نانی اماں کی مونجھ اور ترنڈہ محمد پناہ کی یادیں


موضع سدو والی (ترنڈہ محمد پناہ) میں واقع ہماری نانی اماں کا گھر موسم گرما میں خنک چھاؤں اور جاڑے کی رت میں گلابی دھوپ کا سا تھا۔ بالپن میں یہ خیال تھا کہ دنیا کے سارے آسودہ اور شانت گھر شاید نانی اماں کے گھر جیسے ہی ہوتے ہیں۔ گارے مٹی کے بنے دو کچے کمرے، کچا اور کشادہ آنگن، آنگن کے وسط میں نیم کا ایک سر سبز درخت ایستادہ تھا۔ بائیں کونے میں پانی کا نلکا لگا ہوا تھا جس پہ سہانجنے کے چھوٹے سے شجر نے سایہ کر رکھا تھا۔ نلکے کا پانی بہت ٹھنڈا و شیریں ہوتا تھا۔ دائیں کونے میں گاؤں کا روایتی چولھا لگا تھا اور ساتھ ہی مٹی کا تنور نصب تھا۔ کمرے، صحن، چار دیواری سب بھوسے ملی مٹی سے لیپ کیے ہوتے تھے۔ بہت صاف ستھرا، اجلا اور دھلا ہوا گھر دکھائی پڑتا تھا۔

اوچ شریف سے گاہے گاہے ہمارا امی کے ساتھ نانی کے گھر جانا لگا رہتا تھا لیکن عموماً سکول میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم نانی اماں کے گھر پدھارتے تو اپنے ہم عمر ملیروں، مساتوں کے ساتھ خوب اودھم مچاتے۔ سارا دن ہم مٹی کے گھروندے بناتے، بنٹے کھیلتے، مٹی کے ٹوٹے گھڑوں کے ٹکڑوں کو گائے، بھینس، بکری بنا کے ان کو پتوں کا چارہ ڈالتے۔

نانی اماں کے گھر کے سامنے تا حد نظر کھیت ہی کھیت تھے اور تھوڑی فاصلے پر ایک نہر بھی بہتی تھی۔ کھیتوں کے درمیان سرکاری طور پر بجلی سے چلنے والا ایک ٹیوب ویل نصب تھا اور ایک کوارٹر جہاں نگران رہتا تھا۔ گھر والوں کو دق کرنے کے علاوہ ہمارا باقی ماندہ سمے ٹیوب ویل پر نہاتے اور کچے ”واٹروں“ (کھالہ جات) سے باریک کپڑے کی مدد سے ننھی منی سی مچھلیاں پکڑتے گزرتا۔ کبھی جو پیسے کی ہوس دماغ پر طاری ہوتی تو ہم سیدھا ”موری“ پر جا نکلتے جہاں نانا ابا چوپال سجائے اپنے ہم عصروں کے ساتھ حقہ گڑگڑا رہے ہوتے یا ریڈیو سن رہے ہوتے۔ ان سے ملنے والا پچاس پیسے کا سکہ ہمارے لئے قارون کے خزانے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا۔

ہمارے دور طالب علمی کا قصہ ہے۔ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اوچ شریف میں پانچویں کلاس میں تھے۔ استاد صاحب کی مار کٹائی اور ریاضی کے سوالات سے تنگ آ کر ہم نے سکول جانا موقوف کر دیا۔ گھر سے سکول جانے کے لئے نکلتے لیکن اپنے محلے ہی کی ایک ویران مسجد میں چھپ کر ٹارزن اور عمروعیار کی کہانیوں سے وقت پاس کرتے اور جب چھٹی کا وقت ہوتا تو بستہ تھام گھر چلے جاتے۔ ایک دن محلے کے ایک لڑکے نے ہمیں وہاں دیکھ لیا اور جا کر ابو سے شکایت کر دی۔ ابو کی دشنام طرازی اور امی کی پٹائی  سے بچنے کے لئے ہم سے اور تو کچھ بن نہیں پایا چنانچہ مسجد سے نکل کر سیدھا ترنڈہ جانے والی لاری پر بیٹھ گئے کہ ہماری آخری پناہ گاہ نانی اماں کا گھر ہی بن سکتا تھا۔

اس وقت عباسیہ روڈ پر ہائی سکول کے بالمقابل لوکل بسوں کا اڈا تھا اور ترنڈہ جانے والی بیڈ فورڈ لاریاں بھی اسی جگہ سے جایا کرتی تھیں۔ اپنا بستہ سنبھالے جب ہم لاری پر سوار ہوئے تو بس سواریوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ ہم آخر میں سات والی سیٹ کے قریب بس کے تپتے فرش پر ہی بیٹھ گئے۔ کنڈیکٹر نے ہماری سکول کی مخصوص خاکی وردی اور بستہ دیکھ کر ہم سے کوئی تعرض نہ کیا۔ رینگتے رکتے آخر کار کھڑتل بس ترنڈہ پہنچ ہی گئی۔ وہ ہمارا اکیلے میں پہلا سفر تھا۔

ہمارے کھیسے میں تو پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی لہذا ترنڈہ بائی پاس سے موضع سدو والی جانے کے لئے تانگے کا دو روپیہ کرایہ کہاں سے لاتے، سو نانی اماں کے گھر تک کا تقریباً دس کلو میٹر کا فاصلہ ہم نے پیدل ہی طے کیا۔ دور سے نانی اماں کے گھر کو دیکھ کر تو ایسی خوشی ہوئی جو صحرا میں نخلستان کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ نانی اماں گھر کے باہر کھیتوں میں جانوروں کے لئے چارہ کاٹ رہی تھیں۔ ہم والہانہ پن سے ”نانی۔۔۔ ۔ ۔“ کہتے ہوئے ان سے جا کر لپٹ گئے۔ نانی اماں جب ہماری بلائیں لیتے تھک گئی تو اچانک ایک خیال کے تحت پوچھ لیا کہ کس کے ساتھ آئے ہو، جب ہم نے کہا کہ سکول سے بھاگ کر آیا ہوں اور کسی کو بتا کر بھی نہیں آیا تو انہوں نے اسی وقت کھیت میں پڑی ایک سوٹی اٹھا کر ہماری طبیعت صاف کرنا شروع کر دی۔

سوٹی کے زور پر ہی ہمیں گھر میں ہانکتے ہوئے لے جا کر انہوں نے پہلے ہماری روداد درد سنی۔ پھر ابو اور امی کی پریشانی کا سوچ کر ”ہائے ہائے“ کرتے ہوئے انہوں پیار سے ہمیں سمجھایا۔ پھر مٹکے سے لسی گلاس میں انڈیل کر اور سندھڑے سے تنور کی روٹی چھابی میں رکھ کر ہمیں کھانے کو دی۔ اور اپنے بوچھن کے پلو سے پانچ روپلی کا مڑا تڑا بوسیدہ نوٹ ہمارے کیسے میں ڈال کر ہمیں سختی اور پیار کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سیدھا گھر جانے اور امی ابو سے معافی مانگنے کو کہا۔ تانگے پر بٹھانے کے لئے وہ خود ترنڈہ شہر جانے والی سڑک تک ہمارے ساتھ آئی تھیں۔ واپس جاتے ہوئے اپنی تر آنکھوں اور اداس دل کے ساتھ ہم نے نانی اماں کے گھر اور در و دیوار کو اپنی روح میں جذب کر لیا تھا۔

گھر واپسی پر امی نے ہمارا جیسا ”استقبال“ کیا، اس کی روداد ہم کسی اور وقت کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں، البتہ غصہ سمجھیں یا کوئی اور جذبہ، اس دن ہم نے پھر کبھی نانی اماں کے گھر نہ جانے کی ٹھانی لی۔ زیست کی شاہراہ پر عمر رواں کا گھوڑا بگٹٹ دوڑتا رہا۔ کچھ بچپن کی ضد اور کچھ مصروفیات کے جھمیلے، دو دہائیوں سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہم نانی کے گھر سے گریزاں رہے۔ اس عرصہ میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی شادیوں پر وہ متعدد مرتبہ ہمارے ہاں آئیں، امی اور دیگر اہل خانہ بھی اکثر ہو آتے لیکن ہم اپنی ضد پر قائم رہے۔ اس دوران ان کے زبانی پیغامات بھی آتے رہے کہ نومی کو کہو آ کر مل جائے، اس کی مونجھ آتی ہے۔ ان دو دہائیوں میں بہت سے چاند چہرے بھی تہہ خاک چلے گئے۔ جب نانا ابو کی وفات ہوئی تو نانی کو بھی کہولت نے آ لیا۔

نانا ابو کا ذکر آیا ہے تو آنکھوں میں نمی کی فصل سی اگ آئی ہے۔ اپنے زمانے میں پہلوانی کرنے والے نانا کو شاید ان کے نوجوان بیٹے کی بے وقت موت نے جلدی بوڑھا کر دیا تھا۔ ماموں راولپنڈی میں مزدوری وغیرہ کے سلسلے میں مقیم تھے، جہاں وہ کسی نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے تھے۔

نانا ابو ہماری زندگی کا ایک خوبصورت اور انمول کردار تھے۔ ان کی ذات سادگی و اوریجنلیٹی کا حسین سنگم تھی اور شفقت و محبت کا سندر نمونہ۔ ان کی کہانیاں ہمیں بے حد پسند تھیں۔ جن، بھوت، دیو، پریوں اور مافوق الفطرت مخلوق کی کہانیاں، سن سنتالیس کے بٹوارے کی کہانیاں، نانی کے گاؤں میں بستے ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج، شادی بیاہ کی ریت، مرگ پہ میت کو جلانے اور بٹوارے کے وقت انسانی بے بسی کی کہانیاں۔ بستے گھر اجڑنے کی کہانیاں۔ زمیندار، نمبردار اور تاجر ہندوؤں کے خالی ہاتھ گھروں سے نکلنے کی سچی کہانیاں۔ ہم افسردہ سے ہو جاتے اور سوچتے کہ وہ خوشحال زمیندار جب اپنی حویلیاں، زمینیں، مال ڈنگر، کاروبار، گاؤں، دوست یار چھوڑ کر گئے ہوں گے تو ان کی آنکھوں میں کتنی بے بسی ہو گی۔

ایک دن جانے کا پروگرام بن گیا تھا، وہاں تعینات ہمارے ایک دوست متعدد بار اپنے ہاں آنے کی دعوت دے چکے تھے، سو منہ اندھیرے ہم مظفر گڑھ کی اور روانہ ہو گئے، وہاں سے ہو کر دوپہر کو اپنے گاؤں موضع سرکی۔ رات اپنے گاؤں میں بسر کر کے اگلے دن دوپہر کو ہمارا پروگرام دریائی راستے سے کشتی کے ذریعے (براستہ سرکی پتن تا ٹھل حمزہ) نانی اماں کے گھر جانے کا بن گیا۔

دو دہائیوں بعد جب ہم سرشام نانی اماں کے گاؤں جانے والی پگڈنڈی کی اور مڑے تو ڈھور ڈنگر اپنے ٹھکانوں اور پرندے اپنے آشیانوں کی طرف رواں دواں تھے۔ آفتاب پچھم میں ڈوب رہا تھا۔۔۔ گاؤں کے وسط سے گزرنے والی نہر جوبن پر تھی۔۔۔ گھروں سے اٹھنے والے دھویں کی مہک حبس زدہ ماحول کو معطر کیے جا رہی تھی۔۔۔ ساون کا مژدہ جانفزا سنانے والی خوشگوار باس۔۔۔ وہی بوڑھی پگڈنڈی۔۔۔ جو ہماری ہم عمر ہو چلی تھی۔۔۔ اداس۔۔۔ ویران۔۔۔ چپ چاپ۔۔۔ شاید یہ ہمارے تھکے ہارے قدموں کی آہٹ پہچان لیتی ہو۔۔۔ اور یادیں۔۔۔ شاید یادیں نانی اماں کے گھر کے متروک دروازے کے بوسیدہ کواڑوں میں اٹکی تھیں۔۔۔ اور نانی اماں کا گھر۔۔۔ جس کی دیواریں بوجھل یادوں کی طرح وقت کے جھنڈ میں جھینگروں کی طرح بول رہی تھیں۔۔۔ ان کے بوسیدہ کمرے کے باہر طاق میں رکھی لالٹین کہولت کے پلو سے روشنی چن رہی تھی۔ کچا صحن۔۔۔ جہاں ہمارا بچپن اٹکھیلیاں کرتے اور بکائن کی مہربان چھاوں میں حقہ پیتے نانا ابو کو دق کرتے کرتے یہیں کہیں کھو گیا تھا۔۔۔

نانی اماں صحن میں چارپائی پر بیٹھ تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ مامی ایک کونے میں تنور پر روٹیاں لگا رہی تھیں۔ نانی کے سامنے جا کر ہم نے انہیں ادب سے سلام کیا تو وہ چونک سی گئیں، ان کی بوڑھی آنکھوں میں شناسائی کی چمک مفقود تھی۔ ابھی ہم کچھ کہنے ہی والے تھے کہ لگی زور زور سے چھوٹے ماموں کو پکارنے کہ دیکھو گھر میں کون اجنبی جوان گھس آیا ہے۔ اسی اثناء میں انہوں نے اپنی چارپائی کے ساتھ رکھی لاٹھی بھی اٹھا لی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی اقدام کرتیں، ہم ”نانی میں نومی ہاں“ کہہ کر ان سے لپٹ گئے۔ ہمارے یہ کہنے کی دیر تھی کہ انہوں نے لاٹھی پھینک کر ہمیں اپنی باہوں میں لے لیا اور لگی چومنے۔۔۔ پتہ نہیں اس وقت ان کے نحیف و نزار وجود میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئی تھی۔ ان کی آواز سن کر گھر کے دیگر اہل خانہ بھی آ چکے تھے۔ نانی اماں کی گود میں سر رکھ کر کئی عرصے کی پیاسی روح کو قرار سا آ گیا تھا۔ مونجھیں ختم ہو چکی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).