رب کائنات عورت کو صنف نازک نہ بنا


زیادتی کیسا لفظ ہے سوچا جائے تو بہت سے پہلو نکلتے ہیں اور روزمرہ گفتگو میں اس کا استعمال مختلف نوعیت سے لیا جاتا ہے لہٰذا جتنی آپ کی سوچ کی گہرائی یا آپ کا اپنے ماحول کے حالات سے تجربہ ہو گا اتنا آپ سوچ سکیں گے، جیسے کسی نے آپ کا حق مارا ہو یا کسی نے آپ کی کوئی قیمتی چیز آپ کے سامنے نوچ ڈالی ہو۔ میں ہمیشہ زیادتی کے واقعات پہ ہونے والی بحث میں شامل ہونا تو دور کچھ بھی کہنے، رد عمل دینے، شور مچانے، سب سے دور رہی ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ ہوتا کیا ہے۔ میڈیا کو بس ایک نیا موضوع ملتا ہے اور معاشرے کو اپنا گریبان چھوڑ کر ایک منفرد موضوع پہ ہائے ہائے کرنے اور اپنے گلوں شکووں سے کچھ دیر کی فرصت ملتی ہے۔

لیکن آج تک کتنی پیشرفت ہوئی۔ زینب الرٹ بل کا کیا فائدہ ہوا۔ اس کے مجرم کو پھانسی تو ہوئی لیکن اگلے ماہ چھ بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ اگر پھانسی حل ہوتی تو اگلے ماہ ہی اتنے زیادہ کیسز سامنے نہ آتے۔ یہ تو سامنے کے اعداد و شمار ہیں اور نا جانے کتنی ہی ہوں گی جو ڈر سے بولتی ہی نہ ہوں گی کیونکہ ان کو معاشرے سے بھی نہیں اپنے گھر والوں کی سوچ سے بھی ڈر لگتا۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ بھگتنا تو بس اس نے ہے جس نے پہلے ہی یہ عذاب جھیلا ہے۔ اور کردار صرف داؤ پہ نہیں لگا بلکہ سولی پہ چڑھ جاتا۔

جو کل ہوا وہ بھی دو چار دن تک دنیا کے بعد پرانا قصہ ہو جائے گا۔ جب میڈیا کو پتا چلے گا کہ مشہور ایکٹرس نے اپنا ڈریس کس ڈیزائنر سے بنوایا اور کس ایکٹر کے جوتے تک ہیروں سے بنے ہیں۔ ہم سب اس معاشرے کے لوگ ہیں جہاں بولنے والا مجرم ٹھہرتا۔ اس ذہنی مریضوں کے مسکن میں آپ کچھ کہہ کر بھی کون سا تیر مار لیں گے۔ بس بھڑاس ہی نکالنی ہے۔ اور ساتھ ہر گھر میں جو مکھی نما فطرت کے اسکالر بیٹھے ہیں وہ بھی میدان میں اتر کر اپنا فرض با خوبی نبھا رہے ہیں۔ کہ باقی سب گھر بیٹھے ہیں تو وہ کیوں نکلی؟

اب اس کا جرم تو واقعی بہت بڑا ہے جیسا کہ سی سی پی او نے کہا تھا، وہ بھی کیا کرے۔ اب بیچارہ رات کے اس پہر قانون کی پاسداری کروائے یا دن کو جو اس نے قانون کی حفاظت کروائی اس کی تھکاوٹ اتارنے کو چند گھڑی سو لے۔ اور اب اس کے اٹھنے کا بھی فائدہ نہیں اب وہ سو ہی لے۔ کیونکہ اس معاشرے کی ماں تو لٹ ہی چکی۔ سارا معاشرہ ہی اپنی سوچ کی پستی کو قابو میں کیے کنویں میں لئے بیٹھا کہ عورت نکلے ہی کیوں۔ اور خواتین کی کثیر تعداد بھی جوسر شام گھر سے نہیں نکل سکتیں وہ بھی اس عورت کو قصور وار کہہ رہیں کہ خاتون کو آدھی رات کو تین بچوں کے ساتھ ایندھن چیک کیے بغیر ایسا غیر معروف روٹ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اور مرد حضرات کے تبصرے دیکھئے۔
”عورتیں دوپٹے نہیں لیں گی تو یہی ہو گا“
”محرم کے بغیر سفر پہ نکلی کیوں؟“

لیکن رات کے پچھلے پہر گھروں میں سونے والے اور ایسی سوچ رکھنے والے ایک لمحے کو سوچیں کبھی کسی وجہ سے یا مجبوری سے بھی آدھی رات کو نہیں نکلے؟ کیا کبھی انھیں دن ہو یا رات کبھی کسی سنسان جگہ سے گزرنے کا اتفاق نہیں ہوا؟

کب تک اس معاشرے کا رویہ غیر سنجیدہ رہے گا۔ ہر بار بڑے دعوے کرنے والوں کے مصنوعی چہروں کے نقاب سرک رہے ہوں گے اور ہم بے حسی کی اعلی مثال قائم کرنے کو گھر میں دبک کے بیٹھیں گے۔ اور بولنے سے پہلے اپنا دوپٹہ سرکنے کے ڈر سے اپنا منہ بند رکھیں گے۔ اب بات بیٹیوں سے بڑھ کر ماں جیسے رشتے پہ آ ٹھہری ہے۔ اب اور کس چیز کا انتظار کرنا رہ گیا ہے۔ اب تو واقعے ہی بیٹی کی پیدائش پہ ماں کو بھی ماتم کدہ بچھا لینا چاہیے۔ جو ماں بننے کے بعد جنت اپنے قدموں میں سمجھتی تھی وہ تو اس دنیا میں بھی چھوٹی سی غلطی کی بنا پہ دوزخ میں بھیجی جا سکتی ہے۔ جس کا کسی کو ملال بھی نہیں۔

اب ماؤں کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اب بات حد سے نکل چکی ہے۔ اب ماؤں کو اپنی بیٹی کی ایسی ٹریننگ کرنی چاہیے کے مرد سے ثابت قدم رہنا محال ہو جائے۔ اور جوڈو کراٹے کی پوری مہارت حاصل ہو۔ اب خود ہی کچھ کرنا ہے تو اس معاشرے کے مطابق چلنا ہے ورنہ کچلنا تو ان کو خوب آتا ہے۔ اور یہ کچلتے یہ بھی نہیں یاد رکھتے کہ جو تم باہر کھلم کھلا کر رہے ہو وہ تمہارے گھر کی چار دیواری میں بھی ہو سکتا ہے۔

اس مردانہ معاشرے میں عورت یا عورت نما کوئی بھی مخلوق صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہے کہ گھر سے نہ نکلے۔ اگر نکلنا ہے تو مالک کائنات رب ذوالجلال سے دعا کرے کہ وہ اس کی آئندہ آنے والی نسل میں عورت کو صنف نازک نہ بنائے۔ بلکہ تیز دھار بلی جیسے پنجے، سریع الاثر ڈنک اور نوکیلے دانت دے کر نام نہاد مسلم معاشرے میں اتارے۔ اور شاعر کی بھی عورت کو صنف نازک لکھتے روح کانپ جائے۔ا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).