زندگی کی تذلیل کا ایک اور دلخراش واقعہ


گوجرانوالہ کی رہائشی خاتون کے ساتھ درندگی کا جو انسانیت سوز اور دل سوز واقعہ پیش آیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، نہ ہی یہ پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ یہ آخری واقعہ ہوگا (ہماری دعا ہے کہ یہ واقعہ آخری ہو، اس کے بعد ایسا دلخراش واقعہ کسی کے ساتھ بھی پیش نہ آئے) ۔

لوگ مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، بالکل مجرموں کو سزا ملنی چاہیے اور سخت سزا ملنی چاہیے، مختاراں مائی، ڈاکٹر شازیہ اور ملالہ مومند اس عورت سے زیادہ بدنصیب تھیں اس لئے کہ ان عورتوں کو ملک کے حکمرانوں اور عوام کی اکثریت کی طرف سے لعن طعن بھی کیا گیا تھا۔

اگر ہماری یاداشت کمزور نہیں تو ہمیں یاد ہوگا کہ ایک واقعہ مختاراں مائی کے ریپ کا بھی ہوا تھا، اس نے جب جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھائی تو اس کو سپورٹ کرنے کے لئے اس کے ساتھ کتنے لوگ کھڑے تھے؟ ایک واقعہ ڈاکٹر شازیہ کی ریپ کا بھی ہوا تھا جس پر بوڑھے بلوچ نواب اکبر بگٹی نے سٹینڈ لیا تھا اور کہا تھا کہ یہ جرم بلوچ سرزمین پر ہوا ہے اس لئے مجرم کو ہم بلوچ روایات کے مطابق سزا دیں گے، مگر اس وقت کے حکمران نے مجرم کی پشت پناہی کی، جس پر نواب اکبر بگٹی نے بندوق اٹھائی اور شہادت پائی۔ کتنے پاکستانیوں نے نواب اکبر بگٹی کی حمایت کی تھی؟ ملالہ مومند نے جب اپنی عزت پر ہاتھ اٹھانے والے کو جہنم واصل کیا تو کتنے پاکستانیوں نے اس کی حمایت یا مدد کی تھی؟

ریاست اور عوام دونوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، ملک میں ریپ کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، چھوٹے بچوں سے لے کر مردہ عورتوں کے ساتھ ریپ کے واقعات ہوتے آ رہے ہیں، کچھ واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں کچھ نہیں ہوتے بلکہ کچھ واقعات تو ایسے بھی ہوتے ہیں جس کو بدنامی کے ڈر سے چھپا لیا جاتا ہے، ریپ کے کچھ واقعات تو گھروں کی چاردیواریوں میں بھی سننے کو ملے ہیں، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں خواہ وہ مسجد/دینی مدرسے ہو یا سکول، کالج یا یونیورسٹی ہو، دفاترہو، ہسپتال یا کوئی اور ادارہ، کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہاں کسی کا جنسی استحصال نہ ہوا ہو، سوال یہ ہے کہ آخر یہ جنسی درندگی سماج اور ریاست کے ہرادارے میں کیوں پائی جاتی ہے؟

کہنے کو تو ہم جب بات کرتے ہیں تو مشرقی تہذیب کو اخلاقیات کا منبع قرار دیکرمغربی تہذیب پر لعن طعن کرتے ہیں لیکن جب اخلاقیات کے عملی مظاہرے کی بات آتی ہے تو ہم اپنے سماج میں ذلت اور پستی کے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات دیکھتے ہیں جس کے تصور سے بھی انسان کی روح کانپ اٹھے۔ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ ہماری ریاست اور سماج مجموعی طور پر اخلاقی گراوٹ اور پستی کا شکار ہے جس کی ٹھوس وجوہات تلاش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

جب بھی کبھی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہم سطحی اور جذباتی طور پر غم و غصے کا اظہارکر دیتے ہیں مگر اس مسئلے کو مسئلے کے طور پر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ صرف مذمت کرتے ہیں اور مجرموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس مسلے کی بنیادیں جنسی گھٹن زدہ نفسیات ہیں جس کو ختم کرنے کے لئے جنسی تعلیم و تربیت بنیادی قدم ہوگا۔ میرے خیال میں جنسی تعلیم و تربیت سے جنسی حیوانی جبلت کو کنٹرول کرنے اور اسے شعوری اور اخلاقی بنیادوں پر استعمال کرنے کے مقصد کا حصول ہوگا۔ اس کے بعد قانون اور سزا کا نفاذ بھی جنسی استحصال کے واقعات کو کم کرنے میں ممدو ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).