اٹلانٹس میں تحفظ عیسائیت کے قانون کا نفاذ کیوں؟



’ہیلو وزیراعظم صاحب‘

’ہیلو ڈونلڈ کیسے آنا ہوا، مجھے محسوس ہورہا تھا کہ کوئی بہت ضروری بات ہے۔‘ وزیراعظم کے چوڑے ماتھے کا ہر بل تشویش تشویش پکار رہا تھا۔

موٹے خدوخال کے حامل ڈونلڈ اینڈرسن نے ذرا آگے ہو کر آہستہ سے کہا۔ ’آپ کو تو پتا ہے کہ حالات کتنے خراب ہیں اور وقت کے ساتھ اور خراب تر ہو رہے ہیں۔ چار ستمبر سے ہمارے خلاف تحریک شروع ہو جائے گی۔‘

وزیراعظم نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’ہاں، تو تم کیا لے کر آئے ہو میرے پاس، کوئی حل یا صرف بری خبر؟‘

’جناب، ایجنسی کی رپورٹ ہے جو آج صبح ہی کو آئی ہے۔ اس کے مطابق بڑے پیمانے پر ہمارے خلاف مہم شروع ہونے والی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عوام میں سخت بے چینی ہے، مزدوروں کی انجمنیں اتحاد کر رہی ہیں، مزارعے بھی ان کے ساتھ مل گئے ہیں، اگر طلباء کو بھی انہوں نے گھسیٹ لیا تو ہماری حکومت کا بچنا ناممکن ہو جائے گا۔‘

وزیراعظم نے کچھ کہنے کے بجائے دیوار کوگھورنا شروع کر دیا۔

’گستاخی معاف، آپ کی جماعت نے روزگار، تعلیم، رہائش کے وعدے کیے تھے لیکن چار سال گزرنے کے بعد عوام کو کچھ بھی نہ ملا۔‘

’ڈونلڈ تمہیں پتا ہے کہ یہ چیزیں آناً فاناً تو نہیں ہو جاتیں۔ ان ضروریات کو مہیا کرنے کے لئے بہت وقت اور وسائل چاہئیں۔‘

ڈونلڈ آنکھیں جھکا کر بولا۔ ’لیکن وعدے پورے کرنے کے لئے ایک دو سال کی میعاد قوم کو بتائی گئی تھی۔ اور اس کے علاوہ آپ کے وزیروں نے ابھی تک کوئی حتمی منصوبہ عوام کو پیش نہیں کیا ورنہ عوام کو تسلی ہو جاتی کہ وعدوں کو نبھانے کے لئے کام شروع ہو گیا ہے اور میڈیا پر ان پروجیکٹس کے بارے میں وزیر اور مشیر دن رات ڈھنڈھورا پیٹتے رہتے۔‘

وزیراعظم نے ماتھے سے پسینہ پہنچتے ہوئے پوچھا۔ ’تو کیا اب میں عوام کو صاف صاف بتا دوں کہ ان ضروریات کو پورا کرنے میں کتنے سال لگیں گے!‘

ڈونلڈ نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور ذرا تحکمانہ انداز سے کہا۔ ’اس دفعہ وہ آپ کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے۔‘

وزیراعظم نے ایک ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’کیا ہماری حکومت کے ٹوٹنے سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟‘

’صاحب جی عوام تو جاہل ہوتے ہیں جدھر مرضی ان کو دھکیل دو۔‘ ڈونلڈ کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔

’تمہاری اس خوبی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جب تم کوئی مسئلہ لے کر آتے ہو تو اس کا حل بھی ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اب بتاؤ کہ کیا مطلب ہے تمہارا عوام کو دھکیلنے سے؟‘

ڈونلڈ کے چہرے پر اب مسکراہٹ کے ساتھ ایک چمک بھی تھی۔ ’جی آپ سوچیں کہ ہم سے پہلے کسی اور نے ان کو دھوکا دیا۔ ہم نے ان سے جھوٹے سچے وعدے کیے تو وہ ہمارے پیچھے ہو لئے۔ اب مزدور رہنما ان کو انقلاب کا خواب دکھا رہے ہیں تو وہ ان کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہیں۔ تو ہم بھی دوبارہ ان کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔‘

وزیراعظم نے آنکھیں چندھیائیں۔ ’ہم پھر ان کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں! یہ کیسے ممکن ہے؟‘
’جی ہاں بالکل ممکن ہے مذہب کا کارڈ استعمال کر کے۔‘

وزیراعظم کے چہرے پر تیوریاں نمودار ہوئیں۔ ’تمہارا کیا مطلب؟ میں بالکل نہیں چاہتا کہ مذہب کے نام پر کوئی خونزیری ہو۔‘

’صرف ایک آدھ ہلکا پھلکا واقعہ ہی کافی ہے باقی تو صرف زبانی جمع خرچ ہوگا۔‘
وزیراعظم نے اپنا پہلو بدلا۔ ’اچھا بتاؤ اپنا منصوبہ۔‘

ڈونلڈ آگے ہو کر رازداری سے بولا۔ ’میں نے چرچ کے کچھ لوگوں سے بات کی تھی۔ چرچ والے شور مچائیں گے کہ تحفظ عیسائیت کے لئے قانون بنایا جائے۔ ہم پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کریں گے اس قانون کو بنانے کے لئے۔ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہ قرار دینے پر پابندی ہو گی اس کے علاوہ اس بل میں کئی چھوٹی موٹی چیزیں ڈال دیں گے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام کے نام کے ساتھ خدا کا بیٹا لکھنا لازم ہو گا۔ ایک آدھ مسلمانوں اور یہودیوں کی کتابوں کی دکانوں پر حملہ کروادیں گے کیونکہ ان دکانوں میں ایسی سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں جن میں حضرت عیسی علیہ سلام کا ذکر ہوتا ہے، چرچ والے سب ہماری حمایت میں باہر آحائیں گے اور ان کے پیچھے پیچھے لوگوں کا جم غفیر ہو گا۔‘

’لیکن میں نہیں چاہتا کہ ہم ایسا کام کریں۔‘

ڈونلڈپھر مسکرایا۔ ’یہ ہم تھوڑا کریں گے۔ یہ کام تو چرچ کے جیالے کریں گے۔ ہم باقی دکانوں اور کتب خانوں پر پہرے لگوا کر نظم و ضبط برقرار رکھنے کے دعوے کریں گے۔‘

وزیراعظم کچھ دیر کے لئے خاموش رہا پھر حسب معمول تفکر کے ساتھ بولا۔ ’میڈیا میں تو کچھ لوگ ہیں جو اس بل کی مخالفت کریں گے۔‘

ڈونلڈ مسکرایا۔ ’یہ کون سی مشکل بات ہے جو بکتا ہے اس کو خرید لیں گے اور جو ڈھیٹ ہے اور بکتا ہے اس کو اٹھوا دیں گے۔‘

وزیراعظم نے ڈونلڈ کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ ’لیکن یہ بل پارلیمنٹ میں کیسے پاس ہوگا ہماری جماعت کی تو وہاں اکثریت نہیں ہے۔‘

’فورڈ صاحب ہم بل کو ایسے پیش کریں گے جیسے عیسائیت خطرے میں ہے۔ کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ اس بل کے خلاف بول سکے۔ زیادہ سے ز یادہ دوچار ارکان اس کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے لیکن کوئی عیسائی رکن اس کی مخالفت میں ووٹ نہیں دے سکتا۔‘

’منصوبہ تو اچھا ہے لیکن اس سے ہم کتنے دن کھینچ سکتے ہیں۔‘

’جی اس پلان میں میں جتنا مرضی گڑ ڈالتے رہیں۔ پہلے چرچ والے عوام کو جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے پیچھے لگا لیں گے۔ پھر پارلیمنٹ سے بل منظور ہو گا۔ جب یہ شور شرابا ختم ہو گا تو پولیس چھاپے مارنا شروع کردے گی تا کہ وہ تمام کتابیں ضبط کر لی جائیں جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے نام کا ساتھ خدا کا بیٹا نہیں لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد اسکولوں کا نصاب بدلا جائے گا۔ ہر قدم پر میڈیا بڑھ چڑھ کر حکومت کی تعریفیں کرتا رہے گا۔ اس جوش و خروش کے دوران ہم قبل از وقت انتخابات کروا کے جیت جائیں گے۔‘

’تم واقعی بہت ذہین ہو میری توقع سے بھی کہیں زیادہ لیکن کبھی نہ کبھی تو عوام پھر روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘

’جناب والی، کوئی مشکل نہیں، میرے تھیلے میں اور بہت سی چالیں ہیں۔ جب یہ تحفظ عیسا ئیت کا شور ختم ہو جائے گا تو اگر ضرورت پڑی تو دوسرے مذہب والوں کے خلاف ایک آدھ دنگا فساد کروا دیں گے اور پھر انہی پر الزام لگوا کر عوام کے جذبات کو بھڑکا دیں گے اور وہ پھر ہمارے ساتھ ہو جائیں گے۔ جناب آپ پندرہ بیس سال حکومت کرنے کی تیاری کریں۔ عوام کو سنبھالنا ہمارا کام ہے۔‘

’آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں عوام جاگ اٹھیں گے کچھ نا کچھ تو ان کے لئے کرنا ہی پڑے گا۔‘ وزیراعظم کا ماتھا پھر تیوریوں سے سج گیا۔

لیکن ڈونلڈ کے چہرے پر ایک فاتح کی سی مسکراہٹ تھی۔ ’سر جی میں کب کہتا ہوں کہ آپ ان کے لئے کچھ نا کریں۔ میں تو بس یہی بتا رہا ہوں کہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ اگر کچھ نہی تو کسی پڑوسی ملک کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کر دیں گے، قوم کو دشمن کا خوف دلا کراپنے ساتھ کر لیں گے اور عوام تو دشمن کو نیچا کرنے کے لئے سر کٹانے کے لئے تیار پھریں گے، اس طرح کی بہت ترکیبیں ہیں میرے پاس۔ آپ کی حکومت کو بچانا میرا فرض ہے۔‘

’آج کتنے دنوں کے بعد سکون کا سانس لیا ہے۔ ہو جائے اس بات پر ہائی ٹی۔‘
’ہائی ٹی نہیں فورڈ صاحب، سات کورس کا ڈنر ہونا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).