ہم نے پنسلوانیا میں چاکلیٹ بنتے دیکھی


ایک ماہ پہلے فیملی پروگرام بنا کہ رواں موسم گرما کی چھٹیوں میں پنسلوانیا کے تفریحی مقامات کی سیر کی جائے۔ گزشتہ سال بھی اسی ریاست کی لنکاسٹر کاؤنٹی میں جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے الگ تھلگ رہ کر زندگی گزارنے والی کمیونٹی کے مرکز ”امیش ویلیج“ کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس کا مشاہدہ بڑا ہی معلومات آفزاء اور سنسنی خیزی سے بھرپور تھا۔

گزشتہ ہفتے ریاست پنسلوانیا کے دوسرے علاقوں پوکونوز، ہیرس برگ، سٹروڈس برگ، ہارمنی لیک اور ہرشی ٹاؤن میں قیام کا موقع میسر آیا۔ نیویارک سے براستہ نیو جرسی سیدھی تقریباً ایک سو میل کی ڈرائیونگ کرنے کے بعد پہلا پڑاؤ پوکو نوز کے پہاڑی سلسلے کا پہلا شہر سٹروڈس برگ تھا۔ جو پوکونوز کے اصل تفریحی مقام ”کیمل بیک“ سے دس میل کی دوری پر واقع ہے۔

ہم نے اس سال کروونا کی وجہ سے ہوٹلوں میں قیام کرنے کی بجائے وکیشنل رئنٹنگ آن لائن مارکیٹ پلیس یعنی کرائے پر گھر حاصل کرنے کی مشہور زمانہ آن لائن ”ایپ آئر بی این بی“ (Airbnb) سے استفادہ کیا گیا۔ اس ایپ کی مدد سے سٹروڈس برگ میں دو دن کے لیے گھنے اور سر سبز و شاداب درختوں میں گھرا رینچ نما تین بیڈروم کا گھر بہت ہی موزوں نرخوں پر مل گیا۔ جو عام حالات میں یقیناً ڈبل قیمت پر ملتا۔

امریکی ایپ ”آئر بی این بی“ نے جہاں ایک طرف امریکہ سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں وہیں دوسری جانب ہوٹل انڈسٹری کوخسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایپ بارہ سال پہلے 2008 ء میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں برائن چسکی سیمت تین افراد نے قائم کی تھی۔ آئر بی این کے مطابق اس وقت دنیا کے 220 ممالک کے ایک لاکھ شہروں میں اس کے پاس 70 لاکھ گھروں کی لسٹ دستیاب ہے۔ اور اوسطاً ایک رات میں کوئی بیس لاکھ کے قریب لوگ ان گھروں میں ٹھہرتے ہیں۔ اور اب تک دینا بھر میں سات سو پچاس ملین کے قریب افراد اس سہولت سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔

ٹور کے دوران ہوٹلوں سے اپنی مرضی کا کھانا ڈھونڈنے کا وقت بچانے کے لیے دو دن کا کھانا جس میں روسٹ مرغ، مٹن بریانی، کباب، ویجی ٹیبل اور فروٹ سلیڈ کے علاوہ بار بی کیو کا سامان ہمراہ لے کر گئے تھے۔

شام کے وقت سٹروڈس برگ میں گھر کے پچھلی جانب ڈیک پر باربی کیو کرتے ہوئے ہمیں نیچے درختوں کے بیچ ہرنوں کا ایک جوڑا خوراک کی تلاش میں سرگرداں نظر آیا۔ جھٹ سے فون لے کر اس کی تصویر اتار لی۔ اور ویڈیو بھی بنائی۔ ہرن اکثر رات کے وقت گھروں کے یارڈ میں گھومتے پھرتے نظر آ جاتے ہیں۔

اکثر گھروں میں آج کل ”الیکٹرانک کوڈنگ لاک سسٹم“ کی وجہ سے مالک مکان سے چابی لینے اور واپس کرنے کا جنجھٹ ہی ختم ہو چکا ہے۔ کرائے پر حاصل کیے گئے ہمارے گھر کا مالک دور کسی اور ریاست میں مقیم تھا۔ اس نے ہمیں لاک کا کوڈ ایک دن پہلے بھیج دیا تھا۔ چیک ان کا ٹائم چار بجے اور چیک آؤٹ ہونے کا وقت دوپہر گیارہ سے بارہ بجے تک تھا۔

امریکہ کے اکثر علاقوں خصوصاً پنسلوانیا میں اکثر شہروں کے نام کے آگے ”برگ“ آتا ہے جیسے پاکستان میں اکثر قصبات اور دیہات کے ناموں کے آگے نگر یا پورہ لگا ہوتا ہے۔

سترویں ( 17 ) صدی میں یورپ کے بڑے ممالک خصوصاً جرمنی سے امریکہ آ کر آباد ہونے والوں کی کثیر تعداد ریاست پنسلوانیا میں آ کر آباد ہوئی تھی۔ جہاں ان میں سے اکثریت نے زراعت کے پیشے کو ترجیح دی اور اس مقصد کے لیے دیگر جائیدادیں خریدنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بڑے بڑے زرعی فارم بھی خریدے۔

جرمن کمیونٹی جن جن علاقوں میں آباد ہوئی وہاں کے زیادہ شہروں کے ناموں کے آگے برگ آتا ہے۔ جرمنی میں لفظ برگ فورٹرس یعنی قلعے یا پھر کئیسل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اپنے کلچر اور زبان کے علاوہ لفظ ”برگ“ بھی امریکہ میں جرمن لے کر آئے۔

امریکہ میں انگلش اور سپینش کے بعد زیادہ علاقوں میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان جرمن ڈچ ہے۔ جبکہ ورلڈ اٹلس کے مطابق امریکہ میں بولی جانے والی ٹاپ پچیس زبانوں میں جرمن ڈچ آٹھویں نمبر پر ہے۔ چائینز تیسرے، ہندی تیرہویں، اردو کا سولہویں، بنگالی بیسویں پنجابی اکیسویں نمبر پر بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہے۔ جبکہ یہودیوں کی زبان ہیبرو پچیسویں نمبر پر آتی ہے۔

پنسلوانیا میں قیام کے دوران ہم نے پوکونوز کے پہاڑی سلسلے کے شہر کیمل بیک، ہیرس برگ اور خصوصاً مشہور زمانہ ہرشی چاکلیٹ کے نام پر رکھے گئے ہرشی ٹاؤن کے اہم مقامات، ہرشی میوزیم، ہرشی پارک اور ہرشی چاکلیٹ فیکٹری کے وزٹ کا موقع ملا۔

ہرشی شہر میں چاکلیٹ ایونیو پر واقع ”ہرشی سٹوری میوزیم آف چاکلیٹ“ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہرشی چاکلیٹ کی ایک سو چالیس سالہ تاریخ کو بڑی خوبصورتی سے میوزیم کی زینت بنایا گیا ہے۔ کون سی چاکلیٹ کس سن لانچ ہوئی اور اس سن میں کون سا اہم ایوئنٹ ہوا تھا۔ ترتیب وار یہ ساری معلومات میوزیم کی زینت بنائی گئی ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہرشی نے امریکی فوجیوں کے لیے ایک خصوصی انرجی بار تیار کی تھی۔ جو گرمی میں پگھلتی نہیں تھی۔

ہرشی چاکلیٹ کا آغاز اس کے بانی ملٹن۔ ایس۔ ہرشی ( 1945۔ 1857 ) نے 1880 ء میں امریکی ریاست پنسلوانیا کی لنکاسٹر کاؤنٹئی میں ”لنکاسٹر کارمیل کمپنی“ بنا کر کیا تھا۔ لیکن مکمل طور پر چاکلیٹ بزنس میں آنے کا خیال انہیں 1893 میں شکاگو میں لگی ایک ورلڈ کولمبین نمائش کے دوران جرمنی کے بنے ایک چاکلیٹ پراسیسنگ پلانٹ کو دیکھ کر ہوا۔

1894 ء میں ملٹن نے ایک چاکلیٹ پلانٹ لگا کر اس کی پیداوار کا آغاز کیا۔ جو بڑھتے بڑھتے اسے بام عروج تک لے گیا۔ 1903 ء ہرشی چاکلیٹ کی مقبولیت کا بھرپور سال ثابت ہوا۔ ہرشی نے اس سال پنسلوانیا کے علاقے دری میں چاکلیٹ ایک نئی فیکٹری قائم کی۔ جس نے بعدازاں ہرشی کو امریکہ سمیت دنیا بھر میں مقبولیت سے ہمکنار کر دیا۔ اس وقت دنیا بھر میں ہرشی چاکلیٹ مصنوعات بنانے میں پہلے نمبر پر ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2019 ء میں ہرشی کا سالانہ ریونیو سات ہزار نو سو چھیاسی ملین یو ایس ڈالر تھا۔ اس فیکٹری کے ارد گرد کا علاقہ اب ہرشی ٹاؤن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہرشی چاکلیٹ کا ہیڈ کوارٹر اسی ہرشی شہر میں واقع ہے۔

چاکلیٹ کمپنی ہرشی (Hershey) کے امریکی ریاست پنسلوانیا میں بسائے ہرشی شہر کا وزٹ دلچسپی سے بھرپور رہا۔ نئے مقامات کی سیاحت اور کھوج انسان کو ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے اور مشاہدے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

اس جدید بستی کو بسانے کا مقصد ہرشی چاکلیٹ فیکٹری میں کام کرنے والے ورکروں کے لیے رہائشی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ ان کے بچوں کے لیے سکول اور تفریحی پارک تعمیر کرنا شامل تھا۔

ہرشی ملٹن سکول اس وقت دو ہزار کے قریب یتیم بچوں کو تعلیم فراہم کر رہا ہے۔

ہرشی شہر 14.4 سکوائر میل رقبے پر مشتمل ہے جبکہ 2010 ء میں ہوئی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی کل آبادی چودہ ہزار دو سو ستاون افراد پر مشتمل تھی۔ ہرشی میں واقع ہرشی چاکلیٹ فیکٹری، ملٹن ہرشی سکول، ہرشی پارک اور ہرشی چاکلیٹ میوزیم کافی مشہور ہیں۔

تاہم اس ٹاؤن میں سب سے زیادہ قابل ذکر اور دلچسپی کا حامل ہرشی پارک ہے۔ ایک سو چودہ سالہ پرانے اور 121 ایکڑ رقبے پر پھیلے اس جدید تھیم پارک میں 76 کے قریب اٹرکشنز شامل ہیں۔ جن میں 14 رولر کوسٹر، پندرہ واٹر پارک (اٹریکشنز) چڑیا گھر، مختلف قسم کی چھبیس کے قریب بچوں کی دلچسپی کی رائیڈز اور دیگر جھولے شامل ہیں۔

ہرشی پارک کو سالانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ وزٹ کرتے ہیں۔ صرف 2019 میں اڑتیس لاکھ سے زائد افراد ہرشی پارک کی سیر کے لیے آئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2016 ء میں اس پارک میں آنے والے لوگ آٹھ سو گیلن سے زائد آئس کریم سے لطف اندوز ہوئے۔

پنسلوانیا میں پوکونوز کے وسیع وعریض اونچے نیچے پہاڑی سلسلے میں واقع سیاحتی مقام ”کیمل بیک“ اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا باعث ہے۔ یہاں ڈھلوان دار پہاڑیوں پر بنے درجنوں ہائیکنگ ٹریکس، ٹریلز اور ریزارٹس کے اندر بنے ان ڈور واٹر پارکس کافی مقبول ہیں۔

آؤٹ ڈور گیمز میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک تاروں سے لٹک کر جانے کے لیے جسے زپ لائننگ کہا جاتا ہے خاصی دلچسپی کی چیزیں ہیں۔ یہاں ایک ہزار اور چار ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا کر نیچے آنے کے لیے زپ لائن کی جاتی ہے۔

میری طرح کے کمزور دل حضرات اس ایڈونچر سے ذرا گھبراتے ہیں۔ کیمل بیک میں فیملی کے باقی افراد جب زپ لائنینگ کرنے کے لیے جا رہے تھے اور میں ان کی واپسی تک انتظار کرنے کے لیے کوئی سایہ دار چھتری والا بنچ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک میری نظر گھٹنوں تک دونوں ٹانگوں سے محروم اور مصنوعی ٹانگیں کے سہارے کھڑے چوبیس پچیس سال کے ایک نوجوان پر پڑی جو اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ زپ لائنینگ کرنے کے لیے جانے والوں کی لائن میں لگا ہوا تھا۔

اسے دیکھ کر اچانک مجھے بھی جوش آ گیا۔ ٹکٹ لیا اور ان کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ پیالہ کٹ تراشے بالوں والے مذکورہ نوجوان کے سر کے پچھلے حصے پر بھی زخموں کے نشان نظر آ رہے تھے۔ اسے دیکھ کر میرا پہلا تاثر یہی ابھرا تھا کہ ہو نہ ہو یہ نوجوان وار ویٹرن یعنی (سابقہ فوجی) ہے۔

اس سے بات چیت کی جائے یا نہ کی جائے کچھ لمحے یہی سوچتے ہوئے میں لائن سے نکل کر اس کے پاس چلا گیا اور رسمی ہیلو ہائے اور تعارف کے بعد اس سے پوچھا کہ ”کیا وہ سابقہ فوجی ہے؟“ مجھے استفہامیہ نظروں سے تکتے ہوئے اس کا جواب ”ہاں“ میں تھا۔

امریکی معاشرے میں سابقہ فوجیوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خصوصاً اگر وہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہوئے ہوں تو سوسائٹی میں ان کی توقیر اور قدرو منذلت اور بڑھ جاتی ہے۔ انہیں خصوصی مراعات کے علاوہ سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں ملازمتوں میں ترجیح دی جاتی ہے۔ ان کے لیے کار نمبر پلیٹ بھی الگ ہوتی ہے۔ اکثر ویٹرن اپنے محکمے کی ٹی شرٹس یا گلے میں بیج ڈالے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اکثر اپنی گاڑیوں پر بھی ”ویٹرن“ کے سٹکر آویزاں کرتے ہیں۔ بعض اوقات کئی بوڑھے ویٹرن کا پلے کارڈ اٹھائے بھیک مانگتے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اب پتہ نہیں کہ وہ اصل ویٹرن ہوتے ہیں یا ان کے بھیس میں دیگر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ تاہم یہ درست ہے کہ سابق فوجیوں کو حکومت خصوصی مراعات فراہم کرتی ہے۔

اس کے ساتھ یہ سانحہ کیسے پیش آیا؟ کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ ”یہ بڑی دردناک سٹوری ہے۔ چند سال پہلے افغانستان میں جنگ کے دوران ایک حملے میں اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئی تھیں۔ سر اور جسم کے باقی حصوں پر بھی شدید زخم آئے تھے۔ کئی روز تک وہ بے ہوش رہے۔ مختلف ہسپتالوں میں صحت یابی اورمکمل ریکوری میں اسے دو سے تین سال لگے ہیں۔ جدید اور مصنوعی ٹانگیں لگنے سے اب وہ اپنے معمولات زندگی پرجوش اور احسن طریقے ادا کر رہے ہیں۔ اپنی فیملی اور دوستوں کے ہمراہ مختلف مقامات کی سیاحت ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے“ ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ”بائے“ کہتے ہوئے اپنے دوستوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ تاہم جاتے ہوئے وہ یہ پیغام ضرور دے گیا کہ انسان کے کسی ظاہری اعضاء کی محرومی اس کے عزم و ہمت اور حوصلے پر پر غالب نہیں آنی چاہیے۔

اس ٹور کے دوران دوسرے مقام ہرشی پارک کی سیر کے دوران ذرا سستانے کے لیے ایک ہم ریسٹورنٹ کے باہر لگی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ میں اندر باتھ روم استعمال کر کے واپس آیا تو میری اہلیہ نے میری توجہ عمارت کی پچھلی جانب زمین پر نماز ادا کرتی ہوئی ایک خاتون کی جانب مبذول کروائی۔ اور ساتھ ہی بتایا کہ یہ ساتھ والے ٹیبل پر جو دو چھوٹے بچوں کے ساتھ جو صاحب بیٹھے ہیں وہ اس خاتون کے شوہر ہیں۔ قبل ازیں نماز ادا کرنے کے لیے وہ جگہ کی تلاش میں تھی۔ اور دونوں اس بابت گفتگو کر رہے تھے کہ نماز کہاں ادا کی جائے۔ تھوڑی دیر بعد وہ خاتون بھی نماز سے فارغ ہو کر اپنی فیملی کے پاس آ بیٹھی۔

امریکہ میں سال ہا سال سے رہتے ہوئے اپنے بھائی لوگوں کو پبلک مقامات پر نماز پڑھتے تو دیکھا تھا تاہم پارک میں موجود ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اس طرح ایک خاتون کو نماز پڑھتے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

ہم اٹھنے لگے تو ان کے ٹیبل کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے خاتون کے شوہر کو ”اسلام وعلیکم برادر“ کہا تو اس نے بھی حیرت سے مسکرا کر ”وعلیکم السلام“ کہا۔ باہمی تعارف کے دوران معلوم ہوا کہ خاتون کے شوہر کا نام عبدل جمال ہے اور اس کی اہلیہ عتیفہ کا تعلق بنیادی طور پر افریقی ملک سوڈان سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے جمال انجنئیر ہیں۔ اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ ورجینیا سے ہرشی پارک پنسلوانیا کی سیر کے لیے آئے ہیں۔

سات بجے شام ہرشی پارک کے بند ہونے کا وقت تھا۔ چھ بجے کے بعد لوگ آہستہ آہستہ واپسی کے سفر کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ کروونا کی وجہ سے ہرشی چاکلیٹ فیکٹری بند تھی۔ تاہم اس کے متبادل کے طور پر آنے والوں کو چاکلیٹ بنتی دکھانے کا بندوبست ہرشی چاکلیٹ میوزیم میں چاکلیٹ بنانے والی مشینیں رکھ کر کیا گیا تھا۔ قدیم دور میں چاکلیٹ کیسے بنتی تھی اور اب چاکلیٹ کیسے تیار ہوتی ہے اس کا بھرپور مظاہرہ ہم نے میوزیم میں دیکھا۔ جو بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔ ہم نے اس پہلے چاکلیٹ کھائی تھی۔ آج اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے ہوئے دیکھ بھی لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).