بھنگ، سوگالی اور حکومت وقت



”Look Amaad, I found a really good reference for u“

ایک دم سے میرے کمرے کا دروازہ کھلنے کے بعد یہ فقرہ میری سماعتوں سے ٹکرایا میرا ہم جماعت، ہاسٹل فیلو اور چرسی دوست سوگالی اپنے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ سجائے اور میرے نسبتاً مذہبی رحجان سے بخوبی واقف مجھ سے مخاطب تھا۔ اس کے ہاتھ میں غالباً فارماکولوجی (Pharmacology) کی کوئی ریفرنس کتاب تھی۔ پورے اطمینان کے ساتھ اس نے کتاب کھول کر میرے سامنے رکھ دی اور ایک پیراگراف کی طرف اشارہ کیا اس پیراگراف میں بھنگ (Cannabis) کے طبی فوائد درج تھے۔

ایک سرسری سی نظر ڈالنے کے فوراً بعد میں نے کہا کہ اس میں کیا خاص بات ہے۔ اس پر سوگالی نے میری توجہ صفحہ نمبر کی طرف مبذول کروائی۔ صفحہ نمبر تھا 786۔ اس کے بعد میری اس کے ساتھ ایک طویل جنگ ہوئی کہ تسمیہ اور 786 کا آپس میں کوئی تعلق نہیں پر جناب نہیں مانے اور اپنی اس بات پر قائم رہے کہ بے شمار صفحات پر مشتمل کتاب میں کسی مخصوص موضوع کا اس صفحہ پر ہونا یقیناً ایک معنی رکھتا ہے۔ اور میرے تمام تر دلائل کو حسب معمول میری بھنگ دشمنی قرار دیا۔

کہیں برسوں بعد ”بھنگ دوست“ حکومتی اقدام کا سنتے ہی میرے ذہن میں یہ واقعہ آیا اور تب سے خود کو کوس رہا ہوں کہ میں ہی جاہل تھا جس نے نا صرف اپنے بھنگی دوست کی حوصلہ شکنی کی بلکہ وطن عزیز کی ترقی میں بھی رکاوٹ بنا۔ کاش میں اس وقت سوگالی کی حوصلہ افزائی کرتا تو آج سوگالی حکومتی ٹیم کا حصہ ہوتا اور ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو تا۔

قارئین کو بتاتا چلوں میرا بھنگی دوست سوگالی اس وقت کرہ ارض کے ایک خوبصورت ملک میں اپنی زندگی ہنسی خوشی بسر کر رہا ہے۔ اور کیمبرج کے اے۔ او لیول کی برکت سے اردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا۔ اس لیے یقیناً وہ یہ کالم نہیں پڑھ پائے گا پھر بھی پوری دیانت داری کے ساتھ میں اس کی عرفیت (Nickname) استعمال کر رہا ہوں۔ نہیں تو آپ سب ان بشیر صاحب سے تو واقف ہیں جو پہلے چرسی تھے اب پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ یقین جانیے سوگالی اور اس کی بھنگی منطقوں پہ لکھنے بیٹھوں تو ایک کتاب شائع ہو سکتی مگر میں سوگالی کی اتنی محنت سے کی ہوئی ریسرچ اس کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کر سکتا اس لئے میں سوگالی کی چرسی زندگی کے چند ایک واقعات ہی گوش گزار کروں گا۔

مجھے بہت اچھے سے یاد ہے کہ ہمارے فائنل پروف کے امتحانات کے دوران سوگالی کا چرس کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔ موصوف پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے اور انتہائی رازداری سے بتایا کہ یار ”stuff“ (چرس کا کوڈورڈ) ختم ہو گئی۔ اور کسی دوست کے پاس بھی نہیں ہے اور اوپر سے امتحانات۔ میں فوراً سے پوچھا کہ ادھار پیسے چاہئیں۔ کہتا نہیں یار چرس مل ہی نہیں رہی اس وقت پورے لاہور میں کریک ڈاؤن ہو رہا ہے اور سارے ”سپلائرز“ انڈر گراؤنڈ ہو چکے ہیں۔

(جی ہاں وہی پری پلان کریک ڈاؤن جو ہر چھ ماہ بعد ہوتا ہے)۔ چونکہ امتحانات کے دوران ہمارے پاس ایک لمحہ نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے میں سوگالی کی دادرسی نہ کر سکا اور بس مشورہ دیا کہ کوشش کرو شاید مل جائے۔ اس کے بعد میں پرچے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ قصہ مختصر۔ چرس نہ ملی۔ اور سوگالی نے پرچے سے آدھا گھنٹہ پہلے بتایا کہ میں پرچہ نہیں دے سکتا میری حالت غیر ہے۔ ہم دو دوستوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ سوگالی کو لے چلیں پر وہ نہ مانا اور یوں اپنی زندگی کا قیمتی وقت برباد کر بیٹھا۔ حاصل گفتگو۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد مجھے خوشی ہوئی ہے کہ اب کسی ”سوگالی“ کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہو گا پر دل میں ایک کھٹکا سا بھی لگا ہے کہ اگر حکومت وقت کی ”stuff“ مک گئی تو پھر کیا بنے گا۔

سوگالی کا ہر dose لینے کے بعد جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا اس کی دوراندیش گفتگو بالخصوص مستقبل کی منصوبہ سازی کمال ہوتی تھی۔ ایک جولائی کی تپتی سہ پہر سوگالی بھرپور خوراک (heavy dose) کے بعد میرے پاس آیا اور ٹیبل ٹینس کھیلنے کی فرمائش کی جو حسب معمول میں نے قبول کر لی۔ سوگالی نے تمام تر داؤ پیچ لگائے مگر 0۔ 3 سے ہارگیا۔ ہارنے کہ بعد سوگالی نے بھنگ کے بھرپور نشے میں مجھے کہا عماد میری یونیورسٹی لائف کے بس دو مقاصد ہیں ایک کسی لڑکی سے شادی کرنا اور دوسرا گریجویشن سے پہلے تمہیں ٹیبل ٹینس میں شکست دینا۔ یہ الگ بات کہ سوگالی کے دونوں مقاصد پورے نہ ہو سکے۔ میں پچھلے کچھ برسوں سے جب جب خان صاحب کو پورے جذبے کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ سازی کرتے دیکھتا ہوں تو سوگالی یاد آ جاتا ہے۔ شاید یاران جہاں ٹھیک کہتے ہیں۔

اکثر و بیشتر سوگالی کی بھنگ بارے تحقیقات سننے کا موقع ملتا تھا اور یہ بھی سوگالی کی ہی بدولت پتہ چلا کہMarijuana، Weed، Hash، Hemp، Ganjaبھنگ کے متبادل نام ہیں ورنہ میرا علم تو Cannabis اور مقامی نام بھنگ تک محدود تھا۔ اور چرس بھنگ کا extract ہوتی ہے اور ہم پاکستانی جسے درویشوں کا مشروب کہتے ہیں وہ دراصل بھنگ کے سرسبز پتوں سے تیار ہوتا ہے۔ اور بیری بھنگ کے خشک پتوں سے بنتی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے بھنگ کے انگ انگ میں نشہ ہے۔ بھنگ پینے کے بعد ہر چیز اپنے حجم سے کہیں بڑھی دیکھتی ہے۔ شاید ایسے ہی ہماری معیشت بہتر دکھنے لگے۔

سوگالی بھنگ کے طبی اور تفریحی مقاصد ( Recreational purposes) کے لئے استعمال پر اکثر لیکچر دیتا تھا جب کہ میں زمانہ طالب علمی سے ہی اس بات کا قائل ہوں کہ پاکستانیوں کو اگرrecreational activities کے مواقع دیے جائیں تو نہ ہی منصوبہ سازی کی ضرورت پڑے اور نہ ہی خاندانی منصوبہ بندی کی۔ کچھ دن پہلے چودھری فواد صاحب کو ایک نجی چینل پر بھنگ کے فوائد بتاتے ہوئے دیکھا یقین جانئیے سوگالی کا تلملاتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ گیا اور میرے ذہن میں آج بھی وہی جواب تھا جو سوگالی کے لیے ہوتا تھا کہ ابھی تو صرف ریسرچ ہو رہی وہ بھی بھنگ کے کچھ alkaloids پر مثال کے طور پر TetrahydrocannabinolC اور Cannabidiol۔

کیوں نہ ہم ان چیزوں پر توجہ دیں جن کے طبی فوائد ثابت ہو چکے ہوں۔ (ہاں البتہ اب بھنگ مرگی (Epilesy) کی دو اقسام Dravet Syndrome & Lennox۔ Gastaut Syndromeکے لیے FDA Approvedہے۔ ) بس پھر سوگالی کتابی باتیں چھوڑ کر کہتا تھا کہ تم نے جون کی تپتی دوپہر میں سڑکوں (لاہور کی) پر پڑے مطمئن فقیر تو دیکھے ہیں یہ بھی بھنگ کا کمال ہے۔ تب میں ہنس دیتا تھا اور بحث ختم۔ اب مجھے لگ رہا ہے کہ حکومت وقت کی بھی یہی معصومانہ خواہش ہے کہ پوری قوم بھنگ پی کر ایک مطمئن نیند سو جائے۔

باقی جو چودھری صاحب نے معاشی فوائد بتائے ’زمانہ طالب علمی تک سوگالی کی تحقیق اس بارے خاموش تھی (کیونکہ ابا جی سے جیب خرچ ملتا تھا) اب تو سوگالی یقیناً اس پہلو پر بھی کافی تحقیق کر چکا ہو گا اس لیے میری ایک ادنیٰ سی خواہش ہے کہ اگر حکومت وقت اپنے بھنگی اقدامات کی دن دگنی، رات چوگنی ترقی چاہتی ہے تو سوگالی کو معاون خصوصی برائے بھنگ تعینات کیا جائے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سوگالی باقی درآمد شدہ معاونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان کی ”خدمت“ میں لگ پڑے گا۔

ایک ماہ قبل مجھے وٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا کہ سوگالی کو اچانک دل کا درد اٹھا ہے اور اب ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ایک دم شدید پریشانی ہوئی کہ اتنی سی عمر میں دل کی بیماری۔ خیر کچھ دنوں بعد ہی سوگالی صحت یاب ہو کر گھر آ گیا۔ دل کو اطمینان ہوا اور سوگالی سے طے پایا کہ اس اتوار کو تفصیلاً بات ہو گی۔ اتوار کے روز وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے جب کال کی تو سوگالی نے فون اٹھاتے ساتھ ہی فوراً سے دو باتیں کیں۔ پہلی یہ کہ میری بیوی گھر پہ نہیں تو ایک دوست میری جوانہ (marijuana) لے کر آ رہا ہے جس کی وجہ سے زیادہ بات نہیں ہو پائے گی۔ اور دوسری یہ کہ تھا تو Myocardial infarction (دل کی ایک بیماری جس میں رگوں کی بندش کے باعث دل کے نسیجے بیکار ہو جاتے ہیں ) پر مجھے یقین ہے کہ میری جوانہ کے سیگریٹ پینے سے بہتر ہی ہوگا۔ میرے ہم وطنو! اب مجھے ایک خوف کھائے جا رہا ہے کہ حکومت وقت ہر مرض کی دوا بھنگ نہ تجویز کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).