کلچر کیسے تبدیل ہو گا؟


ہم صبح و شام یہ واویلا کرتے ہیں کہ ہمیں سرکاری و نجی اداروں کا کلچر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تھانوں کے اندر موجود پولیس ہماری عوام کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ ہمارے سرکاری اہل کار عوام کے خادم بنیں نہ کہ مخدوم کے عہدے پر فائز رہیں۔ ہمارے سول سرونٹس خدمت میں عظمت تلاش کریں اور صرف اپنی پروموشن اور نفع بخش پوسٹنگ ہی کے لیے دوڑ دھوپ نہ کرتے رہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ کلچر کی تبدیلی وادی سے پربت کی چوٹی تک پہنچنے کا عمل ہے۔ کلچر کا مفہوم کافی وسیع ہے۔ کلچر انداز فکر کا نام بھی ہے اور طرز معاشرت بھی اسی میں شامل ہے۔ کلچر کے اندر مذہبی و دیو مالائی تصورات بھی جڑ پکڑ لیتے ہیں اور انسانی تعصبات کا خمیر بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ مقتدر قوتوں کا اختیار بھی کلچر کے مختلف رنگوں کی تشکیل کرتا ہے۔

کلچر کے درج بالا مفہوم کی روشنی میں آپ جان چکے ہوں گے کہ کلچر کی تبدیلی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کلچر کی تبدیلی کو بھاری پتھر کی طرح چوم کر ایک طرف رکھ دیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کلچر تبدیل ہو سکتا ہے اگر ہمارے ملکی اور ادارہ جاتی لیڈروں کی تمناؤں کا مرکز تبدیل ہو جائے کیونکہ کلچر ہمیشہ لیڈر کا سایہ ہوتا ہے۔

ایک ادارے کا سربراہ یا ایک کاروباری کمپنی کا مالک اپنے فیصلوں، ترجیحات اور اپنی اقدار سے اپنے ادارے یا کمپنی کا کلچر تشکیل دیتا ہے۔ لوگوں کی توجہ ہمیشہ با اختیار لیڈروں کی جانب مبذول رہتی ہے۔ کسی بھی ادارے کے ملازمین اپنے سے اوپر والوں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ مچھلی اپنے سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے اور تاج پوشی کے لیے بھی سرکا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔

انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عوام الناس جو انقلاب لے کر آئے اسے استحصالی قوتوں نے اپنے عہد طفولیت میں ہی اغوا کر لیا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ عوامی انقلاب انتقام در انتقام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گیا اور مثبت تبدیلی دیوانے کا خواب بن گئی۔ بامعنی انقلاب کی اولیں شرط یہ ہے کہ ہر انقلابی نرگسیت کے مرض سے شفایاب ہو کر انقلابی تحریک کا حصہ بنے ورنہ جلد یا بدیر وہ خود بھی استحصالی قوتوں کا آلہ کاربن کر رد انقلاب کا پیا مبر بن جائے گا اور کلچر کی تبدیلی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).