کیا سزائے موت ریپ کیسز کا حل ہے؟ پچھلے کالم پر اعتراضات کا جواب


کچھ لوگوں کے میرے پچھلے کالم پر کافی اعتراض سامنے آئے۔ اگر ان کے یہ مضمون سمجھنے میں کسی ذاتی، نفسیاتی، نظریاتی یا جسمانی معذوری دخل انداز ہو رہی ہے یا میری بلاغت اور لکھتے میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو آسانی کے لیے تھوڑی وضاحت پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس کے بعد ٹھنڈے دل و دماغ سے ذہن کو اس کے ڈیفالٹ مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ تو عرض یہ ہے کہ یہ بات صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ جرائم، نفسیات اور قانون پر تحقیق کرنے والے ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ متشدد سزائیں یعنی جن میں جسمانی ایذا یا جان کو خطرہ پہنچایا جائے کارگر نہیں ہوتیں۔

اس کا ثبوت آپ لوگوں کے سامنے ہے کہ زینب کے قاتل کہ پھانسی کے فوراً بعد ایک ماہ میں پے در پے چھ بچیوں کے ریپ اور قتل ہوئے جو کہ ابھی تک اسی تواتر سے جاری ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ تین چار روز قبل ایک بچی کو ریپ کر کے نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کے جسم کے ٹکڑے کر کے ان کو جلا کر کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔ اگر پھانسی یا سزائے موت ڈیٹرنٹ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔

اب آپ لوگ انصاف کے ساتھ مجھے یہ سمجھائیے کہ ایک سزا کارگر ہی نہیں ہے تو اس کا فائدہ جب کہ وہ تشدد کو بھی فروغ دے رہی ہے؟ تو پھر غیر متشدد، موثر اور کارگر سزاؤں کی طرف کیوں نہ جایا جائے؟ کیا لوگوں کو جرائم کو روکنے سے دلچسپی ہے یا لوگوں کو لٹکانے اور کاٹنے سے؟

اب ایک اور اعتراض کی سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک جرم کو ہونے سے پہلے روکا جا سکتا ہے یعنی کہ اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے اور جب اس تدارک کی بات ہوتی ہے تو بھی عوام الناس کو اعتراض ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ جب بچوں کو اجنبی لوگوں سے بچنے، اپنے جسم کو سمجھنے، گڈ ٹچ بیڈ ٹچ، کانسیپٹ اور ابیوز وغیرہ سکولوں میں پڑھانے کی بات کی جاتی ہے جو کہ تدارک کا ایک طریقہ ہے تو اس پر یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ سیکس ایجوکیشن ہماری مشرقی اور مذہبی روایات کے منافی ہے۔

ایسا کب سے ہے؟ پہلے تو یہ طے کریں کہ مشرقی روایات کے مخالف ہے یا مذہبی روایات کے۔ کیونکہ جنسی مسائل پر بالغ نوجوانوں کے لیے لکھی گئی جید علماء کی کتب موجود ہیں۔ اب نہ تو تدارک کی بات ہونے دی جاتی ہے نہ موثر اور کارگر سزاؤں پر قانون سازی اور نفاذ کی۔ جو بات کرے اس پر ذاتی حملے اور لیبلنگ شروع کر دی جاتی ہے۔

رویوں کی تبدیلی کی بات ہوئی تھی کہ تمام خواتین کو ایک جیسی عزت دیں۔ کچھ لوگ گھر کی خواتین کو ہی قابل احترام خواتین سمجھتے ہیں۔ لڑکوں کو بچپن سے مساجنسٹ یعنی عورت دشمن بنایا جاتا ہے۔ اور تو اور خاندان کی عمر رسیدہ خواتین بھی نوجوان لڑکیوں کی دشمن بننے میں مرد حضرات کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں اور خواتین ہوتے ہوئے پدر پرستی کی نمائندہ بنتی ہیں۔ سی سی پی او صاحب کے اعتراضی بیان کی بہت سی خواتین بھی حمایت کرتی ہوئی دکھائی دی گئیں۔

ایک اور اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ شاید پچھلے مضمون میں مجرموں کے لیے کوئی الگ تھلگ اور عالی شان کمپلیکس بنانے کی ’فرمائش‘ کی گئی ہے یا ان کے ساتھ ترجیحی اور نرم رویے کی سفارش کی گئی ہے۔ ریپسٹ کو دنیا کی کوئی بھی عدالت عمر قید یا موت کی سزا نہیں دیتی نہ ہی پاکستان کی عدالتیں دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایسے مجرموں کو اول تو سزا نہیں ہوتی اور ہو بھی جائے تو وہ باہر نکل کر دوبارہ سوسائٹی میں گھل مل جاتے ہیں۔

لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ایسے لوگوں کو مخصوص رہائشی علاقوں تک محدود کرنے کا مطلب عام آبادیوں، بچوں اور عوامی مقامات سے دور رکھنا ہوتا ہے اور عمومی طور پر وہ مخصوص مقامات ویرانے، سنسان عمارتیں اور پلوں کے نیچے کی جگہیں ہوتی ہیں۔ آپ ان کو باہر نکلنے کے بعد مخصوص رہائشی علاقے نہ دیں اپنے گھر میں محلے میں رکھنا چاہتے ہیں کیا؟

جہاں تک رہا سخت سزاؤں کا حوالہ تو یہاں پر قتل جیسے سنگین جرم والے لوگ وکٹری سائن بنا کر گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر باہر نکل آتے ہیں۔ سوشل سائنسدان، ایکسپرٹس اور محقق کیوں کہتے ہیں کہ سزائے موت کوئی ڈیٹرنٹ نہیں ہے؟ اگر اس سے فرق پڑتا تو یہ بھی کر لیں آپ کسی نے منع نہیں کیا لیکن اس سے فرق نہیں پڑ رہا۔ پھر کیا کریں گے؟ یاد رکھیں کہ سزا کی شدت سے جرائم نہیں رکتے بلکہ سزا ہونے کی یقین دہانی سے جرائم رکتے ہیں۔ آخر میں یہ دعا ہے کہ ہمارے متعدد اردو کے قاری تحمل اور برداشت سے کسی کا موقف سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں کیونکہ مجھے انگریزی میں لکھتے ہوئے کبھی ایسے اعتراضات اور دشنام طرازی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ والسلام۔

ڈاکٹر عاکف خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عاکف خان

مصنف فزیکل سائینز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہونے کے ساتھ بلاگر، کالم نویس اور انسانی حقوق کےایکٹیوسٹ ہیں۔ ٹویٹر پر @akifzeb کے نام سے فالو کیے جا سکتے ہیں۔

akif-khan has 10 posts and counting.See all posts by akif-khan