پاکستان میں جرائم اور دہشتگردی کے واقعات کی میڈیا کوریج کیسے ہوتی ہے؟


کیبل چینلز

بریکنگ نیوز، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ، سب سے پہلے، سب سے بڑی خبر، ہر خبر پر نظر، لمحہ بہ لمحہ کی صورتحال، بازی لے گیا، یہ ہے وہ ملزم اور یہ ہے متاثرہ شخص، یہ ان کے اہل خانہ، یہ وہ چند جملے ہیں جو پاکستانی میڈیا پر تواتر سے پڑھنے، دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

توجہ حاصل کرنے کے لیے کوئی چینل بازی لے جاتا ہے تو کوئی سب سے بڑی خبر اور بریکنگ نیوز کے دعوے کے ساتھ سکرین کا رنگ نیلا پیلا کر دیتا ہے۔ چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے رپورٹرز پر بھی دباؤ رہتا ہے اور وہ خود سے بھی نئے نئے طریقے ایجاد کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی کسر رہ گئی ہو تو پھر شام سے شروع ہونے والے ٹاک شوز رات گئے تک تجزیے اور تبصرے دور کر دیتے ہیں۔

واقعات کو منفرد انداز میں پیش کرنے کے لیے کبھی کوئی رپورٹر اہل محلہ کے انٹرویوز شروع کر دیتا ہے کہ ملزم کا رویہ کس طرح کا ہوتا تھا، کوئی قبر میں لیٹ کر تفصیلات دے رہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے کان پکڑ کر لوگوں کو یقین دلا رہا ہوتا ہے کہ وہ جو خبر دے رہا ہے اس پر توبہ بھی فرض ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

موٹروے ریپ کیس: ’دو ملزمان کی شناخت، گرفتاری میں مدد پر 25 لاکھ روپے‘

ریپ متاثرین کو سامنے آنے کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے؟

متنازع شخصیات ٹی وی مہمان کیسے بن جاتی ہیں؟

گجر پورہ واقعے کی میڈیا کوریج: پولیس کی کارروائی پر اثر انداز ہوئی ؟

کچھ ایسا ہی ہوا سنیچر کی شام کو جب لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے کہا کہ لاہور کے قریب موٹر وے پر چار روز قبل ایک خاتون سے ریپ کرنے والے ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے مگر اب تک میڈیا پر قبل از وقت خبریں چلنے سے ملزمان فرار ہو گئے اور پولیس انھیں گرفتار نہیں کر سکی۔

انھوں نے پریس کانفرنس میں ملزمان کی شناخت کی تصدیق بھی کر دی۔

پولیس کا ضابطہ اخلاق تو اپنی جگہ مگر اس پریس کانفرنس کے بعد پاکستان میں میڈیا کے ضابطہ اخلاق کے بارے میں ایک بار پھر کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔

ضابطہ اخلاق پر بحث سے پہلے کچھ سرسری تذکرہ ماضی کے کچھ ایسے واقعات کا جن میں میڈیا کوریج کی وجہ سے بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

لاہور میں مناوا پولیس حملے کی میڈیا پر براہ راست کوریج نے حملہ آوروں کو پولیس کی درست پوزیشن معلوم کرنے میں مدد دی اور یوں اس کوریج سے پولیس کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

سوات میں فوجی آپریشن کے دوران جب ایک نجی ٹی وی چینل نے کچھ فوجیوں کی شناخت ظاہر کی تو نتیجہ ان کی ہلاکت کی صورت میں سامنے آیا۔

مزید پڑھیے

’نفرت انگیز مواد‘ نشر کرنے پر نجی ٹی وی چینل کا لائسنس معطل

پیمرا کی عامر لیاقت اور ان کے پروگرام پر پابندی

راولپنڈی میں کالعدم تنظیم کے شدت پسندوں نے فوجی ہیڈ کواٹر پر حملہ کیا تو مناظر ٹی وی سکرین پر لمحہ بہ لمحہ چلتے رہے، جس سے حملہ آوروں کو بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے میں مدد ملی۔ کوریج کی وجہ سے یہ آپریشن مزید طوالت بھی اختیار کر گیا۔

ایسے ہی کچھ مناظر 2007 میں اسلام آباد میں واقع لال مسجد فوجی آپریشن کے دوران بھی دیکھنے کو ملے جس کا رد عمل ملک کے مختلف علاقوں سے سامنے آیا۔

گذشتہ حکومت کے دور میں فیض آباد کے مقام پر ایک مذہبی جماعت نے دھرنا دیا تو چند دنوں بعد پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کیا۔

میڈیا یہ سب کارروائی براہ راست دکھا رہا تھا۔ اس دوران پتھراؤ سے زخمی ہونے والے پولیس افسران بھی دکھائے گئے، جس کے بعد پیمرا کو چند گھنٹوں کے لیے تمام چینلز کو بند کرنا پڑا۔ تاہم ٹی وی پر آپریشن کے مناظر دیکھ کر باقی جگہوں سے بھی تازہ دم مظاہرین فیض آباد پہنچے اور انھوں نے آپریشن کی جگہ سے پولیس کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

ان واقعات کو نظروں کے سامنے رکھتے ہوئے اب جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے واقعات کی میڈیا کوریج کے لیے کیا ضوابط اور قوانین موجود ہیں۔

پاکستان میں میڈیا کوریج کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

میڈیا کی ضابطہ اخلاق کی ان خلاف ورزیوں پر نظر دوڑانے سے ایک بات جو سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے اب بھی ایسی کئی غلطیوں کو دہرایا جا رہا ہے۔

لاہور کے قریب گجرپورہ کے علاقے میں موٹروے پر ایک خاتون سے ریپ کے اس واقعے میں ملوث ملزمان کی شناخت نجی چینلز پر ذرائع سے چلائی گئی۔

آئی جی پنجاب انعام غنی کے دفتر سے میڈیا کو ارسال کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں غلط اور حقائق کے منافی ہیں۔

ایک حکومتی ترجمان نے بھی ٹوئٹر پر محتاط انداز میں ان خبروں کی تردید کی مگر چینل انتظامیہ نے واشگاف انداز میں لکھا کہ وہ اپنی خبر کی صداقت پر قائم ہیں۔

ایسے واقعات میں قانونی طور پر جب تک کسی کے خلاف کوئی جرم عدالت میں ثابت نہ ہو جائے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی مگر میڈیا پر گجر پورہ میں ہونے والے ریپ کے واقعے میں ملوث ملزمان کی نہ صرف مکمل شناحت ظاہر کی گئی بلکہ ان کے شہر، محلے، گھر اور رشتہ داروں تک کی تفصیلات بھی مہیا کر دی گئیں۔

جن سے دو بنیادی سوالات نے جنم لیا کہ کہ میڈیا کا ضابطہ اخلاق کیا ہے اور اگر ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کس حد کیا جاتا ہے۔

کیا پاکستان میں میڈیا کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق ہے؟

اس سوال کا جواب تو ہاں میں ہے مگر شاید ہی کسی میڈیا ہاؤس نے اس کی ورق گردانی کی ہو یا اس پر صحافیوں کو اس پر کاربند رہنے کا کہا ہو۔ چلیں اگر ایسا نہیں ہوا تو ایک سرسری نظر دوڑاتے ہیں میڈیا کے اس ضابطہ اخلاق پر جو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے بنا رکھا ہے۔

اس ضابطہ اخلاق کے مطابق خبر یا کسی اور پروگرام کو اس انداز میں نشر نہیں کیا جائے کہ جس سے کوئی جاری تحقیقات، تفتیش یا ٹرائل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

جہاں اسلامی اقدار، نظریہ پاکستان، قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسی شخصیات کے خلاف مواد نشر کرنے پر ممانعت ہے وہیں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کوئی ایسا مواد نشر نہ ہو جو تشدد، جرائم، دہشت یا امن و امان میں سنگین خلل کو اکسائے، مدد دے یا اس کو جواز فراہم کرے۔

پیمرا کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق زنا بالجبر، جنسی بد اخلاقی، دہشتگردی یا اغوا کے کسی بھی شکار شخص کی شناخت اور نہ ہی اس کے خاندان کی شناخت اس وقت تک ظاہر کی جائے جب تک کہ شکار بننے والا فرد اور کمسن ہونے کی صورت میں ان کے نگہبان اس کی اجازت نہ دیں۔

اسی طرح میڈیا کوریج کے لیے کسی بھی جاری ریسکیو یا سکیورٹی آپریشن کے دوران نشانہ بننے والے افراد کی شناخت اور نشانہ بننے والے افراد کی تعداد سمیت دیگر اہم معلومات اس وقت تک ظاہر نہ کی جائیں جب تک کہ ریسکیو یا سکیورٹی کے ادارے (جو کہ اس آپریشن کے ذمہ دار ہوں) اس کی اجازت نہ دے دیں۔

ضابطہ اخلاق پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟

پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن تقریباً چار سال تک پیمرا کے شکایات موصول کرنے والے سیل (کمپلینٹس سیل) کے انچارج رہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کبھی میڈیا اپنی کوریج میں کوئی خلاف ورزی کرتا تھا تو وہ شکایت پر ضرور ایکشن لیتے تھے۔

ان کے مطابق ضابطہ اخلاق پر عمل میڈیا نے خود یقینی بنانا ہوتا ہے حکومت یا پیمرا کا مداخلت کرنا میڈیا کی آزادی کے لیے اچھا نہیں سمجھا جائے گا۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق جہاں تک ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد نہ ہونے کا تو ہے تو اس میں ’گیٹ کیپر‘ کی کمی ہے۔ گیٹ کیپر کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے مراد کسی نیوز روم میں ایسا سینیئر صحافی ہے جو معیار پر نظر رکھے اور ہدایات دے۔

پاکستان کے صوبے خبیر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نجی ٹی وی چینل آج کی بیورو چیف فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ کچھ سالوں میں الیکٹرانک میڈیا میں ہر حال میں بریکنگ نیوز دینے کی دوڑ نے کچھ مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ ان کے مطابق اب انحصار اس بات پر ہے کہ نیوز روم میں ڈائریکٹر نیوز اور کنٹرولر نیوز صحافی ہیں یا نہیں۔

فرزانہ علی کے مطابق گذشتہ ایک سال میں بہت سی خبروں پر پابندی بھی عائد کی جا رہی ہے جس سے میڈیا میں ایک اضطراب ہے۔ ان کے خیال میں حکومت اور پولیس نے اس مقدمے سے متعلق کوئی ایسا فوکل پرسن نہیں مقرر کیا جو میڈیا کو محتاط انداز میں تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرتا۔

فرزانہ علی کے مطابق میڈیا خود خبر نکالنے کی تگ و دو میں بعض دفعہ ضابطے کا بھی خیال نہیں رکھتا۔

ان کے مطابق ایسے مقدمات کی حساسیت کو بطور خاتون صحافی تو وہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں مگر پنجاب پولیس کے ایک سینیئر افسر نے متاثرہ خاتون پر سوالات اٹھا کر بحث کو نیا رخ دیا ہے، جس سے خبر ایک طرف رہ گئے اور غیر ضروری امور زیادہ اہمیت اختیار کر گئے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق آج سے دو دہائیاں قبل جب صرف سرکاری ٹی وی حکومت کی پالیسی کی پیروی کرتا تھا تو اس وقت زیادہ انحصار پرنٹ میڈیا پر ہی تھا تو تب ایڈیٹر اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ کون سی خبر کو شائع ہونا چائیے اور کن الفاظ کو حذف کرنا ضروری ہے۔

ان کے خیال میں اب نجی ٹی وی چینل ماضی جیسا معیار برقرار رکھنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp