نوجوان طالب علموں کے مسائل


1945۔ 46 کے الیکشنز جیتنا یا ہارنا مسلم لیگ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ اگرچہ قائداعظم اور مسلم لیگ نے 1940 کے بعد ہی نوجوانوں کو اپنی ٹارگٹ آڈئینس بنا لیا تھا اور وہ انہیں دو قومی نظریہ اور پاکستان بنانے کی ضرورت و اہمیت زمینی حقائق کے ساتھ سمجھا رہے تھے اور نوجوانوں کو اپنے علاقوں میں اس کی کمپین کرنے کا ٹاسک دے رہے تھے ’مگر ان الیکشنز کی خاص بات یہ تھی کہ اگر مسلم لیگ کانگریس سے یہ الیکشنز ہار جاتی تو برطانوی حکومت کے سامنے اپنا یہ موقف کہ وہی مسلمانوں کی ترجمان جماعت ہے‘ ہار جاتی۔ لہٰذا قائداعظم نے اپنے آخری تین چار سال اپنا پیغام گلی گلی پھیلانے کے لیے طلباء کا خاص استعمال کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد بول دیا کہ اب وہ کمپینز کی بجائے اپنی تعلیم و تربیت اور ملکی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔

مشرقی پاکستان کے طلباء نے جب بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تو جناح صاحب نے انہیں بنگالی، پنجابی اور بلوچی کے بجائے صرف پاکستانی بننے کا کہہ دیا اور انہوں نے اس سلسلے میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں 3 خطاب بھی کیے۔ قائد بنگالی کو پنجابی یا سندھی کی نوعیت کی علاقائی زبان سمجھتے تھے لیکن تاریخ نے بعد میں ثابت کیا کہ بنگالی قوم اسے محض علاقائی زبان سے بڑھ کر سمجھتے تھے اور اس کا وہ وہی درجہ چاہتے تھے جو اردو کو حاصل تھا۔

دنیا میں لیڈرز کو شہرت تبھی ملتی ہے جب وہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ بھٹو نے بھی یہی کیا ’انہوں نے سوشلزم اور اسلام جیسے انقلابی تصورات کو عملی طور پر آزمانہ شروع کر دیا لیکن اسلام والے تصور کی ایک ملائی اور انتہاپسندی والی شکل ضیاء دور میں سامنے آئی۔

ضیاء الحق دور کے بعد پاکستان کے نوجوانوں میں جس چیز کی کمی آئی ہے وہ تحقیق کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ہے جنہیں بھول چکا ہے کہ محمد ﷺ نے اپنا پیغام نسل در نسل پہنچانے کا حکم دے کر فرمایا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ آخری زمانے کے لوگ اسے تم (اس وقت کے عرب) سے بہتر سمجھ جائیں۔ لہٰذا یہ طبقہ آخری زمانے کو صرف فتنہ سمجھتا ہے۔ دین کی تنہا حجت محمد ﷺ کی ذات ہے مگر یہ ایک ایسا گروہ ہے جو صحابہ کرام، اولیاء اور اسلامی تاریخ کی کچھ بڑی ہستیوں کے علم ’فیصلوں اور اجتہاد پر تحقیق کرنے اور ان کا پس منظر دیکھ اور سمجھ کر کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے انہیں سیدھا دین کا حصہ سمجھتا ہے۔

یہ طبقہ تحقیق کا مخالف ہے اور اسے گمراہی کا دروازہ سمجھتا ہے۔ اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ تحقیق کا حکم دیا ہے مگر ان کے مطابق ان کے بڑے ایسے فیصلے کر گئے ہیں جن پر یہ نہ تحقیق کریں گے اور نہ ان کے علم پر تنقید برداشت کریں گے۔ یہ ایک چھوٹا سا گروپ تھا جو کہ اپنا علم جذبات، بد تمیزی اور ڈنڈے کے زور پر پیش کرتا تھا اور ترقی پسند نوجوان ان کے سخت مخالف تھے۔ مگر ضیاء دور کے بعد یہی گروپ پاکستان میں دین اور مذہبی فکر کا ٹھیکیدار ہے اور اس نے تحقیق اور ترقی کے سارے دروازے مقفل کر رکھے ہیں۔ آج اگر مذہب پر ڈاڑھی والے اور ریاست پر وردی والے کی اجارہ داری ہے تو بس اس حادثے کی وجہ سے ہے جو 1977 میں ہوا تھا۔

چند دن قبل اس گمنام طالب علم کو پنجاب کی سیاسی پارٹیوں کے 2018 کے Election Manifesto کے Youth Section پر تبصرے کے لیے بلایا گیا تو ناچیز نے 4 پوئنٹس اٹھائے جس میں اوپر رویا گیا رونا چوتھے نمبر پر رویا گیا۔

باقی 3 پوائنٹس میں سب سے پہلے ناچیز نے دیہاتوں کا مسئلہ پیش کیا۔ PTI نے اپنے الیکشن مینی فیسٹو کے صفحہ نمبر 48 پر لکھا ہے کہ وہ دیہاتوں میں ترقیاتی پروگرامز شروع کروانے کے لیے لوکل گورنمنٹ باڈی کے نوجوانوں کے ذریعے دیہاتوں میں ترقیاتی کام شروع کروائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحب اقتدار لوگ مقامی حکومتوں اور نوجوانوں کے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر اعتبار ہی نہیں کرتے لہٰذا ہمارے دیہات اور دیہاتی ’شہروں کے مقابلے میں ویسے ہی رہیں گے جیسے کارپٹ کے نیچے مٹی رہتی ہے۔

طالب علم نے اپنے گاؤں کی مثال بھی پیش کی۔ پنجاب کے ضلع پاکپتن کے گاؤں 60 SP میں آج بھی سالوں پرانا ایک ہی پرائمری سکول ہے۔ سکول میں 3 کمرے ہیں جبکہ 6 کلاسز کے 312 بچے اس میں زیر تعلیم ہیں۔ ایسی پڑھائی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گاؤں کا واحد بچہ جو یونیورسٹی لیول پر پڑھ رہا ہے وہ یہ ناچیز ہے کیونکہ اسے اس کے والدین نے شہر میں اچھی تعلیم دلوائی۔

دوسرا پوائنٹ تھا انٹرن شپ کے مسائل کا۔ ہمارے ملک میں محض % 4 طلباء یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم پاتے ہیں اور اس میں سے بھی ایک بڑی تعداد ایسے طلباء کی ہوتی ہے جو پڑھائی کے ساتھ کوئی نہ کوئی کام کرتے ہوتے ہیں۔ مقصد سب کا اپنے فیلڈ کا تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب میڈیا انڈسٹری ہی لے لیجیے۔ اس میں آپ کیریئر کے آغاز میں پیسہ نہیں کما سکتے چاہے آپ کتنے ہی تیس مار خان کیوں نہ ہوں۔ سو بہت سے لوگ اپنے فیلڈ سے ہٹ کر کام کرتے ہیں تاکہ وہ کماتے رہیں اور سب کو یہ کمائی اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے کیونکہ سب کو سکولرشپس بھی نہیں ملتے۔ اگر طلباء کو Paid Internships ملیں تو سب اپنے فیلڈ میں کام کر کے ہی کما سکتے ہیں۔ اس سے ان کی تعلیم بھی جاری رہے گی اور فیلڈ کا کام سیکھنا بھی۔ حکومت کو میڈیا سمیت ہر فیلڈ کے اداروں کے لیے یہ قانون بنانا چاہیے کہ وہ طلباء سے مفت کام نہ کروائیں اور بدلے میں کچھ نہ کچھ ضرور دیں۔

تیسرا پوائنٹ یونیورسٹی اور مدرسوں کے نصاب اور رائج نظام تعلیم کا تھا۔ ہمارے مدرسوں میں ایسا دینی فکر پڑھایا جا رہا ہے جو منجمد اذہان پیدا کرتا ہے اور یہ لوگ تحقیق کے مخالف ہوتے ہیں۔ اگر مدرسوں کو سکولوں کالجوں میں ضم کرنا بھی ہے تو علماء کرام ایسے سلیکٹ کرنے ہوں گے جو جدید دور کے مطابق دینی فکر کو سائنسی اصولوں کے مطابق پڑھائیں اور تقلید اور رٹے سے پرہیز کیا جائے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں میں پروفیسر حضرات کے پاس کچھ ایسے اختیارات ہیں جن سے وہ طلباء کی حاضری سمیسٹر کے اینڈ پر گنتی میں بڑھانے یا کم کرنے سمیت انہیں پاس یا فیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارے طلباء صرف اساتذہ کی خوشامد کرتے رہتے ہیں اور بحث اور گفتگو سے دور رہتے ہیں۔ یہ چیز بھی تعلیم و تربیت کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).