اے عورت۔ تم ریپستان میں رہتی ہو!


حالیہ لاہور ریپ کیس کسی سے ڈھکا چھپا نہیں شاید بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی اس کیس کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہوں گے ، کیونکہ پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر اسی دل چیر دینے والے گھناونے فعل پر تبصرے جاری ہیں۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رات گئے بچوں کے سامنے خاتون کے ساتھ گینگ ریپ ہوا اور تاحال وحشی درندے ابھی تک آزاد دھندھنا رہے۔

پاکستان میں خواتین کو مرد کے شانہ بہ شانہ تصور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں آج بھی خواتین غیر محفوظ ہیں پھر وہ 6 سال کی بچی ہو یا 80 سال کی بڑھیا ہر قدم پر جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے، عموماً ایسے واقعات کچھ دن سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہیں عوام غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں، حکومت سخت سزا کے جھوٹے دعوے کرتی ہے اور یوں معاملہ کچھ دنوں بعد اس وقت تک بھول بیٹھتے ہیں جب تک کوئی نیا کیس سامنے نہیں آجاتا۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہوگی کہ بنگلہ دیش میں زنا کے مرتکب 16 افراد کو سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے ریمارکس دیا ”یہ بنگلہ دیش ہے پاکستان نہیں!“ ۔

ہم ایسے ملک کا حصہ ہیں جہاں ہمارے رکھوالے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ خاتون اتنی رات کو اکیلے کیوں نکلی تھیں؟ میرا ذہن اس شش وپنج ہے کہ کیا پاکستان میں ایسی خواتین نہیں رہتی جن کے باپ، بھائی، بیٹا نہیں؟ کیا پاکستان میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر وقت ایک مرد اپنے ساتھ رکھیں؟ یا جن خواتین کے گھرانوں میں مرد ہی نہیں تو کیاحکومت انھیں ایک مرد فراہم کرے گی؟ بہر کیف یہاں جنگل کا قانون چلتا ہے اور جنگلی اس کے رکھوالے ہیں تو کیسے انصاف کا بول بالا ہو۔

ریپ کیسز کو دیکھتے ہوئے پاکستان کا موازنہ فرانس بھی ہو رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق 2019 میں فرانس کی آبادی 7 کروڑ تھی اور وہا ں 19,000 ریپ کیسز جبکہ 27,000 جنسی حملے ہوئے۔ اسی سال 2019 میں پاکستان کی آبادی 22 کروڑ تھی، ڈیلی ٹائمز کے ایک آرٹیکل کے مطابق 2014 سے 2017 کے درمیان 10,000 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، ایک ریسرچ آرٹیکل میں یہ بھی واضح ہے کہ 2018 میں پنجاب میں 3,881 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ صرف پنجاب میں اتنے کیسز رپورٹ ہوئے تھے پورے پاکستان میں اس کے اعداد و شمار کیا رہے ہوں گے اور یہ صرف ان کیسز کی تعداد ہے جو رپورٹ کیے گئے ناجانے ایسے کتنے کیسز ہوں جن کی رپورٹ کروائی نہیں گئی۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی کہ خاتون کا ریپ ہو ا بلکہ ہم اور آپ بھی ایسی خواتین کی تذلیل کھلم کھلا سوشل میڈیا پر کرتے ہیں کبھی ہمدردی کی پوسٹ سے تو کبھی تفتیشی نگاہ سے ایک عورت پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی جب پوری دنیا اس کی عزت سے متعلق باتیں کرتی ہے۔ جبکہ اس کو نوچ کھا جانے والے کے بارے میں صرف یہی کہا جاتا ہے سر عام لٹکا دیا جائے کیا اس طرح ایک کو سزا دینے سے ایسے درندے باز آ جائیں گے؟ اس کے باوجود ہمیں اس مسئلہ کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ سائیکل کا پہیا تو یوں ہی چلتا رہے گا آج ایک عورت تو کل دوسری۔

پہلے پہل تو ان جرائم کا قصور وار ان پڑھ لوگوں کو ٹھہرا دیا جاتا تھا لیکن اب ہم اپنے استاد جیسے محترم طبقے سے بھی غیر محفوظ ہیں۔ یہ جنسی وحشی پن پڑھائی سے ختم نہیں ہوتا بلکہ پڑھائی تو ایسے لوگوں کے لیے منہ چھپانے کا سہارا بن جاتی ہے، آج میرے اور آپ کے درمیان ایسے کتنے مرد آباد ہوں گے جو اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں، اچھا روزگار ہے، اچھے دوست احباب کا ساتھ ہے ایک مکمل زندگی گزار رہے لیکن ان کے اندر چھپی جنسی حیوانیت ہم نہیں دیکھ سکتے۔

کبھی پیار کے نام پر تو کبھی دوستی کے نام پر تو کبھی شادی کے نام پر اور تو اور کبھی جاب اور ڈگری کے نام پر کتنی ہی لڑکیاں اپنی عزت کی بھینٹ چڑھا چکی ہوں گی اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہوگا۔ اور ہم دنیا کے سامنے ڈٹ کر کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں، شاید مردوں کے لیے تو ٹھیک ہی ہے لیکن اے عورت۔ تم ریپستان میں رہتی ہو!

گھبرانا نہیں ہے کیونکہ عمران خان نے کراچی میں بچی اور لاہور میں خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف سخت نوٹس لے لیا ہے اور مجرم جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے اور انھیں کڑی سے کڑی سزا بھی دی جائے گی۔ موت ان کا انجام ہے سب جانتے ہیں لیکن کیا یہ پاکستان کا آخری ریپ کیس ہوگا؟ کچھ خبر نہیں۔ میں خواتین سے اتنا کہوں گی کہ اپنی حفاظت خود کریں کیونکہ آپ اس جنگل کا حصہ ہیں، جہاں درندوں کا بسیرا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).