دوسرے بوٹ کی چاپ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان کے دروازے پر ایک مرد بزرگ نے دستک دی کہ شکل سے بہت شریف دکھائی دیتا تھا۔ دروازہ کھلنے پر بزرگ یوں گویا ہوا کہ ایک مرد جواں، تو روز شام کو رنگین تر کر کے رات گئے اپنے فلیٹ پر واپس آتا ہے اور پھر زور سے اپنے بوٹ اتار کر فرش پر مارتا ہے۔ اے مردک، یہ فقیر کہ تیرے نیچے والے فلیٹ میں رہتا ہے، تیرے اس عمل سے یہ ضعیف جس کا دل پتہ کھڑکنے سے دہل جاتا ہے، رات تین بجے جاگ اٹھتا ہے اور پھر بوٹ کی آواز سن کر گھنٹہ بھر کی کوشش کے بعد دوبارہ دھڑکنوں پر قابو پا کر سو سکتا ہے۔ اس جان ناتواں پر رحم کر۔ اور آرام سے جوتا اتارا کر۔
جوان رعنا یہ سن کر نہایت نادم ہوا اور بولا ’اے بزرگ باراں دیدہ۔ تونے مجھے نہایت شرمسار کر ڈالا ہے۔ آئندہ تجھے یہ شکایت ہرگز نہ ہوگی‘۔
یہ کہہ کر اس نے کھٹاک سے دروازہ بند کر دیا اور بزرگ اپنی ناک سہلاتا ہوا واپس اپنے ہجرے میں واپس پہنچا۔
اگلی رات وہ نوجوان شرفا کی طرح تین بجے واپس اپنے فلیٹ پر پہنچا۔ ایک بوٹ اتارہ، اور حسب عادت ٹھک سے فرش پر ٹھوک دیا۔ ایک عجب دل آویز گونج پیدا ہوئی۔ تس پہ اس کو مرد ضعیف کا خیال آیا اور اپنا وعدہ یاد آیا۔ وہ عہد شکنی پر نادم ہوا اور دوسرا بوٹ اتار کر آہستہ سے فرش پر رکھ دیا۔
اگلی صبح دوبارہ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہی مرد ضعیف دروازے پر موجود تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور منہ سوجا ہوا تھا۔ جوانِ رعنا یہ دیکھ کر خوش ہوا اور اس نے جانا کہ شدت تشکر سے اس مرد ضعیف کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے اسے کوئی جوان نہ ملا ہوگا جو بزرگوں کا اتنا خیال رکھتا ہو۔ اس نے بزرگ سے پوچھا ’اے بزرگ صد سالہ۔ اب تو تو خوش ہے؟ اس ناچیز نے تیرے کہے کی لاج رکھی اور جہاں میں اپنا نام روشن کیا‘۔
بزرگ روہانسی آواز میں گویا ہوا ’اے مردک، تونے اس ناتواں کی جان پر بہت ظلم کیا۔ یہ فقیر ساری رات جاگ کر تیرے دوسرے جوتے کا انتظار کرتا رہا تاکہ پھر دل کو قابو کر کے سو سکے۔ اب مہربانی کر اور دوسرا جوتا بھی آنے دے کہ کسی چیز کا خوف اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک معاملہ سر پر نہ آن پڑے‘۔
صاحبو، آج جنرل راحیل شریف رخصت ہوئے اور جنرل قمر باجوہ آ گئے ہیں۔ ہمارا خوبرو و شریف جوان بھی اب دوسرا بوٹ دیکھنے کا منتظر ہی ہوگا اور پھر سوچے گا کہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے۔
اندازہ یہی ہے کہ یہ پاکستان کے لئے بہت بہتر ہوا ہے۔ اب سیاسی حکومت کو معاملات کا کنٹرول دیا جائے گا، خاص طور پر خارجہ معاملات کا اور مودی اور افغانستان سے نمٹنے میں سیاسی حکومت کافی حد تک آزاد ہو گی۔ مگر جب تک کچھ ہوتا دکھائی نہ دے، ہم دل تھام کر منتظر ہیں کہ دوسرے بوٹ کی چاپ کب سنائی دیتی ہے۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).