظر آتا ہے، علما، طالب علم، خواتین، سرمایہ دار غرض یہ کہ ہر عوامی طبقے کے لوگ انقلابی تحریک کا حصہ بنے اور انہی کی بھرپور فعالیت سے انقلاب کامیاب ہوا لیکن انہی طبقات کے بہت سے لوگ انقلابی نہیں تھے اور آج بھی یہ منظر جاری ہے۔ انقلاب فرانس اور انقلاب چین کے اندر بھی اکثریت انقلاب کے حامی نہیں تھے لیکن قلیل عوامی گروہ کی فعالیت کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ عوامی نمایئندے کبھی بھی انقلابی حرکت شروع نہیں کرتے بلکہ عوام خود معاشرے کی نچلی ترین سطوح سے انقلابی تحریک کا آغاز کرتے ہیں۔ جو قومیں اپنی قسمت بدلنے کے لیے حکومتی طبقات سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہوتی ہیں وہ کبھی بھی ترقی کا دن نہیں دیکھ پاتیں اور ساری زندگی مطالبات ہی پیش کرتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).