منہ دکھائی بے رونمائی


”اوئی“ اس کی آنکھیں پھیل کر پورے جسم پر محیط ہو گئیں۔ منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، بالوں نے چہرے کو ڈھانپ لیا اور آنچل قدموں کو ڈسنے لگا۔ انور نے آج پہلی بار اپنی آنکھوں کی میخیں اس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں گاڑ رکھی تھیں اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ صائمہ کا ہاتھ۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں تھا اور ہاتھ بھی کتنا؟ ایک چھنگلی۔ ۔ ۔ اور ایک چھنگلی پر پانچ انگلیوں کی گرفت۔ ۔ ۔

دھم دھما دھم دل کی ڈھولک بج رہی تھی۔ شاید معاملات سیکنڈ کے تھے۔ ۔ ۔ مگر ایسے وقت کا حساب کتاب کون رکھ سکتا ہے۔ دوپٹہ سنبھالنا۔ ۔ ۔ چھنگلی کی دھڑکن کو وجود کے زیروبم سے ہم آہنگ کرنا۔ ۔ ۔ قیامت کی ساعت بن گیا۔

دفعتاً صائمہ۔ ۔ ۔ بدحواسی سے ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی اپنے کمرے تک آئی اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ کسی نامانوس دستک اور اجنبی قدموں کی آہٹ کے انتظار میں۔ ۔ ۔

لمحہ دیوار تھا اور دل بارش، دونوں کی جلترنگ دیر تک فریب دیتی رہی اور وہ سہمی ہوئی ہرنی کی طرح نجانے کتنی دیر اس کمرے میں مقید رہی۔ خوف اور شدت جذبات نے اسے بے حال کر رکھا تھا۔

آج پوری دوپہر اس کے لیے موسم، وقت، حالت اور اردگرد کا ماحول اجنبی رہا۔ جسمانی ارتعاش نے اس کی ہر حرکت کو غیراضطراری بنا دیا تھا۔ یوں جیسے کوئی اپنے آپے سے نکل کر کہیں خلاؤں میں بھٹکتا رہ جائے۔

آنکھیں کھولتی تو خود کو کبھی صحرا میں پاتی، اور موندتی تو سمندر کی بپھرتی لہروں میں بھیگ بھیگ جاتی۔ ۔ ۔ پھر موسم بدلتا کہیں ٹیلا تو کہیں ریت، کہیں آسمان تو کہیں زمین۔ ۔ ۔ کہیں وسعت تو کہیں فنا، کہیں رات تو کہیں غبار۔ ۔ ۔ کہیں ہرا کہیں سیاہ۔ ۔ ۔ بن رہا تھا اور مٹ رہا تھا۔ ۔ ۔ اور اس کے اپنے وجود کا پتلا کبھی آتش میں تو کبھی نخلستان میں سلگ رہا تھا اور بکھر رہا تھا۔

کال بیل کی چیخ اسے اس کی تراشیدہ مصنوعی دنیا سے باہر کھینچ لائی جس سے نکلنے پہ وہ آمادہ نہ تھی۔ اس نے گھسٹتے پیروں سے باہر کا رخ کیا اور دروازے کی جھری سے جھانکا۔ وہی تھا۔ ۔ ۔ ہاں وہی۔ اسی نے تو آنا تھا۔ یہ اسی کے آنے کا وقت ہے۔ ۔ ۔ بھلا اس وقت اور کون آ سکتا ہے۔ دل تو یونہی باؤلا ہوا تھا۔ بے وقوف۔

اس نے روزمرہ کی طرح دروازہ کھولا اور صمدکو آنے کا راستہ دیا۔ وہ بھی روزانہ کی طرح ستی ہوئی اپنی مخصوص چال کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا۔ عامل معمول بھی وہی تھے، بس کھیل کا رخ تھوڑا بدل گیا تھا۔ وہ ہاتھ جو فوراً صمد کو پانی کا گلاس پیش کرتے تھے۔ آج لرز رہے تھے اور کھانا لگانے کے لیے کچن کی طرف لپکنے کی بجائے وہ فریج کے پاس سن سی کھڑی تھی۔

تبھی اسے صمد کی آواز سنائی دی ”میں کھانا کھا کر آیا ہوں۔“
اس کے لیے دونوں صورتیں برابر تھیں۔ کھانا لگانا یا نہ لگانا۔
”میں سونے جا رہا ہوں، سات بجے تیار رہنا دعوت میں چلنا ہے۔ ۔ ۔“ پھر آواز سنائی دی۔
وہ ساکت تھی۔
”کیا بات ہے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے۔“ قریب سے گزرتے ہوئے صمد نے ایک لمحے کو رک کر پوچھا:
”ہاں۔ ۔ ۔ ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ بالکل اچھی۔“
خوف نے زبان کو لرزا دیا۔ ۔ ۔
”کوئی تکلیف؟“
اس کی نظریں صمد کے پیروں میں کھب گئیں۔ ۔ ۔ اور خاموش رہی۔ گویا چوری اس کے چہرے پر لکھی تھی۔
”تم بھی آرام کر لو۔ ۔ ۔“ صمد سکون سے اندر چلا گیا۔
”مشورہ مناسب تھا۔“ وہ وہیں صوفے پہ ٹک گئی۔

شادی سے کچھ دن پہلے جب وہ جمیل کو آخری خط لکھنے بیٹھی تھی، جس میں اس نے جمیل سے کیے ہوئے سبھی پیمان توڑنے کی بات کی تھی، اسے بھول جانے کی قسم دی تھی۔ اپنی مجبوریوں کا رونا رویا تھا، ماں باپ کی عزت کے واسطے دیے تھے، اور اپنے پرانے خطوط واپس مانگے تھے۔ ۔ ۔ اپنی دو عدد تصویریں واپس کرنے کے لیے منتیں کی تھیں اور آخر میں کسی اچھی لڑکی سے شادی کر کے اپنا سونا گھر اور دل آباد کرنے کی خواہشیں کی تھی۔ ابھی وہ یہ خط بھیجنے کے لیے چھوٹی بہن کو بلانے کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ شازیہ نے اسے رازدارانہ طور پر ایک کاغذ تھما دیا۔

اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ جمیل کا خط تھا۔ دل جلے عاشق کے جلے کٹے جملے تھے۔ بے وفائی کے طعنوں کے ساتھ لکھا تھا۔ تم نے میری غربت کی خاطر میری محبت کو چھوڑا ہے۔ تمہاری ماں تمہارا باپ اور تم سب دولت پہ ریجھ گئے ہو۔ یہ لال گاڑی تم سب کو اندھا بنا گئی ہے۔ تم سونے کی چمک دیکھ کر مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو مگر جب تم اس شخص کے ساتھ شادی کرو گی تب تمہیں پتہ چلے گا تم ہمیشہ ناخوش رہو گی۔ ۔ ۔ اور میں ساری زندگی تمہیں بددعائیں دیتا رہوں گا کہ تمہیں زندگی بھر سکون نہ ملے۔

وہ دکھی ہو گئی تھی خط پڑھ کر۔ ۔ ۔ کوئی آٹھ۔ ۔ ۔ دس ماہ ان کے درمیان خطوط بازی چلی تھی۔ چھوٹی بہن رازدار تھی۔ ۔ ۔ اسے جمیل بہت اچھا لگتا تھا۔ ۔ ۔ اس کی پان کی مانڈلی تھی اپنی۔ ۔ ۔ اور خوب چلتی تھی۔ اونچی آواز میں نئے نئے انڈیا کے گانے صرف اسی کو سنانے کے لیے لگاتا تھا اور دکان پر چاروں طر ف ”مادھوری“ کی بڑی بڑی رنگین تصویریں لگائی ہوئی تھیں کہتا تھا کہ ”تمہاری شکل مادھوری سے بہت ملتی ہے۔ اسی لیے اس کا فوٹو لگا رہا ہوں۔

“ اور جب بھی وہ خط بھیجتی تھی۔ جمیل اسے دو میٹھے پان خوب سونف، چھالیہ اور گلقند ڈال کر بھیجا کرتا۔ اماں تو عاشق تھیں جمیل کے پانوں کی۔ ۔ ۔ ابا کے لیے سگریٹ کے پیکٹ وہیں سے آتے تھے۔ ۔ ۔ اور کبھی جب ابا ایک سگریٹ علیحدہ سے منگواتا تھا، تب تو جمیل نے کبھی پیسے ہی نہیں لیے۔ ۔ ۔ اور ابا خوش ہو کر اسے آباد رہنے کی دعائیں دیتا تھا۔ اور بچی ہوئی بریانی بھی کبھی کبھار اس کے گھر بھیج دی جاتی تھی۔

وہ تو کچھ بھی نہیں جانتی تھی کہ اب اس کی شادی کہاں ہو رہی ہے۔ اسے تو سب کچھ جمیل میں ہی نظر آتا تھا۔ ابا تو خیر صبح سویرے باہر روزی روٹی کمانے کے لیے نکل جاتا تھا۔ مگر اماں کی آنکھیں بدستور اس کے پھیرے لیتی رہتی تھیں۔ کبھی خط، پرچہ تو نہیں پکڑا گیا تھا پر پھر بھی اماں سب کچھ سمجھ رہی تھی۔ مگر ابا تو یوں سمجھتا تھا کہ جیسے کبھی کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کہاں اس کی لاڈلی بیٹی جو اسکول سے دوپٹہ لپیٹ کر سیدھا گھر آتی ہے اور کہاں یہ محلے کے کنجڑے۔

اباجمیل کو بھی صرف ہفتے میں دوبار بھیجے گئے چار سگریٹ کی وجہ سے ”نیک بچہ“ سمجھتا تھا ورنہ باقی سارے تو محلے میں حرامی تھے۔ یہ الگ بات کہ ابا نے ہر کسی سے بنا کے رکھی ہوئی تھی۔

اور پھر اچانک ایک دن اماں نے بتایا کہ۔ ۔ ۔ ”تیری شادی ہو رہی ہے۔ ۔ ۔“

” سچ۔ ۔ ۔“ ایک بار تو اس کے پیروں میں سے جان نکل گئی۔ پیٹ میں بڑا زور کا مروڑ اٹھا۔ ۔ ۔ ”شادی۔ ۔ ۔ ؟ کس سے۔ ۔ ۔ ؟“ اسے سوال پوچھنے کا موقع کب ملا۔

اماں نے اسے لپٹایا اور سینے سے بھینچتی ہوئی بولی۔

”ارے میری بیٹی کے لیے تو ایسا ہی کوئی جوان چاہیے تھا۔ جو اتنی بڑی گاڑی میں لے کر جائے تو محلے والے یوں منہ پھاڑ پھاڑ کر دیر تک مٹی پھانکتے رہیں، ہمیں کیا لینا دینا ان پنواڑیوں اچکوں سے۔ ۔ ۔ یہ تود و دن کے ڈھول تماشے پیٹنے والے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اصل لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو خاندانی رئیس ہوتے ہیں۔ ہمیشہ سے پیسے میں، نودولتیئے نہیں۔ ایسے لوگ تو نصیب والوں کو ملتے ہیں جیسے میری بیٹی کو مل گئے۔

اماں کو جیسے سرخاب کے پر لگ گئے تھے۔ پان پر پان منگوا کر محلے والیوں کو کھلا رہی تھی اور اس کے مقدر کا فیصلہ سنا رہی تھی۔ اسے اتنا شور سنائی دے رہا تھا کہ اگر وہ بولی بھی تو اس چیخ و پکار میں کسی کو کچھ سنائی نہیں دے گا اور پھر وہ کچھ بولی بھی تو نہیں۔ ۔ ۔ وہ صرف اتنا جان رہی تھی کہ اس کے ماں باپ بہت خوش ہیں اور اگر اس نے چوں بھی کی تو ان کی خوشیوں پر جلتے ہوئے کوئلے آ گریں گے اور پھر سارا گھر۔ ۔ ۔ سب بہنیں۔ ۔ ۔ وہ خود۔ ۔ ۔ سب کچھ راکھ میں بدل جائے گا۔

ویسے بھی اسے تو ہمیشہ اسی لیے پیار کیا گیا کہ وہ بڑی اطاعت گزار تھی۔ نہ کہنا تو اس نے کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔ صرف جی۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ نے اسے ماں باپ کا دلارا بنا رکھا تھا۔ صبح اٹھ کر پورے گھر میں جھاڑو لگاتی تھی پھر پوچا، پھر ناشتہ سب کو دے کر خود اسکول جاتی تھی۔ واپس آ کر پھر کام میں جت جاتی تھی اور رات کو ابا کے پیردباتی تھی۔

سب اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے اور ایسے بر سب کو ملنے کی دعائیں دے رہے تھے۔

ایک میلے کچیلے سے گھر میں رہنے والی، بمشکل دال روٹی، کپڑامہیا کرنے والے کے گھر سے اسے ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے میں منتقل ہونا تھا۔

یہ وہ جانتی تھی پھر بھی اسے یہ فکر تھی کہ ابا کے بریانی والے ٹھیلے کو لگانے میں کون ابا کی مدد کیا کرے گا؟ ۔ ۔ ویسے تو وہ خود صبح ٹھیلے کی مکمل صفائی کر کے پلیٹیں وغیرہ لگاتی تھی اماں کو چھوٹے بہن بھائیوں سے اتنی فرصت نہیں ملتی تھی کہ وہ ابا کا دھیان رکھ سکے۔ ۔ ۔ اور رات کا کھانا اس لیے نہیں بناتی تھی کہ اگر بریانی بچ گئی تو کون کھائے گا۔ ۔ ۔ کبھی چار پلیٹ بچتی، کبھی دو اور کبھی تین بچتی۔ ۔ ۔ جس میں مرغی کی گردن کے مڑے تڑے ٹکڑے پڑے ہوتے جو بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔

ابا کو اچانک یہ رشتہ کہاں سے ملا۔ معلوم نہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ ابا اور اماں دونوں ہی اپنی بیٹی کو خوش قسمت سمجھ رہے تھے کہ جس کی برداشت اور سعادت مندی نے گھر کو پرسکون بنایا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ورنہ بددعائیں پانے والی اولاد کو تو اچھا بر ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس کی شادی ہوئی تو محلے والیوں کی زبانوں پر نہ ختم ہونے والے قصے آ گئے۔ بہت ساری گاڑیاں۔ ۔ ۔ ٹھاٹھ باٹھ سے آئے ہوئے لوگ۔ ۔ ۔ اور قیمتی کپڑے لتے پہنے۔ ۔ ۔ ڈھیروں ڈھیر زیوروں میں پھنسی ہوئی بنی ٹھنی نخروں والی عورتیں ایک کچے سے گھر میں پہنچے تو جیسے بھونچال ہی آ گیا وہ لوگ جو کپڑے، زیور اور میک اپ کے سامان کے ساتھ اور بھی بہت کچھ لائے تھے۔ ۔ ۔ مثلاً دلہن کے بہن بھائیوں کے کپڑے۔ ماں باپ کے لیے جوڑے اور رومال اور ماں کے لیے جوڑے کے ساتھ جھمکے۔

”تولے سے کیا کم ہوں گے جھمکے۔ ۔ ۔“ اس کی ماں سب کو دکھاتی پھر رہی تھی۔ فخر سے اس کی گردن تنی ہوئی تھی۔ ایسے جھمکے تو اس نے اپنی گزری ہوئی زندگی میں کبھی نہ پہنے تھے نہ دیکھے۔ ۔ ۔ اور نہ ہی آئندہ کبھی امکان تھا۔ پانچوں بہنیں اپنے اپنے کپڑے دیکھ کر نہال ہوئی جا رہی تھیں۔ بھائی کے قدم گھر میں نہیں ٹک رہے تھے۔ ابادنیا دکھاوے کے لیے اللہ کو شکرانے میں بار بار کھینچ لاتا تھا اور وہ۔ ۔ ۔ وہ بھی منٹوں میں جمیل کو بھول گئی۔ ورنہ کل تک تو اسے ”مانڈلی“ سے سنائی دینے والے فلمی گانوں کی آوازوں پر رونا آ رہا تھا اور جمیل پر بڑا رحم۔

پر آج زیوروں کے ڈبے۔ ۔ ۔ قیمتی قیمتی جوڑے، نئے نئے سینڈل، چوڑیاں، میک اپ مل کر اسے پاگل بنا رہے تھے۔ ۔ ۔ یہ سب میرے لیے؟ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

کیا میں واقعی اتنی حسین ہوں؟ کہ اتنے بڑے لوگ مجھ سے شادی کرنے کے لیے یوں بے چین ہو گئے! ”ابا اماں کی خدمت کا صلہ دیا ہے۔ اللہ نے مجھ کو۔ اچھا ہوا میں نے جمیل کی بات کسی کو نہیں بتائی۔ ورنہ سب برا بھی کہتے اور۔ ۔ ۔ شاید۔ ۔ ۔ شاید۔ ۔ ۔ وہیں شادی ہو جاتی۔ ۔ ۔ اس گھر سے بھی برا گھر ہے وہ تو۔ ۔ ۔ ہم تو سات بہن بھائی ہیں اور وہ گیارہ۔ جمیل کا ابا تو گالیاں بھی بہت دیتا ہے اور اس لی ماں دمے کی مریضہ۔ کھانس کھانس کر سارے گھر میں تھوکتی پھرتی ہے۔ اللہ توبہ۔ اور جمیل نے کیا لکھا تھا خط میں۔ ۔ !“ کہ بہت پچھتاؤ گی تم شادی کر کے۔ ۔ ۔ ”اللہ کتنا جل کے لکھا ہو گا نہ۔ ۔ ۔ پچھتاتی تو اس نکمے سے شادی کر کے۔ ساری عمر سڑتی رہتی اور ایک چوڑی نہ بنوا کے دے سکتا تھا وہ اس مانڈلی میں سے۔

ایسی دھوم دھام سے شادی ہوئی کہ اس چھوٹے سے محلے میں پہلے کبھی کسی کی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو حیران حیران، مدہوش، پریشان سی سارے دن گزارتی رہی۔ ۔ ۔ پہلے مایوں، پھر مہندی، پھر بیوٹی پارلر سے تیاری۔ ۔ ۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں جب وہ تیار ہو کر آئینے کے سامنے بیٹھی تو اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ ۔ ۔ یہ میں خود ہوں؟ کیا واقعی یہ میں ہوں؟ اتنی خوبصورت۔ ۔ ۔ اتنی حسین!

وہ واقعی اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔ اسے کسی خواب کا یا کسی معجزے کا گمان ہو رہا تھا۔

شادی کب ہوئی۔ ۔ ۔ کب رخصتی۔ ۔ ۔ وہ یوں ہی سحر میں تھی۔ اس کا دل زور سے اس وقت دھڑکا جب اسے علیحدہ کمرے میں بٹھا کر ساری عورتیں باہر چلی گئیں۔

عجیب عجیب سی ذہنی، دلی اور جسمانی حالت نے اسے بے حال کر رکھا تھا اور اب گھبراہٹ اور خوف نے تو جان ہی نکال دی تھی اور آنے والے دلہا کے قدموں کی آہٹ سے تو یوں لگا جیسے اب وہ بے دم ہو کر بے ہوش سی گر پڑے گی۔

صمد بڑی آہستگی سے چلتا ہوا اس کے بیڈ کے پاس آیا تھا اور ایک چورسی، خائف خائف مسکراہٹ سے قریب آ کر سونے کا لاکٹ کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا۔

گھونگھٹ کی اوٹ سے اسے صاف نظرآ رہا تھا۔ ۔ ۔ اتنا بڑا لاکٹ۔ ۔ ۔ پہلے ہی کتنا زیور لائے ہیں۔ چھ چوڑیاں، دو کڑے، ست لڑی کا ہار، ٹیکہ، جھومر، دو اور سیٹ اور ہیرے کی انگوٹھی علیحدہ سے۔ ۔ ۔ اور اب یہ۔ ۔ ۔ اتنا بھاری لاکٹ۔ ابا نے تو بس ایک انگوٹھی اور ایک جوڑی بندے دیے تھے۔ ۔ ۔ وہ بھی پانی کی طرح ہلکے سے۔ اس کو سہیلیوں کی باتوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ ”یوں جھک کر بیٹھنا۔ ۔ ۔ اورگھونگھٹ کو ہاتھ مت لگانے دینا۔ ۔ ۔ کہناپہلے منہ دکھائی لاؤ۔“

”پھر تمہیں منہ دکھائی ملے گی۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ گھونگھٹ اوپر ہو گا۔ ۔ ۔“
”اور پھر۔ ۔ ۔ اور پھر۔ ۔ ۔“
اس کے دل کی دھڑکن ایسی بے قابو ہوئی کہ اس نے زور سے سینے پہ ہاتھ رکھ لیے۔ ۔ ۔
”یہ لے لو۔ ۔ ۔ گلے میں پہن لو۔ ۔ ۔“
صمد کی پھنسی پھنسی آواز اسے سنائی دی۔
”شاید خود بھی ڈر رہے ہیں۔“ اسے اتنے خوف کے باوجود ہنسی آ گئی۔

”اف اللہ کتنا مشکل وقت لگ رہا ہے۔ ۔ ۔ کب قریب آئیں گے اور۔ ۔ ۔ یہ لاکٹ۔ ۔ ۔ میں نہیں پہنتی خود ہی پہنائیں گے۔“

لاکٹ بیڈ پہ کھلا رہا۔

قدموں کی چاپ دور ہو رہی تھی۔ اس نے گھبراہٹ سے نظریں اوپر اٹھا کر سرخ دوپٹے کی آڑ سے دیکھاصمدباتھ روم جا رہا تھا۔ اس کی کمرمیں جھکے جھکے سخت درد ہونے لگا تھا۔

”اب آئیں گے۔“ دل کی ٹک ٹک بجتی، ڈوبتی رہی۔ ۔ ۔ باتھ روم کا دروازہ کھڑاک سے کھلا۔ ۔ ۔ صائمہ نے جلدی سے سر جھکا لیا، پھر قدموں کی چاپ، مدھم، مدھم سی۔ ۔ ۔ قریب ہوتی ہوئی، بیڈ کے نزدیک تر۔ ۔ ۔

”سو جاؤ تم۔“
”جی“ موت کے کنویں سے آواز نکلی۔

بستر کے چاروں طرف پھولوں کی لڑیاں اور رنگ برنگی لہریں عجیب عجیب بے ڈھنگے پن سے ہنسنے لگیں، جیسے سب اس کی ہنسی اڑا رہی ہوں۔ پھر کمرے میں برف کی سلیں سی بھر گئیں جیسے برف کے ٹھنڈے تودوں پہ انسانی نقوش اجاگر کر کے کئی بچوں نے دل کھول کر اس کی آرائش کی ہو، موتی پہنائے ہوں۔ ۔ ۔ سوانگ رچایا ہو۔ ۔ ۔ اور پھر سب نے تالیاں پیٹی ہوں اور انہیں سجا کر بھول گئے ہوں۔

”ادھر ہی سو جاؤ بیڈ پر۔ ۔ ۔ میں صوفے پہ سو جاتا ہوں۔“ برف کے تودے کی ٹھنڈی یخ آواز سنائی دی۔
”مگر کیوں“ گونگی آواز بازگشت کی طرح لپکی۔
اس کا دم گھٹنے لگا۔ ۔ ۔ کمرہ غبارہ بن گیا اور وہ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔
”یہ کیوں؟ ۔ ۔ اب کس لیے؟ ۔ ۔ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔“
”ایسا تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا؟ ۔ ۔ سب تو کچھ اورکہتے تھے۔ ۔ !“
”تھکے ہوئے ہیں شاید۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ میں نے تو سنا تھا کہ۔ ۔ ۔“
”پریہ ایسے کیوں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ اتنے دور۔ ۔ !“
”اللہ اب میں کیسے اٹھوں۔ ۔ ۔ کیا کروں؟“

”وہ تو صوفے پہ لمبے سو گئے ہیں اور کروٹ بھی بدل لی ہے۔ ۔ ۔ میری طرف پیٹھ کر کے سو رہے ہیں۔ کیا غلطی ہو گئی مجھ سے۔ ۔ ۔ تین بج رہے ہیں۔ ۔ ۔ شادی والا سارا گھر چپ ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ بارات واپس آتے آتے ویسے ہی تھک جاتی ہے۔ بڑا دھوم دھڑکا ہوتا ہے جو سب ختم ہو جاتا ہے اور تھکے ہوئے لوگ آرام سے سو جاتے ہیں۔ مگر دلہا دلہن کے لیے تو سب کہتے ہیں کہ اسی لیے رات کو جاگتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ اوردوسری دوسری باتیں سب۔ ۔ ۔“

”اگر۔ ۔ ۔ میری شادی جمیل سے ہوئی ہوتی تو کیا۔ ۔ ۔ وہ بھی۔ ۔ ۔ صوفے پر۔ ۔ ۔ ایسے پیٹھ پھیر کر۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔“

”انہیں پتہ تو نہیں چل گیا کہیں جمیل کا۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔“

”مگر میں اب کیاکروں؟ ۔ ۔ کپڑے بدل لوں۔ ۔ ۔ کیا پھر کبھی ایسی رات آئے گی۔ ۔ ۔ یہ کپڑے تو آج کے لیے ہیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا تک نہیں ہے ان کپڑوں میں۔ سب سہیلیاں کہہ رہی تھیں کہ بہت روپ چڑھا ہے مجھ پر۔ بہت حسین لگ رہی ہوں میں مگر انہوں نے تو۔ ۔ ۔“

اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ”کیا میں انہیں پسند نہیں آئی؟ ۔ ۔“
”یہ لاکٹ میری طرف پھینک کر بس۔ ۔ ۔“

”اب میں کیا کروں؟ کیا ان کو جگاؤں۔ ۔ ۔ کوئی بات کروں۔ ۔ ۔“ شرم اور بے عزتی دونوں اس کے راستے میں کھڑی ہو گئیں۔ ۔ ۔ دل اماں کو باربار دہائیاں دے رہا تھا۔

”ہائے اماں۔ ۔ ۔ ہائے اماں۔ ۔ ۔ راہ سجھاؤ۔ ۔ ۔ میں کیا کروں، کیسے سمجھوں۔“
گھڑی کا کانٹا کیچوے کی چال چل رہا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ اٹھی۔ ۔ ۔ اپنا بھاری کا مدانی دوپٹہ اٹھایا۔ ۔ ۔ غرارہ سنبھالا اور صوفے کے قریب جا بیٹھی۔ ۔ ۔ اس کی سانسیں ڈھول کی طرح بجنے لگی تھیں۔

”سنئے۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ وہاں۔ ۔ ۔ اوپر آ جائیں نہ۔ ۔ !“
”میں ٹھیک ہوں یہاں۔ ۔ ۔“ کروٹ لیے ہوئے جواب آیا۔
”اس کا مطلب ہے جاگ رہے ہیں۔ پھر پاس کیوں نہیں آ رہے؟“
”آپ ناراض ہیں مجھ سے؟“
”بالکل نہیں۔“
”پھر؟“
”پھر کیا؟ ۔ ۔“ صمد نے چہرہ اس کی طرف گھمایا۔
”کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ ۔ ۔ صاف صاف بول دو۔ ۔ ۔ تم کو منہ دکھائی دے دی نہ۔ ۔ ۔ اب کیا تکلیف ہے؟“

”اب۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ آپ ڈانٹ کیوں رہے ہیں۔“ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔

”بند کرو یہ ڈرامہ۔“ صمد کی آنکھیں باہر کو نکل آئیں۔
”شرافت سے باتھ روم میں چلو۔ ۔ ۔ کپڑے بدلو اور سو جاؤ۔ ۔ ۔“

”نہیں سمجھیں اب بھی۔ ۔ ۔ مجھے سب پتا ہے کیا چاہیے تم جیسوں کو۔ نہیں ہے میرے پاس کچھ۔ یہ اماں کے چونچلے ہیں جو تم کو مجھ سے باندھ دیا۔ نہ میں نے ان سے ایسی کوئی فرمائش کی تھی اور نہ مجھے ضرورت تھی۔ سمجھیں۔ ۔ ۔ اور سنو۔ ۔ ۔ وہ جو تمہاری ماں بہنیں اور پچاس لڑکیاں جمع تھیں تمہارے پاس، ان کو کچھ کہنے کی کوشش کی تو بہت برا ہو گا۔ مجھے ان کے گھٹیا سوالات سارے پتا ہیں۔ اب اٹھو۔ ۔ ۔ چلو شاباش۔ ۔ ۔“ اب کی بار آواز میں قدرے نرمی تھی۔

اس کے قدموں میں لرزش تھی۔ باتھ روم میں کپڑے تبدیل کرتے ہوئے وہ بری طرح رو رہی تھی۔
”کل کیا ہو گا؟ کیا سمجھے اس رویے کو؟ کس کو بتائے۔ ۔ ۔ کیا بتائے؟“

باقی بہنیں۔ ۔ ۔ بھائی۔ ۔ ۔ ابا اور اس کا ضعیف ٹھیلا اور اماں کی موٹے موٹے عدسوں والی عینک، سب بے تحاشا یاد آئے۔

دوسری صبح دروازے پہ دستک ہوئی تھی۔ صمد اٹھ کر ایسے تیار ہو چکا تھا، جیسے رات کچھ ہوا ہی نہ ہو مگر اس کے لیے رات ایک طوفان آیا تھا جو سب کچھ اڑا کر لے گیا تھا اور اسے بیاباں میں تنہا لمبا سفر طے کرنے کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ رات کا تصور نہایت بھیانک، کریہہ اور دل کو زخمی کرنے والا تھا۔ وہ رات جتنی دیر بھی سوئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی غیبی طاقت اسے آہستہ آہستہ زمین سے اٹھاکر۔ ۔ ۔ اونچائی پہ لے جا کر پھرزمین پہ پٹخ رہی ہو۔ ۔ ۔ گرتے ہی وہ خوفزدہ ہو کر اٹھ کر بیٹھ جاتی تھی۔ خوف کی شدت سے اس کا رواں رواں کانپ رہا ہوتا تھا۔

صبح جب دستک ہوئی تب وہ جاگ رہی تھی۔ دروازہ کھولنے سے پہلے اسے دو گہرے گہرے چکر آئے۔ ۔ ۔ خود کو مشکل سے سنبھالا۔ ۔ ۔

”صمد کہاں ہے؟“ پوچھا گیا۔
”جی وہ تو صبح ہی چلے گئے۔“ مری مری آواز میں اس نے جواب دیا۔
”اچھا۔ ۔ ۔ اور تم تو ٹھیک ہو؟“

”جی امی“ آنسوؤں کا گولا حلق میں ہی پھنسنے لگا۔ بیچارگی سے نظریں اٹھائیں۔ ۔ ۔ صمد کی امی اسے نہایت گہری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ گھبرا رہی تھی۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ اس کی نس نس سے بہہ رہا تھا۔

”اپنے آپے میں رہنا۔ ۔ ۔ اپنی بہنوں کی قسمت نہ اجاڑ دینا اور ماں باپ کا خیال کرنا۔ ٹھیک۔“
ان ہدایات میں اتنا کچھ چھپا تھا کہ وہ سہم کر اپنی جگہ بت بنی رہ گئی۔

”میں نائلہ کو تمہارے پاس بھیجتی ہوں۔ ۔ ۔ ناشتہ کرنے نیچے آ جاؤ اور بستر کی چادر بھی نکال دو۔ مہمانوں نے بھی کچھ دیکھنا ہوتا ہے آخر۔ ۔ ۔“ ان کی آنکھیں اب بھی اس کو گھورے چلی جا رہی تھیں۔

”امی۔ ۔ ۔ امی۔ ۔ ۔ خوفزدہ سی آواز نکلی۔ ۔“ گرما گرم آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔

وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔ ۔ ۔ بس وہ رونا چاہتی تھی۔ ۔ ۔ اس وقت تو کوئی بھی ہوتا۔ ۔ ۔ دوست، دشمن، اپنا، پرایا۔ ۔ ۔ اسے امی کہتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا گویا وہ آنسوؤں میں بہتی جا رہی ہے۔

”بس کرو یہ رونا دھونا۔ ۔ ۔“ انہوں نے درشتگی سے کہا۔

”ابھی تمہاری ماں بہنیں آئیں گی۔ ۔ ۔ یہ ٹسوئے نہ بہانا ان کے سامنے بیٹھ کر اور نہ کوئی الٹی سیدھی بات کرنا۔ ۔ ۔ ساری بہنیں کنواری ہیں تیری کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اور تیرے باپ کو تو سب پتہ ہے اس لیے زیادہ ہوشیاری مت دکھانا۔“

ساس کے لہجے میں نفرت کا عنصر اس قدر زیادہ تھا کہ اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ اس کی نند کی آنکھیں بھی اس کے لیے اجنبی ہو چکی تھیں۔ وہ اسے تیار کر کے نیچے لے جانے کے لیے آئی تھی۔ ۔ ۔

”بھابھی یہ۔ ۔ ۔ بھابھی وہ۔ ۔ ۔“ بے جان بت ہر حکم کی تعمیل کر رہا تھا۔
”یہ شیڈ، یہ کپڑے، یہ زیورات، یہ چوڑیاں۔ ۔ ۔ یہ، وہ۔ ۔ ۔ یہ، یہ۔ ۔ ۔“

”بھابھی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ ۔ ۔ آپ کے گھر والوں نے تو بہت معمولی زیور دیا ہے ہم تو بڑے قیمتی سیٹ لے کر آئے تھے، آپ کے لیے۔ ۔ ۔ کیا آپ نے کبھی ایسا سوچا تھا۔“

”میرا مطلب ہے اتنے بہترین کپڑے اور ان زیورات کے لیے تو آپ نے پہلے کبھی نہیں سوچا ہو گا۔“ وہ چپ رہی۔

”ہاں بھابھی وہاں آپ کے ہاں کی سب عورتیں اس قدر حیران ہو رہی تھیں جیسے کہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار یہ چیزیں دیکھی ہوں۔ ۔ ۔“

”جی“
”آ جائیں بھابھی نیچے۔“

نیچے سیڑھیاں تھیں جیسے لمبی لمبی سرنگ، گہرے کالے رنگ کی۔ اس نے جھک کر دیکھا اور ایسا گہرا چکر آیا کہ وہ بھابھی سنبھل کے، بھابھی سنبھل کے۔ ۔ ۔ کی آوازوں کے باوجود وہ کھائی میں جا گری جب اسے ہوش آیا تب سب اس کے اردگرد کھڑے تھے۔ ۔ ۔ ماں باپ، بہن بھائی اور ساس اور صمد۔ بازو اور ٹانگوں پہ خراشیں تھیں جبکہ سر پہ بھی معمولی زخم آیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اصل چوٹ دماغ کے اندر لگی ہے جو ماؤف ہو گیا ہے اور دوسری چوٹ زبان پہ لگی ہے جو سن ہو چکی ہے اور وہ قوت گویائی سے محروم ہو گئی ہے۔

پہلے تو سب اس کی دلجوئی کرتے رہے۔ ۔ ۔ پھر مردوں کے باہر نکلتے ہی مذاق شروع ہو گیا۔ ۔ ۔ اس کی نند اور دو تین سہیلیاں پیش پیش تھیں۔

”بھائی نے زیادہ تھکا دیا کیا؟“

”دلہا دلہن کے کمرے میں نئی چادر لگوا دو۔ ۔ ۔“ ساس کہتی پھر رہی تھیں اور مبارکبادیں وصول کرتی پھر رہی تھی۔ ہنسی خوشی، سب خوش تھے بہت خوش۔ ۔ ۔ پھر وہ اس رنگ میں بھنگ کیسے ڈال سکتی تھی۔ سارے ارمان سو گئے تھے، مر گئے تھے۔

ولیمے میں صمد کی دلچسپی پیسوں کے جمع ہونے تک رہی۔ ۔ ۔ پھر تھکن اور مستقل سردرد کی شکایت اور اس کی بھاری بھاری سانسیں اپنے ہی بوجھ تلے سسک سسک کر دم توڑنے لگیں۔

ساس صدقے واری ہوتی تھی مگر اس کی آنکھوں میں ایک خاص قوت ہوتی تھی، جو اسے اتنا خوفزدہ رکھتی تھی کہ وہ کانپتی رہتی تھی۔ شادی کو ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اسے معلوم ہوا کہ شوہر کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا ہے اور اسے جانا ہے۔

ساس سمجھانے بیٹھ گئیں۔ ۔ ۔ ”خانساماں کی کیاضرورت ہو گی۔ اب تو باورچن بھی تم ہی ہو۔ تم تو ہاتھ بٹاتی ہو گی اپنے ابا کا دیگ بنانے میں؟ ہیں! صفائی ستھرائی اپنے ہی ہاتھ کی اچھی ہوتی ہے۔ دو جنے تو ہو تم لوگ۔ کیا کام ہو گا۔ ماسیاں چور ہوتی ہیں۔ ایسا نہ ہو تمہاری سستی یا کاہلی سے کوئی ہاتھ دکھا جائے اور روتی پھرو۔ ۔ ۔ گھر میں کسی پڑوسن کو بھی مت آنے دینا۔ بڑا برا زمانہ ہے۔ شکل سے ٹھیک ٹھاک نظر آنے والے بھی اندر سے بڑے استادہوتے ہیں۔“

”جی۔ ۔ ۔ جی“ وہ سب کچھ سن رہی تھی بغور۔

”اور تمہاری زندگی ’جینا مرنا سب کچھ اب تو صمد کے ساتھ ہے۔ اس کو تکلیف نہ ہونے دینا۔“ لمحے بھر کو اس کی آنکھیں ساس کی آنکھوں میں ٹھہر گئیں۔ ۔ ۔ پھر چپ۔ اور زندگی میں یوں ایک دم پڑاؤ آیا کہ سب یک دم دور ہو گئے اور نئی جگہ پر نئے لوگ۔ یہاں پہرے تو نہیں تھے نگاہوں کے۔ ۔ ۔ مگر یہاں پر سب سوال چہرے تھے۔

کتنا ہی نہ ملو، نہ دکھو۔ ۔ ۔ نہ جاؤ، نہ آؤ، مگر انسان کو دوسرے انسان کی خوشبو آ ہی جاتی ہے۔

صمد کا رویہ بہتر تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھے جانے والے سوالات و جوابات کی سلیٹ صاف کر دی تھی۔ دونوں نے شاید خود کو ایک دوسرے کی مجبوری سمجھ کر قبول کر لیا تھا یا پھر اسے قسمت کا لکھا مان لیا تھا۔ شام کا وقت دونوں عموماً گھر میں گزارتے تھے یا پھر کسی دعوت میں۔ کسی گھر میں، کسی ہوٹل میں یا کسی سیرتفریح والی جگہ پر جاتے تھے، جیسے دو اجنبی۔ جھجک بھی قدرے کم ہو گئی تھی۔ بات چیت کر لیتے تھے۔ صمد جھینپا جھینپا رہتا اور وہ ڈری ڈری۔

اسے سب ملنے والوں کے سامنے مسکرانا تھا اور ان کی آنکھوں میں دیکھنا تھا جو اس کے لیے موہوم، جانے بوجھے، کچھ انجانے، کچھ سمجھے بوجھے ہوئے اشارے پوشیدہ رکھتی تھیں۔ مگر اب وہ انجان بننے کی اداکاری میں ماہر ہو چکی تھی۔ اسے باہر صمد کا ہاتھ پکڑ کر چلنا بھی آ گیا تھا۔ حالانکہ شروع میں ایسا کرتے ہوئے اس کا پورا جسم کانپتا تھا۔ ۔ ۔ اور انگریزی شوربے میں ڈوبی ہوئی اردو کی مچھلیاں تلاش کر کے جواب دینا بھی آ گیا تھا۔

زیادہ تر لوگ اسے بھابھی کہتے تھے، کوئی صاحب یا صاحبہ کبھی محترمہ بھی کہہ دیتے تھے۔ مگر اسے بڑے عجیب انداز سے دیکھتے تھے، جیسے کہ کچھ کہہ رہے ہوں یا کہنا چاہ رہے ہوں۔ یا کچھ پوچھنا چاہتے ہوں یاپھرطنزیہ ہنسی چھپا رہے ہوں۔ ۔ ۔ اور ان کی بیویوں کے شکوک میں بھیگے ہوئے سوالات۔

”تین سال ہو گئے ابھی تک بچہ نہیں ہے؟
ارے کیا فیملی مکمل نہیں کرنی ہے۔
یہی عمر ہوتی ہے۔ بچے پیدا کرنے اور پالنے کی۔ ”
کچھ عورتیں راز دارانہ انداز میں گردن آگے کو نکال کر پوچھتیں۔

”کوئی مسئلہ ہے کیا؟ ٹیسٹ کراؤ تم لوگ اپنے اپنے۔ اب وہ زمانہ گیا جب کہتے تھے کہ مرد میں کوئی خرابی نہیں ہو سکتی۔ اب تو جدید زمانہ ہے۔ بڑے آرام سے خامی ڈھونڈ لیتے ہیں اور سب علاج بھی ممکن ہے۔“ ایسے لمحے میں اسے ساری خامیاں اپنے وجود میں ہی دکھائی دینے لگتیں اور وہ چھوٹے موٹے جھوٹے سچے جملے بول کر اپنی تشفی اور دوسرے کی تسلی کے سامان ڈھونڈتی۔

مگر۔ ۔ ۔ یہ کچھ دن گزرے۔ ۔ ۔ وہ صابن کی جھاگ سی دنیا میں جیسے ہاتھ پیر مارتی رہتی تھی، جہاں پر ان گنت رنگوں کی لہریں لکن چھپن کھیلتی رہتی تھیں اور وہ خود بے وزن سی پھرتی۔ صمد کا کھانا لینے اس کے آفس سے انور نے آنا شروع کر دیا۔ ابتداء میں تو کھانا باہر سے پکڑوا دیا جاتا تھا مگر پھر وہ گھر کی سبزی اور فروٹ یا دوسرے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے مخصوص ہو گیا۔

کچن میں ٹفن باکس تھماتے یا فروٹ لیتے ہوئے انور کی آنکھوں میں گہری چمک پیدا ہو جاتی تھی۔ اس نے کئی بار سوچا کہ وہ صمد کو کہہ کر۔ ۔ ۔ کسی اور کو کھانا لینے کے لیے کہہ دے۔ ۔ ۔ مگر یہ سوچ کر اسے اور بھی ڈر لگا۔

”صمد کیا کیا سوال پوچھ سکتا تھا۔“
”انور کیوں نہیں۔ ۔ ۔ کوئی اور کیوں؟“

ظاہراً تو انور میں کوئی برائی نہیں تھی۔ کام جلدی کرتا تھا۔ اچھی سبزی اور راشن لاتا تھا۔ کھانا وقت پر آفس پہنچاتا تھا۔ مگر کچھ ایسا تھا جو کہ اسے عجیب عجیب لگتا تھا۔ اس کی نظروں میں کوئی ایسی بات، کوئی ایسا پیغام پوشیدہ تھا جو ذہن، دل اور جسم ایک ساتھ ریسیو کرتے تھے اور یہ پیغام وصول کرتے ہی وہ ساری کی ساری کانپنے لگ جاتی تھی۔

ایسا تب بھی ہوتا تھا، جب جمیل اس کو۔ ۔ ۔ کوئی خط، یاکوئی چھوٹا سا تحفہ بھیجتا تھا۔ یا پھر وہ اسکول سے آتے جاتے اس کی مانڈلی کی طرف دیکھتی تھی۔ ۔ ۔ یا اچانک وہ ابا کو سگریٹ دینے کے بہانے دروازے پر آ جاتا تھا۔ اور پھر وہی ہوا۔ ۔ ۔ جس کا انجانا سا ڈھکا چھپا خوف اسے ڈسے جا رہا تھا۔

آج۔ ۔ ۔ انور نے گہری گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا۔ ۔ ۔ وہ تڑپ کر پلٹی۔ ۔ ۔ مگر بس پھر احتجاج کی قوت دم توڑ گئی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا وجود موم میں تبدیل ہو گیا ہے اور چاروں طرف آگ کے شعلے فروزاں ہیں۔ ۔ ۔ فرار کا کوئی راستہ بھی نہیں۔ شاید وہ خود بھی کہیں کسی آگ میں جلنے کی اذیت سہنا چاہتی تھی مگر اظہار پر قدرت نہ تھی۔ اس کا وجود کسی نامعلوم سہارے کی مدد سے مکمل ضرور نظر آتا تھا مگر ریت کی مانند بھربھرا تھا جو ہلکی سی ٹھیس سے بکھر بکھر گیا۔

مسام مسام، روئیں روئیں سے پھوٹتی ہوئی آواز کی حدت، ہر خوف، ہر اندیشے پہ حاوی تھی۔ تبھی کہیں تیز دستک کی آواز سنائی دی۔ شاید ہلکی ہلکی دستک کی آوازیں ان کی سماعت نے قبول نہیں کی تھیں۔ ۔ ۔

انور یک دم اپنی جگہ پرجامد ہو گیا۔ وہ خواب کے اندھیرے غار سے نکلنا نہیں چاہتی تھی۔ ۔ ۔
”شاید۔ ۔ ۔ شاید۔ ۔ ۔ صمد صاحب آ گئے۔ ۔ ۔“ انور کی زبان لڑکھڑانے لگی۔

”تو کیا ہوا۔“ برسوں سے دبا ہوا لاوا آتش فشاں کا روپ دھار چکا تھا۔ خوف کی سرد لہریں بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکتی تھیں۔

” دروازہ تو بند ہے۔ ۔ ۔ تم ڈر کیوں رہے ہو۔“
”وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ اگر دیوار پھاند کر آ گئے تو۔ ۔ ۔“
”وہ۔ ۔ ۔ دیوار پھاند کر۔ ۔ ۔ ؟“ تضحیک آمیز ہنسی کا فوارہ پھوٹ گیا۔
”اسے دیوار پھاندنی آتی تو آج یہ سب ہوتا؟“

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).