بین الافغان مذاکرات، پاکستان اور انڈیا سمیت تمام ملکوں کا مثبت ردعمل


افغان مذاکرت دوحہ

افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات شروع ہونے پر پوری دنیا سے مثبت رد عمل سامنے آ رہا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں سمیت خطے کے تمام ممالک کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

افغانستان پر سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد اور اس سے قبل بھی افغانستان کے سرحدی ہمسایہ ملکوں ایران اور پاکستان کے علاوہ انڈیا، چین اور خلیج کی ریاستیں جو بلاواسط یا بلواسط افغانستان کی لڑائی میں کسی نہ کسی طرح شریک رہے سب نے دوحہ میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات پر اپنے پیغامات میں افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن قیام ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

مزید پڑھیے

مذاکرات نہ ہونے کا زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا: طالبان

بین الافغان مذاکرات کی راہ میں حائل طالبان قیدی کون ہیں؟

ڈونلڈ ٹرمپ: ’افغان امن مذاکرات مکمل طور پر ختم ہو چکے‘

انڈیا اور پاکستان جن کی باہمی چپکلش اور کھنچا تانی افغانستان کی سرزمین پر بھی جاری رہی ان دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے دوحہ میں ہونے والے اجلاس میں مواصلاتی رابطے کے ذریعے خطاب کیا۔

پاکستان کا رد عمل

https://twitter.com/SMQureshiPTI/status/1304690979484528640

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ‘ویڈیو لنک’ کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی وقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغان قوم کی طرف سے امن کی تلاش میں کی جانے والے کوششوں میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں قیام امن کے لیے ایک چار نکاتی لالحۂ بھی پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہے کہ:

  • وہ افغان قیادت کی سربراہی اور ‘حاکمیت’ میں شروع کیے گئے امن قائم کرنے کے عمل کی حمایت جاری رکھیں۔
  • اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کے لوگ ماضی کے پرتشدد دور کا دوبارہ سامنا نہ کریں اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین ایسے عناصر استعمال کر سکیں جو اس کی سرحدوں کے باہر دوسروں کو نقصان پہنچا سکیں
  • افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کے لیے اس سے قریبی اور دیرپا معاشی روابط قائم کریں
  • افغان مہاجرین کی معین کردہ مدت میں وطن واپسی کا منصوبہ تشکیل دیں جس کے لیے مناسب مالی وسائل بھی دستیاب کیے جائیں تاکہ یہ لوگ اپنے گھروں کو باعزت اور باوقار طریقے سے واپسی کا راستہ اختیار کر سکیں۔

انہوں نے پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ قیام امن، ترقی اور سلامتی کے سفر میں پاکستان افغانستان کے لوگوں سے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔

انہوں نے اس امن عمل میں رخنہ اندازوں کی طرف سے خلل ڈالنے کے بارے میں بھی خبردار کیا اور کہا کہ یہ اس کا ایک ‘کڑے چیلنج’ کے طور پر سامنا رہے گا۔

انڈیا کا رد عمل

انڈیا کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی ہفتے کو ٹیلی کانفرنس کے ذریعے دوحہ میں جاری اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے عمل میں افغانستان کی خودمختاری اور خغرافیائی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امن کے اس عمل میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسداری کی جانی چاہیے، خواتین، اقلیتوں اور کمزور طبقعوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے اور ملک بھر جاری تشدد کو موثر طور ختم کیا جانا چاہیے۔

اپنے خطاب کا خلاصہ اپنے ٹوئٹر پیغامات میں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈیا کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ افغانستان میں شروع ہونے والی امن کی کوششیں کی قیادت افغانستان کے لوگ کریں، ان کے پاس ہی اس کا اختیار ہو اور وہ ہی ان کو چلائیں۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان دوستی کے رشتہ کی گواہ تاریخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کی طرف سے افغانستان میں جاری کردہ 400 سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں سے افغانستان کو کوئی کونا محروم نہیں ہے۔

ایران کا رد عمل

غیر ملکی افواج کی موجودگی جنگ جاری رکھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

بی بی سی پشتو سروس کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں قطر اجلاس کا خیر مقدم کیا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران افغانستان میں سیاسی جماعتوں اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔

ایرانی حکومت کو امید ہے کہ یہ بات چیت غیر ملکی مداخلت کے بغیر افغان عوام کے طے شدہ اہداف کو حاصل کرے گی اور خطے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سلامتی میں بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان جنگ کا فوجی حل ناممکن تھا اور بات چیت کے ذریعے جنگ کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی جنگ جاری رکھنے کی سب سے بڑی وجہ تھی اور غیر ملکی فوج کو ذمہ داری کے ساتھ افغانستان سے چلے جانا چاہئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکومت افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہر حال میں افغان امن عمل کی حمایت کرتی ہے اور انتخابی مہم کے دوران امریکہ کی جانب سے “افغان امن” نام کے استعمال کی شدید مذمت کرتی ہے۔

قطر کے وزیر خارجہ کا بیان

قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان بن جاسم التہانی جن کا ملک اس کانفرنس کی میزبانی کر رہے ہے انہوں نے طویل عرصے سے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار گروہوں سے کہا کہ وہ وقت کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنے اختلاف کو بھلا کر ایک معاہدے پر پہچنے کے لیے حتمی فیصلہ کریں جو فاتح اور مفتوح کی بنیاد پر نہ کیا جائے۔

صدر کرزئی کا ردعمل

’مجھے امید ہے کہ قطر کے مذاکرات پائیدار امن کی شروعات ہوں گے۔‘

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے قطر میں مذاکرات کے جواب میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور طالبان اسلامی تحریک کے نمائندوں کے مابین باضابطہ مذاکرات خوشخبری اور امید و مسرت کا باعث تھے۔

اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے مسٹر کرزئی نے فیس بک پر لکھا ، ’یہ پائیدار امن و استحکام اور افغان عوام کے دکھوں کو ختم کرنے کا ایک حقیقی موقع ہے۔‘

صدر کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے عوام دوحہ میں مذاکرات کرنے والی جماعتوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ملک کے پائیدار امن ، سلامتی اور استحکام ، قومی اتحاد کو مضبوط بنانے اور افغانستان کی مسلم قوم کے مفادات کے لیے اپنی اسلامی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس کریں گے۔ ایک معاہدہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا ، “تاریخ کے اس نازک موڑ پر ، ہمارے پیارے ملک میں امن اور سلامتی تمام ممالک کی ترجیح ہے۔” ایک ایسا امن جو طویل مدتی غیر ملکی مداخلت کو ختم کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp