کربلا کے پوشیدہ اسباق اور غیرمسلم مفکرین


کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کربلا کی جنگ دو شہزادوں کی جنگ تھی۔ یہ اسلام یا اقدار کی نہیں بلکہ اقتدار کی جنگ تھی۔ چارلس ڈکن نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے لکھا :

”If Hussain had fought to quench his worldly desires then why his sister، wife and children accompanied him? it stands to reason therefore، that he sacrificed purely for Islam۔“

”اگر امام حسین محض اپنی خواہشات کے لیے لڑے تھے (جیساکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسلام کی نہیں بلکہ اقتدار کی لڑائی تھی ) تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی بیوی، اپنی بہن اور بچوں کو کیوں ساتھ لے کر گئے تھے؟ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ان کی یہ قربانی صرف اور صرف اسلام کی خاطر تھی“

دنیا کا یہ اصول رہا ہے کہ اکثریت کو حق بجانب سمجھتی رہی ہے۔ جدید جمہوریت کا بھی یہی اصول ہے کہ اقتدار اسی کے حوالے کیا جاتا ہے جسے اکثریت منتخب کرے۔ امام حسین نے کربلا میں اس انداز فکر کو بدل دیا اور ثابت کیا جیت کا معیار اکثریت نہیں بلکہ حق اور سچ ہے۔ انسان کو اکثریت اور طاقتورکا نہیں بلکہ حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ مشہورسکاٹش مؤرخ تھامس کارلائل نے کہا:

”The best lesson which we get from the tragedy of Cereballa is that Husain and his companions were rigid believers in God۔ They illustrated that the numerical superiority does not count when it comes to the truth۔“

”کربلا کے اندوہناک واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امام حسین اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ کے سچے پیروکار تھے جنہوں نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ عددی برتری کی اس وقت کوئی اہمیت نہیں رہتی جب اس کا سامنا سچ سے ہوتا ہے“

جب بھی کوئی جنگ ختم ہوتی ہے تو اپنے پیچھے تباہی کا ایک دردناک باب چھوڑ جاتی ہے لیکن امام حسین نے کربلا میں ایک ایسی داستان رقم کی کہ دنیا کے انہیں حکومت وقت کے مقابلے میں خروج کرنے والے کی بجائے ایک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت سے یاد رکھا جس نے تمام کے ہر طبقے سے داد اور ہمدردی بھی وصول کی اور ان کے لیے ایسے سبق بھی چھوڑے جو کسی بھی مشکل میں مشعل راہ ہیں۔ انتھونی بارا کہتا ہے :

”No battle in the modern and past history of mankind has earned more sympathy and admiration as well as provided more lessons than the martyrdom of Husayn in the battle of Karbala۔“

”سانحہ کربلا میں امام حسین کی شہادت نے انسانیت سے جس قدر ہمدردی اور (صبر، شجاعت اور استقامت کے باب میں ) توصیف حاصل کی اور انسانیت کے لیے سبق چھوڑے، دنیا کی قدیم اور جدید جنگوں کی تاریخ میں کوئی دوسری ایسی نظیر نہیں ملتی“

یزید اور امام حسین کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا میں دو طرح کے بادشاہ ہوتے ہیں، دلوں پر حکمرانی کرنے والے اور جسموں پر حکمرانی کرنے والے۔ تلوار اور طاقت کے زور پر جسموں کو جھکایا جا سکتا ہے لیکن دلوں پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ یزید چند دن فانی جسم پر حکومت کر کے مر گیا لیکن حسین آج بھی زندہے کیونکہ دلوں پر حکمرانی کرنے والے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر رادھا کرشنا مرقوم ہے کہ :

”Though Imam Hussain gave his life years ago، but his indestructible soul rules the hearts of people even today۔“

”اگرچہ امام حسین نے اپنی سالوں پہلے (اللہ تعالیٰ کو ) دی تھی لیکن ان کی لافانی روح آج بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہے“

اگرچہ تاریخ ایسے شواہد پیش کرنے سے قاصر ہے لیکن پھر بھی مستشرقین کی طرف سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر بھیلا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی مضبوط عمارت کی بنیادیں اعلیٰ اخلاق اور عظیم قربانیوں پر استوار ہیں۔ مہاتما گاندھی اس طرف اشارہ کرتے ہوئے رقمطرا ہے کہ :

”My faith is that the progress of Islam does not depend on the use of sword by its believers، but the result of the supreme sacrifice of Hussain۔“ ۔

”میرا ایمان ہے کہ اسلام کی شاندار ترقی اس کے پیروکاروں کی تلوار کی بدولت نہیں بلکہ امام حسین کی (طرح کی ) عظیم قربانی کی مرہون منت ہے“

دنیا کی ازل سے ہتھیاروں اور سپاہ پر بھروسا کرتی رہی ہے۔ آج بھی ہر ملک فوج اور اسلحے کی تعداد میں اضافے کا متمنی ہے اور اسی کو بقا کی ضمانت سمجھتا ہے لیکن امام حسین نے محض چند تلواروں اور نفوس سے یزیدیت کو فنا کر کے یہ پیغام دیا کہ بقا کا انحصار کسی اور چیز کا متقاضی ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا کہنا ہے :

”In order to keep alive justice and truth، instead of an army or weapons، success can be achieved by sacrificing lives، exactly what Imam Hussain did۔“

”انصاف اور سچ کو زندہ رکھنا ہو تو اس کے لیے فوج اور ہتھیاروں پر انحصار کرنے کی بجائے زندگی کی قربانی دینی پڑتی ہے اور یہی بات امام حسین نے دنیا کو بتائی“

جب بھی دو مذاہب یا اقوام میں لڑائی ہوتی ہے تو ایک کا ہیرو، دوسرے کا ولن اور دوسرے کا ہیرو پہلے کا ولن ہوتا ہے۔ دنیا میں کتنی ایسی شخصیات ہیں جنہیں مخالف بھی ہیرو مانتا ہو؟ اگر اس لحاظ سے تلاش کی جائے تو ایک امام حسین ہی ہیں جن کی قربانی کو ہر مکتبہ فکر اپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہے۔ شاید کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا ”ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین“ ۔ اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ امام حسین نے جن عظیم مقاصد کی خاطر قربانی دی تھی وہ ہر قوم کے لیے حرزجاں ہیں۔ ڈاکٹر پرشاد کہتا ہے :

”The sacrifice of Imam Hussain is not limited to one country، or nation، but it is the hereditary state of the brotherhood of all mankind۔“

”امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم یا ملک کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ تمام اسانیت کا مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).