دو کوڑی کی عورت


عورت جسے مالک دو جہاں نے بنی نوع انسان کی تخلیق کا ذریعہ بنایا، اسے ماں کے درجہ پر فائز کیا، پیارے نبیۖ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دی۔ ہم ناخلق بندوں نے عورت کی عزت دو کوڑی کی کردی اسے پیر کی جوتی سمجھ لیا، اس کی ہر جیت ہر کام کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اسے نیچا دکھانے کے لیے روندنا شروع کر دیا۔ اس ملک پاکستان میں عورت ہونا ایک گالی بن گیا ہے، چاہے جاہل عورت ہو یا پڑھی لکھی سب نشانے پر ہیں کب کہاں کس کی عزت لٹ جائے، کب کہاں کوئی رسوا ہو جائے پتہ نہیں کیونکہ لوٹنے والا نامعلوم اور لٹنے والی تماشا بن جاتی ہے، یوں اس عورت کی عزت دو کوڑی کی رہ جاتی ہے اور سوائے خودکشی کے کوئی راستہ نہیں بچتا۔

کسے محافظ بنائیں کسے مدد کو پکاریں، اس ملک کی عورت گھر میں گھر سے باہر، اپنوں غیروں ہر ایک کا نشانہ ہے جب جس کا وار چلتا ہے چاہے جوان ہو، بچی ہو، حد تو یہ ہے کہ مردہ ہو اس کی عزت پر ہاتھ صاف کرکے خود پاک صاف ہوجاتا ہے۔ حالیہ پے درپے واقعات نے تو عقل گم کردی ہے آنکھیں پتھرا چکیں ہیں، ذہن ماؤف ہے ہیں۔ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، یہ کون سا زمانہ ہے بے غیرتی، بے حیائی اور بے عزتی عام ہو چکی ہے۔ زیادتی کیسز اتنے بڑھ چکے ہیں کہ پانچ سالہ بچی کا ماتم ختم نہیں ہوتا کہ سر راہ تین بچوں کی ماں کی دہائی پیر پکڑ لیتی ہے، حد تو یہ ہے دو بچوں کی ماں کو گھر میں گھس کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہم کس مادر پدر آزاد معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں جس کا جو دل چاہے کرتا پھر رہا ہے۔

بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ زیادتی کی شکار خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہے بھی سچ کیونکہ وہ عورت ہے، عورت جو ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے لیکن ہماری قوم کے بے غیرت مردوں نے عورت کو لوٹ کا مال سمجھ لیا ہے۔ پچھلے وقتوں میں مال غنیمت میں آئی لونڈیوں کنیزوں کی بھی عزت ہوتی تھی لیکن یہاں تو ہر راہ چلتی عورت، لڑکی، بچی ان کی ہوس زدہ نظروں، جنسی اشاروں، شہوت سے بھری چٹکیوں سے محفوظ نہیں۔ جانے کون سی آگ بھر گئی ہے جو بجھ ہی نہیں رہی، عورت نہ ہوئی لالی پاپ ہوگئی۔

کیا یہ کسی عورت کے جنے نہیں یا ان کے گھر ماں بہن بیٹیاں نہیں۔ ہمارے پاکستان کی پولیس اتنی نادان ہے کچھ نہیں جانتی، نہیں جناب پولیس کو سب پتہ ہوتا ہے، واردات سے پہلے اور واردات کے بعد سب جانتی ہے لیکن سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں، اپنی اپنی ترجیحات ہیں، الٹا عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ زیادتی کیسز مین سزائیں دینے کا عمل سست ترین ہے، اکا دکا سزائیں دی بھی گئیں تو آٹے میں نمک۔ تواتر سے سزائیں دی جاتیں تو شاید یہ سیلاب بلا رکتا نہیں تو کم تو ضرور ہوجاتا۔

میری جناب چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ایکشن لیں اور زیادتی کا شکار عور کی گواہی پر ہی سزا دے دیں تاکہ ایک تکلیف دہ اور لمبے عمل کے بجائے فوراً انصاف ہو۔ بے چاری عورت سنسان جگہ پر اپنی بربادی کے دو گواہ کہاں سے لائے، پھر یہ ڈی این اے ٹیسٹ کیا یہ ممکن نہین کہ اس کے پراسس کو تیز کیا جائے، اس ٹیسٹ کی لیبارٹریز ایک سے زیادہ شہروں میں لگائی جائیں تاکہ جلد اور فوری رزلٹ ملیں۔ کیا وزیر سائنس چویدری صاحب بھنگ کی افادیت بتانے کے ساتھ ان ڈی این اے ٹیسٹ لیبارٹریز کو لگانے پر توجہ دیں۔

آخری درخواست وزیراعظم پاکستان سے ہے خدارا اب آپ اپنے منہ سے اس وقت تک ”ریاست مدینہ“ کے الفاظ نہ نکالیں جب تک اس ملک پاکستان کی عورتوں کی عزت جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری نہ لے لیں کیونکہ آپ اس وقت سربراہ مملکت خداداد پاکستان ہیں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے یہ راجہ داہر کی حکومت نہیں کہ کوئی محمد بن قاسم آئے گا۔ ورنہ بتادیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام عورتیں اجتماعی خود کشی کر لیں پھر یہ تمام مسائل جنم نہیں لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).