عثمان بزدار درندوں کے تعاقب میں


لاہور سیالکوٹ موٹروے پر 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی شب انتہائی دلخراش واقعہ رونما ہوا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس واقعہ پر ہر پاکستانی خواہ وہ مرد ہو یا عورت سب کی ہمدردیاں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کے ساتھ ہے جبکہ ہر کوئی یہ بھی مطالبہ کر رہا ہے کہ واقعہ میں ملوث، لزمان کوجلد گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے۔ اس واقعہ پر اگر خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تو وہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ارباب اختیار کی توجہ اس جانب دلائی کہ پاکستان میں امریکہ یا بھارت کی طرح خواتین کی سڑکوں پر پامالی اس پاک دھرتی پر ہونے نہیں دیں گے۔ اب تک کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ کرول جنگل کتنا خطرناک جنگل ہے اور یہ جنگل اس لئے خطرناک نہیں کہ یہاں جنگلی جانور پائے جاتے ہیں بلکہ اس جنگل کی آڑ میں انسانی درندوں نے جس طرح ایک خاتون کے جسم کی بوٹیاں اس کے بچوں کے سامنے نوچیں شاید اس جیسی درندگی کسی جانور نے بھی نہ کی ہوگی۔

واقعہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں آنے کے بعد لوگ کورونا تک کو بھول گئے، ہر کوئی اس واقعہ کی گہرائی میں اس قدر کھو گیا کہ جیسے کوئی اپنا ہو حالانکہ اس سے قبل بھی کئی ڈکیتی کے واقعات ہوچکے ہیں، دنیا میں کئی گینگ ریپ کے واقعات بھی ہوئے لیکن معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ گھناونی و شرمناک حرکت، نہ جانے کیسے اس زمین نے برداشت کرلی، نہ جانے کیسے جنگل کے درختوں نے یہ منظر دیکھا ہوگا، رات کی سیاہ تاریکی بھی اپنا منہ چھپاتی ہوگی۔ یہ کیسے درندے تھے جو جسم کو نوچ کر جنگل میں یوں غائب ہوگئے جیسے کوئی انسان نہیں بلکہ بھوت ہوں۔

پولیس نے دونوں ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں خصوصی تشکیل دیدی ہیں جبکہ ملزمان تک رسا ئی کے لئے ملزمان کے خاکے بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ دونوں ملزمان عادی مجرم ہیں۔ ملزم عابد اس سے پہلے ایک خاتون اور اس کی بیٹی کے ساتھ بداخلاقی میں بھی ملوث پایا گیا تھاجبکہ دونوں ملزمان ڈکیتیوں کی متعدد وارداتوں میں بھی جیل جا چکے ہیں۔ کر یمنل ڈیٹا بیس میں عابد علی 2013 ء سے موجود ہے۔ 2013 ماہ جون میں ملزم عابد اپنے 4 ساتھیوں کے ہمراہ محمد شکور نامی دیہاتی کے گھر گھس گیا تھا اور اسلحہ کے زور پر اہل خانہ کو یرغمال بنا کر رسیوں سے باندھ دیا تھا، اس وقت کی ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے گھر میں موجود ماں بیٹی کو اجتماعی بداخلاقی کا نشانہ بنایا اور فرار ہو گئے، اہل علاقہ نے ملزمان کو علاقہ بدر کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جس کے بعد وہ اہل خانہ کے ہمراہ چھانگامانگا میں رہنے لگا۔ تفتیش کے دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ملزم عابد کے نام موبائل ٹیلی فون کی 4 سمیں تھیں لیکن وہ انہیں استعمال نہیں کر رہا تھا، ملزم عابد کا ایک اور نمبر ملا جس کی مدد سے دوسرے ملز م وقار الحسن کا بھی سراغ ملا جو کہ ملزم عابد کا ساتھی ہے۔ دونوں ملزمان ابھی فرار ہیں۔

اس اندوہناک واقعہ کے فوراً بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے ذاتی طو رپر اس کیس پر ہونے والی پیشرفت کی نگرانی شروع کردی تھی۔ وزیر اعلیٰ موٹر وے کیس سے متعلق پل پل کی رپورٹ لے رہے ہیں، 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ملزمان تک پہنچنا، پنجاب حکومت کی بڑی کامیابی ہے، ایسا لگ رہا جیسے وزیر اعلیٰ عثمان بزدارخود مجرموں کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں اور جلد انھیں پکڑ کر عبرت کا نشان بنائیں گے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر پنجاب پولیس کی ہیلپ لائن 15 اورپنجاب ہائی وے پٹرولنگ کی ہیلپ لائن 1124 کو موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن 130 کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔

لاہور سیالکوٹ موٹروے پر موٹروے پولیس کی تعیناتی تک پنجاب پولیس فرائض سرانجام دے گی۔ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ، سپیشل پروٹیکشن یونٹ اور ایلیٹ فورس کو تعینات کر دیا گیا ہے اور لاہور سیالکوٹ موٹروے کے 91 کلومیٹر روٹ کو 3 بیٹ میں تقسیم کیا گیاہے جبکہ ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والوں کو 25، 25 لاکھ روپے انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اس واقعہ سے متعلق سارا دن اہم اجلاس کے علاوہ لمحہ بہ لمحہ واقعی کی رپورٹ لیتے رہے اور ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کرتے رہے۔

بلاشبہ پنجاب حکومت اس کیس پر پوری طرح فوکس کیے ہوئے ہے۔ انسپکٹرجنرل پنجاب پولیس انعام غنی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اصل ملزمان تک پہنچنے میں پوری سپورٹ دی اور ان کی رہنمائی میں ہم اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس کیس کی تفتیش کے حوالے سے 28 ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں۔ موٹر وے گینگ ریپ کیس حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج کیس بن گیا ہے، سب کی نظریں اس کیس پر ہیں اور سب یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ پنجاب حکومت جلد درندہ صفت انسانوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے گی۔ عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ انسانیت کو روندنے والے حیوانوں کو ایسی سزا ملنی چاہیے کہ پھر کبھی کوئی ماں، کوئی بہن، کوئی بیٹی ہوس کے پچاریوں کا نشانہ نہ بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).