وسعت اللہ خان! ہمیں معاف کر دو


وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہم لڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں

دشمنوں سے کم اور دوستوں سے زیادہ

وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہمارے قلم ہمارے قد کی طرح بہت چھوٹے ہیں

اور ہمارے نعرے ہمارے منہ سے بڑے ہیں

وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہم عظیم تہذیب کے وارث ضرور ہیں

مگر ہم تمیز سے آشنا نہیں

وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہم غیرت کے بے غیرت تصور کے غلام ہیں

اور ہم محبت میں ”کارو کاری” کے قائل ہیں

وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہم شیخ ایاز سے لیکرامر جلیل تک

سب کو سنسار کر چکے ہیں

وسعت، ہمیں معاف کر دو

بت بنا کر توڑنا ہمارا مشغلہ ہے

تم ہمیں جانتے ہو

وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہم جذبات کے جزام میں مبتلا لوگ ہیں

اور ہم نفرت کی زہریلی کچی شراب شوق سے پیتے ہیں

وسعت، ہمیں معاف کر دو

ہم جانتے ہیں: تم سندھ سے سیاسی محبت نہیں کرتے

ہم مانتے ہیں: تم سندھ سے زیادہ ملے ہو

وسعت! تم نے دیکھا ہے سندھ کو

غریب بچوں کی کیچ بھری آنکھوں میں

وسعت! تم نے پیا ہے سندھ کو

ان زہر آلود تالابوں میں

جہاں جانور اور انسان

 ایک ساتھ پیاس بجھاتے ہیں

وسعت! تم نے دیکھا ہے

اس دھرتی کا وہ درد

جو بھوک میں بھیانک ہوجاتا ہے

وسعت! تم نے دیکھے ہیں

سندھی شاموں کے وہ منظر

جب بھینسیں واپس لوٹتی ہیں

جب بکریوں کی ٹلیاں بجتی ہیں

جب مٹی سے بنی ہوئی مسجد سے

آذان کی صاف ستھری آواز بلند ہوتی ہے

وسعت! تم سندھ سے ملے ہو

کبھی تھر میں اور کبھی اس لکی شاہ صدر میں

جہاں گونگی شام گہری ہو جاتی ہے

اور ملنگ قلندر کے مذار پر

سراپا دھمال ہوجاتے ہیں

وسعت! تم ہمارے دروغ گو

دانشوروں کو جانتے ہو

وسعت! تم زیادہ لکھتے ہو

وسعت! تم کم بولتے ہو

وسعت! تم الفاظ کا احترام کیوں کرتے ہو؟

وسعت! تم چالاک کیوں نہیں؟

وسعت! تم چریے کیوں ہو؟

وسعت! اے غیر مشروط محبتوں کے امین

وسعت! اے صوفی صحافی

ہمیں معاف کر دو

اور بتاؤ

بتاؤ کہ

کیا ہم قابل معافی نہیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).