موٹروے ریپ کیس: ڈی این سے ملزم کی شناخت ہو گئی: میڈیا رپورٹس


سما نیوز اور دوسرے میڈیا سورسز کے مطابق لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے ریپ کے کیس میں ڈی این اے کی مدد سے ایک ملزم کی شناخت کر لی گئی ہے۔ اس کا پہلے بھی ڈکیتی اور ریپ کا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔

سما نیوز نے مندرجہ ذیل خبر دی ہے:۔

لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے کیس میں ڈی این اے کی مدد سے ایک ملزم کی شناخت کر لی گئی۔
ذرائع کے مطابق بہاولنگر کے رہائشی ملزم عابد کا ڈی اين اے ميچ ہوگيا ہے جبکہ ملزم کا ڈی اين اے جائے وقوع پر 3 مقامات سے ملا۔

پرانے ريکارڈ سے ملزم کا ڈی اين اے ميچ کرگيا ہے، ملزم نے 2013 ميں ماں بيٹی سے بھی بہاولنگر ميں زيادتی کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گاڑی کا شيشہ بھی عابد نے توڑا اور متاثرہ خاتون کے لباس سے بھی ملزم کا ڈی اين اے ملا جبکہ گاڑی پر بھی ملزم کے خون کے نمونے ملے۔

پولیس نے واقعے کی تحقیقات کے دوران 53 افراد کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے تھے۔

فرانس سے چھٹیوں پر پاکستان آئی خاتون کو لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے راستے میں نامعلوم ملزمان نے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور قیمتی سامان بھی چھین کر فرار ہوگئے جس میں ایک لاکھ نقدی، زیورات اور ڈیبٹ کارڈ و دیگر دستاویزات شامل تھیں۔

تھانہ گجرپورہ پولیس کے مطابق واقعہ 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی شب ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ لاہور سے براستہ سیالکوٹ موٹروے گجرانوالہ جا رہی تھی۔ راستے میں پیٹرول ختم ہوا تو خاتون نے گاڑی روک دی۔ اس دوران دو نامعلوم افراد آئے اور خاتون کو بچوں سمیت قریبی کھیتوں میں لے گئے۔

ملزمان نے پہلے خاتون کا زیادتی کا نشانہ بنایا اور جاتے ہوئے ایک لاکھ روپے بھی چھین کر فرار ہوگئے۔

دوسری جانب لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ نے خاتون کو ہی قصور وار قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز اس واقعے پر نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کہا کہ ’یہ خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے نکلی ہیں، گوجرانوالہ جانے کیلئے، میں پہلے تو یہ حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں، آپ سیدھا جی ٹی روڈ پر جائیں جہاں آبادی ہے، وہاں سے گھر چلی جاؤ‘۔
سی سی پی او نے مزید کہا کہ ’اگر آپ اس طرف سے (موٹروے) نکلی ہو تو کم از کم اپنا پیٹرول چیک کرلو، اس طرف پٹرول پمپ نہیں ہوتے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).