کراچی کے برساتی نالے کا بھیانک انتقام


یہ 1962 کی بات ہے جب پاکستان کے پہلے فوجی آمر نے اپنا تیار کردہ آ ئین پاکستان کے عوام پر مسلط کیا تھا۔ ہم اس وقت کے فیڈرل کیپٹل ایریا میں رہتے تھے، جسے اب عرف عام میں ایف سی ایریا بھی کہا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی یہ کالونی اس زمانے میں کراچی کے شمال کی جانب آخری بستی تھی اور ہم اس بستی کے بالکل آخری سرے پر رہا کرتے تھے۔

ہمارے گھر کے شمال اور مشرق میں میلوں پھیلے ہوئے کھلے میدان تھے جن میں رنگ برنگی تتلیاں اڑا کرتی تھیں۔ مغرب میں ناظم آباد اور شمال مغرب میں نارتھ ناظم آباد کا پہاڑی سلسلہ صاف نظر آتا تھا۔ یہ علاقہ اب کئی تلخ و شیریں یادوں کے حوالوں سے کٹی پہاڑی اور بنارس کالونی کے نام سے مشہور ہے اس زمانے میں بالکل غیر آباد تھا۔

ایک شام والدہ نے اعلان کیا کہ کل صبح تمہیں اور تمھارے چھوٹے بھائی کو اسکول میں داخل کرانے لے جایا جائے گا۔ میری عمر اس وقت پانچ سال کے لگ بھگ تھی۔ دوسرے دن کی چمکتی صبح، والدہ میرا اور میرے چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھامے، اسکول کی جانب پیدل روانہ ہو گئیں۔ دو ڈھائی کلو میٹر پکی سڑک پر چلتے چلتے، امی دائیں ہاتھ پر میدان کی طرف مڑ گئیں۔ چند سو گز چلنے کے بعد ایک وسیع و عریض نالہ دکھائی دیا۔ نالے کا پاٹ تو 200 فٹ چوڑا تھا لیکن اس کی تہہ میں درمیان سے کوئی 30 فٹ چوڑے حصے میں صاف شفاف پانی بہہ رہا تھا۔ یہ گجر نالے سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔

ہم لوگ نالہ عبور کر کے ناظم آباد کے علاقے میں داخل ہو گئے جہاں وہ اسکول تھا جس میں ہم اگلے پانچ سال پڑھتے رہے۔ اس طرح گجر نالہ ہماری زندگی کا مستقل حصہ بن گیا۔ ہم روزانہ اسکول آتے جاتے دو بار گجر نالے کو عبور کرتے۔

نالے کے درمیان سے جو پانی بہتا تھا اس پر بڑے بڑے پتھررکھے تھے، ہم ان پتھروں پر پاؤں رکھ کر نالہ کے پار آیا جایا کرتے تھے۔ نالہ کا پانی اس قدر صاف تھا کہ اس میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیرتی نظر آیا کرتی تھیں۔ کچھ فاصلے پر دھوبی نالے کے پانی سے کپڑے دھونے میں مصروف رہتے تھے۔

بہرحال بہت جلد ہم نے محلے کے چند دوستوں کے ساتھ اپنے گھر اور گجر نالہ کے درمیان کا میدانی علاقہ بھی دریافت کر لیا۔ اکثر ہم لوگ گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے گجر نالے کے تک پہنچ جایا کرتے تھے

سردیوں کا زمانہ تھا اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ ایک روپہلی صبح، ہم دوستوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے کھیلتے گجر نالے کے کنارے جا نکلے۔ ہم نے وہاں ایک حیران کن منظر دیکھا۔ کوئی چالیس پچاس کے قریب مرد عورتیں اور بچے وہاں جمع تھے اور مختلف کاموں مصروف تھے۔ کچھ لوگ کپڑے اور ٹاٹ کی جھونپڑیاں بنا رہے تھے۔ ایک آدمی بڑے سے سیاہ ریچھ کی زنجیر تھامے کھڑا تھا۔ ایک اور آدمی کے کاندھوں پر دو بندر سوار تھے چار آدمی مل کر دس سے بارہ فٹ لمبے اژدھے کو ایک بہت بڑے بورے میں بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کچھ عورتیں مٹی کے چولہے بنا رہی تھیں، ایک لڑکی بکریوں کو گھاس کھلا رہی تھی۔ ہم سب یہ عجیب وغریب منظر دیکھ کر حیران تھے کہ ان میں سے ایک آدمی کی ہم سب پر نظر پڑی۔ اس نے ہماری طرف دیکھ کر اونچی آواز میں کہا۔ بچوں تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو۔ اسی لمحے ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور گھر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔

گھر پہنچ کر والدہ کو سارا واقعہ سنایا۔ انہوں نے بتایا یہ لوگ خانہ بدوش ہیں، جانوروں کے تماشے اور کرتب دکھا کر پیسے کماتے ہیں اور بھیک بھی مانگتے ہیں۔ انہوں نے نالے کے کنارے اس لئے پڑاؤ ڈالا ہے کہ ان کو پانی ملتا رہے جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ امی نے ڈرایا کہ تم لوگ اب اس طرف نہیں جانا یہ بچوں کو پکڑ کر بھی لے جاتے ہیں۔

برسات کا موسم آ گیا اور خانہ بدوش اپنا ٹھکانہ چھوڑ کر کہیں اور کوچ کر گئے۔ ایک دن صبح سے بارش کی چھما چھم شروع ہوگئی۔ سارا دن بادل گرجتے اور بجلی کڑ کتی اور بارش برستی رہی۔ رات ہوتے ہی گھر کے اطراف سے مینڈکوں کے ٹرانے اور ذرا دور سے بہت تیز پانی کے بہنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ پاپا نے کہا لگتا ہے نالے میں پانی چڑھ آیا ہے۔ صبح اتوار ہے ہم سب نالے کے کنارے پر چلیں گے۔

اگلی صبح محلے کی پانچ چھ خاندان، جن میں مرد، عورتیں بچے سب شامل تھے گجر نالے کے کنارے کی سمت چل دیے۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے، بہتے پانی کے شور کی آواز بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ کنارے پر پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ آدھے سے زیادہ نالہ پانی سے بھرا ہوا ہے، جھاگ اڑاتا اورشور مچاتا پانی تیزی سے بہتا جا رہا ہے۔ کئی جگہ نالے سے متصل میدانوں میں جمع پانی بھی نالے کے اندر گر رہا تھا اور مختلف مقامات پر اس پانی نے آبشار کی شکل اختیار کر لی تھی۔ یہ بڑا ہی خوش کن منظر تھا۔ اچانک میری نظر زمین پر پڑی ایسا لگا کہ کسی نے زمین پر سرخ مخمل کے ننھے ننھے ٹکڑے رکھ دیے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے ہیں۔ پاپا نے بتایا یہ بیر بہوٹیاں ہیں۔ انہوں نے دو چھوٹی چھوٹی بوتلیں ہم دونوں بھائیوں کو دیں اور کہا تم ان کو پکڑ کر بوتل میں رکھ سکتے ہو۔

جب ہم نے ان کو پکڑا تو علم ہوا کہ ان کی چمکدار سرخ جلد بالکل مخمل کی طرح ہے۔ پاپا نے بتایا یہ زمین کے اندر رہتی ہیں اور صرف بارش کے موسم میں سطح زمین پر سینکڑوں کی تعداد میں نکل آتی ہیں۔ جب ہم ان کو پکڑ تے تھے تو یہ ٹانگیں سکیڑ کر سمٹ جایا کرتی تھیں۔

حکومت نے 1963 میں نئی نیم فوجی تنظیم ”مجاہد فورس“ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ 1963 میں ہی گجر نالے کے کنارے پہلی ناجائز کچی آبادی ”مجاہد کالونی“ کے نام سے نمودار ہوئی، گویا مجاہدین نے گجر نالے پر حملہ کر دیا۔

پر امن، معصوم اور نہتا گجر نالہ اس خوفناک حملے کا مقابلہ کیا خاک کرتا۔ نالے کے درمیان، تہہ میں موجود تیس فٹ چوڑا، بہتا، صاف پانی تو یہ حملہ سہہ گیا اور ویسے ہی بہتا رہا۔ البتہ جس کنارے پر مجاہد کالونی آباد ہوئی اس طرف نالے کی تہہ میں دو فٹ چوڑی سیاہ بدبو دار پانی کی ایک اور لکیر بہنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے گجر نالے نے بطور احتجاج اپنے بازو پر ایک سیاہ پٹی باندھ لی ہے۔ آہستہ آہستہ مجاہد کالونی کے کچے پکے مکانات کی پیش قدمی بڑھتی رہی، حسین گجر نالہ کا دم گھٹ رہا تھا اور وہ سکڑنے لگا۔

ماہ و سال گزرتے گئے، سیاہ بد بو دار پانی بڑھتا اور صاف پانی گھٹتا گیا۔ 1968 کی ایک صبح بہت تیز طوفانی بارش شروع ہوئی جو متواتر تین دن تک جاری رہی، تیسرے دن صبح سویرے ہمارے گھر کے ارد گرد وسیع میدانو ں سے انسانی شور کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے گھر سے باہر نکل کر دیکھا کہ سینکڑوں انسان ادھر سے ادھر بھاگتے پھر رہے ہیں اور بانسوں اور چٹایوں سے جھو پڑ یاں بنانے میں مصروف ہیں

‌ یہ ان بنگالی گھرانوں کے افراد تھے جو کراچی میں تین ہٹی کے پل کے نیچے جھگیاں ڈال زندگی کا عذاب جھیلا کرتے تھے۔ ندی میں بارش کی وجہ سے طغیانی آ گئی، ساری جھگیاں بہہ گئیں اور وہاں آباد تمام خاندانوں کا سامان بھی پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ جنرل موسیٰ اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ انہوں نے اس خبر کا نوٹس لیا اور کراچی کی مقامی انتظامیہ کی مدد سے بنگالیوں کو تین ہٹی کے پل سے نکال کر اس علاقے کے میدانوں میں آباد کرنا شروع کر دیا۔ وہ وسیع میدان، جہاں سرخ مخملی بیر بہو ٹیاں دوڑ تیں پھرتی تھیں۔ جھاں تتلیاں اڑا کرتی تھیں۔ جہاں سردیوں میں بوڑ ہے گدھ دھوپ سینکتے تھے وہ اب انسانوں اور جھوپڑیوں سے بھر گیا تھا۔

جنرل موسیٰ نے یہاں کا دورہ ایک فاتح جرنیل کی طرح کیا، ان کا ہیلی کاپٹر، گجر نالے کے کنارے واقع میدان میں اترا اور اس نئی آبادی کا نام جرنل صاھب کے نام گرامی پر موسیٰ کالونی رکھ دیا گیا۔ رفتہ رفتہ یہ کالونی دونوں جانب سے گجر نالے کے اندر تک پھیل گئی اور یہاں صاف پانی کا نام و نشان ہی مٹ گیا اور یہ شاندار گجر نالہ ایک پتلے سے گندے نالے کی شکل اختیار کر گیا۔ ستر کی دہائی کے آخری حصے میں گجر نالے پر ایک اور حملہ ہوا۔

لنڈی کوتل کے نام سے ایک خیمہ بستی گجر نالے کے اندر قائم کرلی گئی اور یہاں سمگل شدہ اشیا کا ایک بازار بھی قائم کر دیا گیا۔ اب یہ جگہ لنڈ ی کوتل چوک کہلاتی ہے اس چوک پہ ایک مینار ایستادہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام لکھے ہیں۔ اس جگہ بھی گجر نالے کے نام پرایک گندی نالی بہہ رہی ہے ساٹھ سال تک گجر نالے پر کسی نے رحم نہیں کیا۔ پھر وہ وقت بھی آ پہنچا جب اس کے ضبط کے سب بندھن ٹوٹ گئے پھر اس نے انتقام لیا اور حالیہ بارشوں میں شہر کو ڈبو دیا۔ اپنی زندگی بچانی ہے تو گجر نالے کو اس کی زندگی واپس کریں ورنہ ہر سال ڈوبتے اور اجڑتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).