درسگاہوں کے پھاٹک کھول دینا کافی نہیں


15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔ چھ ماہ کے لگ بھگ ہر سطح کی درسگاہوں کی بندش پاکستان بننے کے بعد طویل تریں بندش تھی۔ پاکستان بنتے وقت مہاجرین کی آمد اور دیگر مسائل کے باعث طلبہ کی تعلیم متاثر ہوئی یا وہ رضا کارانہ طور پر خدمات سر انجام دینے کے لئے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے مہاجر کیمپوں اور دوسری ضروری جگہوں پہ آ گئے۔ ان طلباء کو امتحان کے بغیر اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی گئی تھی۔ ہماری تہتر سالہ تاریخ میں مختلف قسم کی تحریکوں، ہنگاموں اور قدرتی آفات کی وجہ سے ادارے مختصر عرصے کے لئے بند ہوتے رہے لیکن یہ طویل ترین بندش ہے۔ اس بندش کے اثرات بھی بہت وسیع ہوں گے۔ ان اثرات کا پوری طرح احاطہ کرنا اور ان کے منفی پہلوؤں کو کم سے کم رکھنا نہایت ہی اہم کام ہے۔

چھٹی اور کام کاج سے دوری ہر انسان کو سست، کاہل اور کسی حد تک کام چور بنا دیتی ہے۔ بچے اور نوجوان تو خاص طور پر ایک بالکل ہی نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ جب ہفتہ اتوار کی چھٹی کے بعد بچوں کو سکول جانا ہوتا ہے تو ان پر کیا گزرتی ہے۔ یہی حال گرمیوں کی تعطیلات اور سردیوں کی مختصر چھٹیوں کے بعد ہوتا ہے۔ سو تعلیمی ادارے دوبارہ کھلنے کے حوالے سے پہلا امتحان تو والدین کو درپیش ہو گا کہ وہ درسگاہوں سے دور، کلاس روم، کتابوں اور ٹیچر سے دور، تفریح اور آرام پسندی کے مزاج میں ڈھل جانے والے بچوں کی باگیں دوبارہ رسمی تعلیم کی طرف موڑیں۔

یہ کام خاص طور پر چھوٹے بچوں کی حد تک بڑا مشکل ہے۔ والدین کو خصوصی توجہ کے ساتھ اس مسئلے سے نبٹنا ہو گا۔ زور زبردستی سے معاملہ بگڑ بھی جاتا ہے۔ خاص طور پر یہ مسئلہ دیہات میں شدت سے ابھرے گا۔ ہمارے ہاں پہلے ہی دوران تعلیم، سکولوں سے اخراج یعنی ڈراپ آؤٹ (dropout) کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک جامع جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پرائمری سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں میں سے صرف 69 فی صد پانچویں جماعت تک پہنچتے ہیں۔

گویا 31 فیصد کسی نہ کسی وجہ سے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ باقی بچ جانے والوں میں سے 28 فیصد میٹرک کی سطح تک رسائی حاصل کرتے ہیں، گویا کم و بیش 62 فیصد بچے مختلف وجوہات کی بنا پر چھٹی سے دسویں جماعت کے دوران سکول سے باہر آ جاتے ہیں۔ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے بچوں میں سے صرف 20 فیصد کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔ اسکول میں داخلہ لینے اور کسی نہ کسی وجہ سے رسمی تعلیم ترک کر دینے والے بچوں کے تناسب کا جائزہ لیتے، یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے کم وبیش آدھے بچے پہلے سے ہی درسگاہوں سے باہر ہیں۔ ان کی تعداد، اڑھائی سے تین کروڑ کے درمیان ہے۔

میں نے ’ڈراپ آؤٹ ”کے اعداد و شمار اس لیے پیش کیے ہیں کہ اگر والدین، اساتذہ، تعلیمی اداروں کے منتظمین اور حکومت نے اجتماعی کوشش نہ کی تو کرونا کے بعد“ ڈراپ آؤٹ ”کی شرح میں اضافے کا خطرہ ہے۔ چھ ماہ کے دوران ایک خاص ذہنی اور نفسیاتی مزاج میں ڈھل جانے والے بچوں کو پھر سے سکولوں کی طرف بھیجنا آسان نہیں ہو گا۔ ایک جڑا ہوا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کرونا کے سبب بے روزگاری بڑھی ہے۔ غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

شدید مہنگائی نے کم آمدنی والے خاندانوں پر نہایت مہلک اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کا قوی امکان ہے کہ غریب والدین، جنہوں نے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیج تو دیا تھا، اب ان کے معمولی اخراجات بھی برداشت نہ کر سکیں اور خود ہی بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے کسی ورکشاپ یا کسی چھوٹے موٹے ہوٹل میں کام پر لگا دیں۔ تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کی دال روٹی چل سکے۔

فوری طور پر توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ کیا تعلیمی اداروں میں ہماری نوجوان نسل کو کرونا سے محفوظ رکھنے کے تمام تر انتظامات ہو گئے ہیں؟ کیا ضروری حفاظتی تدابیر کو یقینی بنا لیا گیا ہے؟ کیا اساتذہ کو اس معاملے میں کوئی خصوصی تربیت دے دی گئی ہے؟ کیا ماسک یا سینی ٹائزر اور ضروری اشیاء کی دستیابی کی ذمہ داری ریاست نے لی ہے یا یہ بوجھ بھی والدین کو اٹھانا ہو گا؟ اگر ہمارے نظام کی خرابیوں اور حکومتوں کی روایتی پالیسیوں پر نگاہ رکھی جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ”حفاظتی تدابیر“ کاغذوں پر یا صرف منہ زبانی ہوں گی اور عملاً ہمارے بچے ایک سنگین خطرے سے دوچار رہیں گے۔

کرونا ہر گز ختم نہیں ہوا۔ بھارت میں کل کی رپورٹ کے مطابق ایک دن میں کرونا کے کوئی نوے ہزار مریض سامنے آئے۔ پاکستان اور بھارت کے عمومی حالات، لوگوں کا رہن سہن اور سماجی رویے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ اس کا جائزہ لینا پڑے گا کہ ہمارے ہاں مریضوں کی شرح اتنی کم کیوں آ رہی ہے؟ کیا ٹیسٹنگ کم ہو گئی ہے؟ یا مریض ڈر کے مارے گھروں میں دبک گئے ہیں؟ گزارش صرف یہ مقصود ہے کہ تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد بچوں کو ایک۔ ”ریوڑ“ کی طرح اپنے حال پر نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ ان کی صحت کی مسلسل مانیٹرنگ بہت ضروری ہو گی۔

نصابی اور تدریسی پہلوؤں سے بھی نئے مسائل سامنے آئیں گے۔ بظاہر آن۔ لائن ایجوکیشن کا سلسلہ تو ضرور شروع کیا گیا لیکن یہ بے شمار مسائل کا شکار رہا۔ اگر اس کے کچھ مفید اثرات مرتب بھی ہوئے ہیں تو وہ صرف اعلیٰ تعلیم تک محدود ہیں۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ 80 فیصد کے لگ بھگ ادارے جن میں دیہات اور شہروں کے سرکاری ادارے شامل ہیں، کسی آن۔ لائن ایجوکیشن کا اہتمام کر ہی نہیں سکے۔ یہ بچے وہیں سے سلسلہ تعلیم شروع کریں گے، جہاں انہوں نے چھ ماہ پہلے چھوڑا تھا۔

لیکن اس دوران انہیں اگلی جماعتوں میں ترقی دی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ چھٹی جماعت میں تھا تو وہ اپنی تعلیمی استعداد سے قطع نظر، آج ساتویں جماعت میں آ گیا ہے۔ اب اسے اپنی استعداد سے کہیں آگے کا نصاب پڑھنا ہے۔ کیا وہ یہ نیا بوجھ اٹھائے گا؟ یا بغیر امتحان کے دی جانے والی ترقی ”ڈراپ آؤٹ“ میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟ تعلیمی عمل کے منتظمین کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کیا طلبہ و طالبات کی صحیح استعداد اور اس کے مطابق ان کی کلاس کا تعین کرنے کے لئے خصوصی امتحان کا اہتمام نہ کیا جائے؟ اس سے یہ ہو گا کہ چھٹی سے ساتویں میں جانے کی قابلیت نہ رکھنے والا بچہ، چھٹی جماعت میں ہی رہے گا اور کرونا کی رعایت کا اطلاق اس پر نہیں ہو گا۔

اسی طرح کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے طلبا و طالبات کے بھی مسائل ہیں، جن کی نوعیت سکول کے بچوں سے مختلف ہے۔ ان کا احاطہ کرنے اور منفی اثرات سے بچنے کے لئے موثر حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر حفاظتی تدابیر کے ضمن میں سماجی فاصلے (social distance) کی بات کی جاتی ہے۔ کالج اور جامعات کھلنے کے بعد، پہلے سے موجود کلاس رومز میں طالب علموں کے درمیان مناسب فاصلہ کس طرح یقینی بنایا جائے گا؟ کرونا سے قبل ایک کمرہ جماعت میں اگر چالیس طالب علم لیکچر سنتے تھے تو کیا اب یہ تعداد کم کر دی جائے گی یا نئی تعمیر کے ذریعے کمرہ جماعت کو وسعت دی جائے گی؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ کرونا کی طویل بندش کے بعد تعلیمی اداروں کا کھلنا نہایت توجہ طلب معاملہ ہے۔ اسے صرف بند پھاٹکوں کے کھل جانے کا معاملہ سمجھ کر مطمئن ہو کے بیٹھ جانا، اپنی نسل اور تعلیمی اہداف و مقاصد سے نا انصافی ہو گی اور یہ بہت بڑا قومی زیاں بھی ہو گا۔
۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).