داستاں چھوڑ آئے


تخلیقی ذہن کے حامل افراد، خواہ وہ شاعر ہوں، یا ادیب، فنکار ہوں یا مصور، دانشور ہوں یا سائنسدان، کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہو تے ہیں۔ یہ افراد کسی بھی قوم میں ذہنی نشوونما اورمثبت رویوں کی نمود کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی قدر کی جانی چاہیے۔

مجھے یہ خیال رحیم گل کی، ان کے اپنے قلم سے لکھی سوانح حیات: ”داستاں چھوڑ آئے“ پڑھ کر آیا ہے، کہ ان کا تعلق بھی اسی تخلیقی گروہ سے ہے۔ گزشتہ ماہ ایک پیشہ وارانہ کورس پر کراچی روانہ ہوتے وقت رفیق دیرینہ ونگ کمانڈر اظہر الاقبال، جو خود فکش کے دلدادہ ہیں، مجھے رحیم گل کا ناول ”جنت کی تلاش“ پیش کیا۔ ”جنت کی تلاش“ چھوٹے پلاٹ مگر وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ایک ایسی خوبصورت کہانی ہے۔ جس میں فلسفہ بھی ہے، سیاحت بھی ہے اور محبت بھی ہے۔ ناول میں امتل کا کرداراور نظریہ حیات ہماری بہت سی قدیم مروجہ اقدار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

میری خوش قسمتی کہ ”جنت کی تلاش“ ختم کرتے ہی رحیم گل کا ایک اور ناول : ”تن تارارا“ ایک رفیق دیرینہ کی لائبریری سے میرے ہاتھ آ گیا۔ ”تن تارا را“ نے مجھ پر ایک ایسا نا قابل بیان تاثر چھوڑا کہ میں نے مصنف کے تمام کتب آن لائن آرڈر کر دیں۔ مجھے رحیم گل کی زندگی کے بارے میں جاننے کا اشتیاق بھی ہوا اور انٹر نیٹ پر تحقیق شروع کر دی، مگر اس عظیم فنکار کے بارے میں، میری تحقیق و تشنگی قائم رہی تا وقیکہ ان کی خود گذشت: ”داستاں چھوڑ آئے“ مجھ تک نہ پہنچی۔ یہ کتاب رحیم گل کی ایک نہایت دلکش خود نوشت ہے۔ جس پر ان کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے بارے میں اتنا سچ لکھنا اگر نا ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ اس اعتبار سے رحیم گل خوشونت سنگھ کی ٹکر کا ادیب ہے۔

اس کتاب میں وہ اپنے بچپن، اپنی جنم بھومی میں گزرے لڑکپن کی شرارتیں، رومان اور خوبصورت یاداشتیں قلمبند کرنے کے بعد غم روزگار اور اپنے محبتوں کی دلگداز داستان نہایت مہارت اور رونی سے اس طرح قلمبند کرتے ہیں کہ قاری اپنے آپ کو ان کے ساتھ ساتھ چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ رحیم گل اپنی سات محبتوں کے بارے میں کتاب کے دیباچے میں نہایت ایمانداری سے رقمطراز ہیں :

”۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ان گنت محبتوں سے دو چار نہ ہوا ہوتا تو شاید تخلیقی کرب کی دولت سے بھی مالا مال نہ ہوتا۔ ۔ ۔ ہر محبت کی ناکامی نے مجھے ایک نئے احساس سے دوچار کیا۔ اور ہر محبت کی ابتدا ء نے مجھے ایک نئی کیفیت سے آشنا کیا۔ ۔ ۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے پہلی محبت کو آخری محبت نہیں جانا اور یہ بھی کہ نہ دیوانہ ہوا، نہ صحراؤں میں نکلا اور نہ خود کشی کا دورہ پڑا۔ اس لئے افلاطونی عشق رکھنے والوں سے شرمندہ ہوں۔

لیکن ان گنت محبتوں کو ابوالہوسی کے کھاتے میں اس لئے نہیں ڈالتاکہ میں آخری محبت بھی اتنا ہی سچا تھاجتنا کہ پہلی محبت میں تھا۔ ۔ پہلی اور آخری محبت میں جس حد تک سرشار رہابیچ کی ساری محبتوں میں ویسی ہی خود فراموشی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف مزاج کی لڑکیوں نے مختلف احساس دیے اور فریفتگی کے گوناگوں رنگ دیکھے۔ میرے نزدیک محبت ایک نیکی ہے۔ ۔ ۔ عورت سے محبت، مرد سے محبت، بچے سے محبت، جانور سے محبت، پھولوں سے محبت۔ یہی میری سرشت ہے۔ اور میں اس سرشت کے ساتھ زندہ رہنا پسند کرتا ہوں!“

رحیم گل خیبر پختون خواہ کے شہر کوہاٹ سے پچاس میل جنوب میں شکردرہ کے مقام پر 1924 ء میں پیدا ہوئے۔ قبائلی ماحول کے بہادرانہ رکھ رکھاؤ، رچاؤ اور چاشنی میں جنم لینے والے کوہستانی مادیہ پرستی کے اس دور میں بھی بہادر، کھرے اور سچے لوگ ہیں۔ سنگلاخ چٹانوں سے نکلتے چشموں سے سیراب، خالص اور سادہ خوراک کھانے والے جفا کش لوگ بہادر، صاف گو اور قول کے پکے ہوتے ہیں۔ ایسے قدرتی ماحول میں بچپن گزارکر جہاں جنگلی حیات کا شکار، گھڑدوڑ، بیل دوڑ، فٹ بال، والی بال، اور کبڈی لڑکپن کے عام مشغلے تھے، وجیہ و شکیل نوجوان رحیم گل کسا ہوا جسم اور بھر پور مردانہ وجاہت لے کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوئے۔

تعلیم مکمل کر کے رحیم گل والد کی خواہش پر پولیس سروس میں بھرتی تو ہو گئے۔ مگر محکمہ پولیس میں دل نہ لگا اور ایک ڈیڑھ سال بعد پولیس سروس سے استعفٰی دے دیا۔ اپنی سوانح عمری میں رحیم گل اپنے لڑکپن میں اپنی تین محبتوں : رام پیاری، زرینہ اور فروزہ کا ذکر بہت دلکش پیرائے میں کرتے ہیں۔ جو قبائلی رسم و رواج، رواداری اور اور والد سے روایتی پدرانہ حجاب کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ۔ ۔

رحیم گل کو نگر نگر گھومنے کا اور نئے نئے لوگوں سے ملنے کا شوق تھا۔ ان کے خیال میں فوج ایک ایسا محکمہ تھا جس میں جا کر ان کا یہ خوا ب شرمندٔہ تعبیر ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ر مرد کوہستانی، رحیم گل 1941 ء برطانوی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ وہ ایک پھرتیلے، حاضر دماغ اور علمی ذہین سپاہی تھے۔ چنانچہ حیرت انگیز طور پر تیز ترین ترقی کے ذریعے چند سالوں میں نہ صرف حوالدار کے عہدے تک جا پہنچے بلکہ وائسرائے کمیشن کے لئے بھی نامزد ہو گئے۔

اس اثناء میں دوسری جنگ عظیم چھڑ چکی تھی۔ مغربی محا ذ پر جرمن فوجیں یورپ میں فتوحات حاصل کر رہیں تھیں۔ جبکہ مشرقی محاذ پر ( جرمنی کی دوست ) ، جاپانی افواج برما اور ہندوستان کی سرحد پر تعینات (برٹش انڈین) ہندوستانی سپاہ کو للکار ہی تھیں۔ اسی اثناء میں، جہلم میں تعینات رحیم گل کی سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ یونٹ کو فوری طور پر ’برما‘ فرنٹ ’جانے کے احکامات ملے۔ ان کی بٹالین جب ناگا ہل نامی قصبے میں پہنچی تو جنگ زوروں پر تھی۔ برطانوی فوج کی سپلائی لائن، آسام، ناگا ہل، منی پور امپھال اوراس سے آگے دریائے ایراوتی (جس کے دوسرے کنارے پر جاپانی فوج پہنچ چکی تھی ) ، تک جاتی تھی۔ رحیم گل اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ، ان کی یونٹ جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک اسی سپلائی لائن کے مختلف مقامات پر تعینات رہی تھی۔

جنگ عظیم دوئم کے دوران رحیم گل کی محبت کے تین انمول تجربات کی روداد پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پہلی ایک کرسچن نرس ’سارہ‘ ، دوسری ناگا لڑکی ’تن تارارا‘ اور تیسری ایک ہندو خاتون ’گیتا‘ نے رحیم گل کی رومانوی زندگی میں اہم نقوش چھوڑے۔ ان کے بقول ان کا سب سے خوبصورت رومانس اور نا قابل فراموش محبت ’گیتا‘ تھی جس کا ساتھ ان کو آسام کے سرحدی شہر ڈبرو گڑھ میں چھ، آٹھ ماہ حاصل رہا۔

اس عرصے کی یاداشتوں میں رحیم گل نے کئی دلچسپ واقعات بھی نہایت لطیف پیرائے میں قلم بند کیے ہیں۔ ان یادوں کا سب سے خوبصورت پہلوفوجیوں کی آپس کی کامریڈشپ، دوستی، رازداری اور حتٰی کے اپنے ساتھی کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کرنے جیسے واقعات سے لبریز ہے۔ ان واقعات کا ایک اور پہلو بھائی بندوں اور پیٹی بھائیوں کی سیکولربرتاؤ اور انسان دوست رویہ بھی ہے۔ ان کی یونٹ میں ہندو، مسلم، سکھ، یہودی اور عیسائی ایک جگہ رہتے، کھاتے پیتے، اورہنستے کھیلتے تھے۔ اسی دور کے ایک دلچسپ واقعے کا تذکرہ بیان رحیم گل اس طرح کرتے ہیں :

”صوبیدار گنگا پرشاد میرٹھ کا جاٹ تھا۔ کم گو مگر نڈر آدمی تھا۔ کتابوں کا رسیا تھا اس لئے میرا دوست بن گیا۔ کبھی کبھار شراب کی چسکی لگاتا تھا۔ جس دن کوئی اچھی چیز پکاتا مجھے ضرور بلاتا۔ ایک دن کہنے لگا:“ یار کسی دن گائے کا گوشت کھلاؤ۔ ”میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو ہنسنے لگا۔“ ہاں یار تجربے کے طور پر۔ سنا ہے، بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ لیکن کھلانے سے پہلے مجھے نہ بتانا۔ ۔ ۔ کہیں میں بدک نہ جاؤں۔ ”

میں نے جمعدار حیات محمد سے ذکر کیا تو وہ بہت خوش ہوا کہ یہ تو ثواب کا کام ہے۔ کراڑ کا بچہ کیا یاد کرے گا! ”

چنانچہ ایک دن ہم نے باقاعدہ اہتمام کیا۔ بچھڑے کا نرم نرم گوشت لائے۔ شامی کباب بنائے۔ دو تین طرح کا سالن بنا۔ جمعدار حیات محمد اردلی کے ساتھ خود بھی کام کر رہا تھا۔ شام کو میں گنگا پرشاد کو کسی بہانے لے آیا۔ تاش کھیلنے بیٹھ گئے۔ نو بج گئے تو پروگرام کے مطابق اردلی نے کہا۔ ۔ ۔ ”صاحب کھانا تیار ہے۔“ جمعدار حیات محمد بے نیازی سے بولے۔ ۔ ۔ لگا دو بھئی اور صوبیدار صاحب کے اردلی سے بھی کہہ دو۔ ان کا کھانا بھی یہیں لے آئیں۔

”میں نے اور جمعدار حیات محمد نے ایک ایک کباب اٹھایا۔ ۔ ۔ صوبیدار گنگا پرشاد بھی کباب کھانے لگا۔ ۔ ۔ کباب نہایت خستہ اور لذیذ تھے۔ ۔ ۔ گنگا پرشاد کے لئے یہ بالکل نیا ذائقہ تھا۔ وہ تعریف پر تعریف کیے جا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو ذومعنی نظروں سے دیکھ لیتے تھے اور دل میں خوشی دبائے بیٹھے تھے کہ۔ ۔ ۔ گنگا پرشاد پانچ چھ کباب چٹ کر گیا۔ سالن کی باری آئی۔ بھنا ہوا نرم نرم گوشت اور چٹ پٹے مصالحے، بس مزہ آ گیا۔

۔ ۔ دوبارہ تاش کھیلنے بیٹھ گئے تو صوبیدار گنگا پرشاد نے پھر کھانے کی تعریف شروع کر دی۔ جمعدار حیات محمد نے مجھے آنکھ ماری اور بے ساختہ ہنس پڑا۔ مین بھی ہنسنے لگا تو صوبیدار گنگا پرشاد نے حیرت سے باری باری ہم دونوں کی طرف دیکھا۔ جمعدار حیات محمد قہقہے پر قہقہے لگا رہا تھا۔ آخر اس سے نہ رہا گیا اور بولا:“ صوبیدار صاحب! آج ہم نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ کو، آپ کی ماں کا گوشت کھلا دیا ہے۔ ”صوبیدار گنگا پرشاد کو فوری طور پر دھچکا سا لگا۔ ۔ ۔ چند لمحے بوکھلایا بوکھلایا دیکھتا رہا پھر شرارت سے مسکرا پڑا۔ ۔ ۔“ کوئی بات نہیں مسلو، ۔ ۔ ۔ کسی دن میں تمہیں سٔور کا گوشت کھلا کر چھوڑوں گا۔ ”

کافی دیر تک دل لگی ہوتی رہی۔ اب صوبیدار گنگا پرشاد ہفتے میں ایک بار ضرورہمارے ساتھ گائے کے گوشت کا جشن منایا کرتا تھا۔ اور پھر جب تک ہم اکٹھے رہے۔ گنگا پرشاد ہمیشہ ہمارا دوست رہا۔ ”

دوسری جنگ عظیم کے بعد رحیم گل نے برٹش آرمی سے ریلیز لے لی۔ اور وطن میں جا کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر کے تحریک پاکستان مین بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ قائد کے افکار و کردار سے بہت متاثر تھے۔ مگر پاکستان بننے کے بعد ان کو اپنے سیاست دانوں کے طرز عمل سے سخت مایوسی ہوئی اور اس کام کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر دوبارہ بطور حوالدر فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ دوبارہ فوج میں جانے کے کچھ عرصے بعدایک سینئر آرمی افسر کی بیٹی ان پر دل ہار بیٹھی۔ وہ بھی اس دلکش لڑکی سے محبت کرنے لگے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو طویل خطوط لکھتے تھے۔ یوں اس لڑکی (جو بعد میں، ان کی بیوی اور چار بچوں کی ماں بنی) ان کے اندر سے ادیب کو باہر نکال لائی۔

آغاز محبت میں لڑکی کا سخت گیر فوجی افسر والد اپنی بیٹی کی شادی ایک حوالدار سے کرنے سے انکاری تھا۔ رحیم گل کی محبت کے جنون نے اس چیلنج کو قبول کیا، انھوں نے اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کی۔ یکسوئی سے محنت کی اور نہ صرف فوج میں کمیشن حاصل کیا بلکہ اپنی محبت کی تکمیل بھی کر دی۔ انھوں نے فوج میں ترقی کرتے کرتے، کمیشن حاصل کیا اور کیپٹن کے عہدے تک جا پہنچے۔

رحیم گل سروس کے دوران بھی کہانیاں اور افسانے لکھتے تھے جو ایک فوجی جریدے میں چھپتی تھیں۔ مگر یٹائرمنٹ کے بعد یہ کام مزید دل جمعی سے کرنے لگ گئے۔ اس زمانے میں انور کمال پاشا ایک کامیاب فلمساز کے طور پر اپنے کیریئر کے عروج پر تھے۔ وہ ایک پاشا ایک جوہر شناس شخص تھے۔ انھوں نے رحیم گل کو بطور کہانی نویس پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ یہ ایک دور رس اور بہت حد تک کامیاب فیصلہ تھا۔ لاہور جا کر، ساٹھ اور سترٌ کی دہایوں میں، رحیم گل نے جن فلموں میں بطور کہانی کار اور ہدایتکار کام کیا ان میں : ’لگن (اردو)‘ ، ’ہابو (اردو)‘ ، ’بارات‘ (اردو) ’عجب خان آفریدی‘ (پشتو) مثال (اردو) ’، موسیٰ خان گل مکئی (پشتو) ، ا‘ حتجاج (اردو) ’اور رواج (پشتو) قابل ذکر ہیں۔

اردو ادب میں رحیم گل کابطور ایک منفرد افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد، خاکہ نگار اور کالم نگار کے طور پراتنا عدیم المثال کام ہے جوظرافت، سادگی، تخیل کی پرواز، منظر نگاری، جذبات کی شدت، اور رومانوی بے ساختگی کی منظر کشی کے اعتبار سے شوکت صدیقی، قرا تالعین حیدر، بشریٰ رحمٰن، مستنصر حسین تارڑ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، کشور ناہید اور عمیرہ احمد وغیرہ سے کئی درجے اوپر ہے۔

رحیم گل کا ’جنت کی تلاش‘ (ناول) ، ’پیاس کا دریا (ناول)‘ ، ’تن تارا‘ (ناول) ، ’زہر کا دریا (افسانے )‘ ، ’سرحدی عقاب‘ (افسانے ) ، ’وادیٔ گمان میں (ناول)‘ ، ’داستاں چھوڑ آئے‘ (ناول کی شکل میں سوانح حیات) ، ’پورٹریٹ (خاکے ) ،‘ ’وہ اجنبی اپنا (ناولٹ)‘ ، ’ترنم‘ اور ’خدو خال (خاکے )‘ سدا بہار اور نا قابل فراموش تصانیف ہیں۔ رحیم گل 1985 ء میں اکسٹھ سال کی عمر میں لاہور میں وفات پا گئے۔ اس درویش صفت انسان نے کبھی ناجائز ذرائع سے دولت جمع نہیں کی اور نہ ہی اپنا کوئی ذاتی گھر بنایا۔ جو کمایا اپنی جائز ضرورت پوری کر کے ضرورت مندوں کے لئے رکھ چھوڑا۔ ۔ ۔ ’داستاں چھوڑ آئے‘ کے آخری باب میں شاید انہوں نے اس طرف اشارہ کیا ہے :

”دولت کے بغیر بھی خوشی کے کئی گوشے ہیں۔ آدمی کام کرے، محنت کرے اور مسرتوں کی وہی حد رکھے، جس سے اس کا ضمیر زندہ و تابندہ رہے۔ کروڑ پتی ایک رات میں اتنی ہی نیند لے سکتا ہے، جتنی ایک مزدور کے حصے میں آتی ہے۔ عورت سے محبت کے معاملے میں بھی وہ مزدور پر فوقیت نہیں رکھتا۔ ٹھنڈا پانی حلق سے اترے تو دونوں ایک ہی طرح کی راحت محسوس کرتے ہیں۔ دھوپ بھی دونوں کے حصے میں برابر کی آتی ہے۔ بہار کی نیرنگیوں سے بھی دونوں برابر محظوظ ہوتے ہیں۔ فطرت روئے زمین کے ہر جاندار سے مادرانہ رویہ رکھتی ہے۔ وہ کم و بیش اور درجہ بندی کی سرشت نہیں رکھتی۔“

ایک ادیب، کہانی کار اور فلم ڈائریکٹر رحیم گل ایک عرصے تک ”روزنامہ جنگ“ میں کالم لکھ کر سماجی بد صورتیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ ایسے لوگوں کو ”لائف ٹا ئم اچیو منٹ ایوارڈ“ ملنا چاہیے۔ مگر افسوس کے ہمارے ہاں قومی سطح کے انعامات و اعزازات درباریوں، سیاسی ادیبوں اور درباری مسخروں کو ملتے ہیں۔ مگریہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ: تخلیقی ذہن کے حامل افراد، خواہ وہ شاعر ہوں، یا ادیب، فنکار ہوں یا مصور، دانشور ہوں یا سائنسدان، کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہو تے ہیں۔ کیونکہ یہی افراد کسی بھی قوم میں ذہنی نشوونما اورمثبت رویوں کی نمود کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی قدر کی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).