اے پی سی کمیٹی نکلنے والی نہیں!


دنیا بھرمیں سیاست اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں سیاست کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں، ہماری سیاست قومی کی بجائے ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کے گرد گھومتی ہے۔ اس بات کو جس طرح عالمی سچائی کا درجہ حاصل ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، اسی طرح ہماری قومی سچائی ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے، سیاست میں نہ دوستی نہ دشمنی مستقل ہوتی ہے۔ اس میں آج کے دوست کل کے دشمن بن سکتے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست قرار پاسکتے ہیں۔

ہماری سیاست کا کمال رہا ہے کہ اس میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنایا جاتا ہے، مگر اس پر کوئی تعجب نہیں کرتا، کیو نکہ یہ سب کچھ ہمارے معمولات زندگی میں شامل ہو چکاہے۔ اس کی تازہ مثال اپوزیشن جماعتوں کے ایسے قائدین کی ملاقاتیں ہیں کہ جو ایک دوسرے کوسڑکوں پر گھسیٹنے اور چوک، چوراہے پر لٹکانے کے دعوئے کیا کرتے تھے، مگر اب ذاتی مفاد کے پیش نظر حکومت گرانے کے ایجنڈے پر متحد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ امرواضح ہے کہ جمہوریت میں حکومت گرانے یا قبول کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، تاہم اپوزیشن، حکومت گرانے میں جمہوریت کو بھی داؤ پر لگانے کاخطر ناک کھیل کھیل رہی ہے، حالانکہ اپوزیشن میں کافی سمجھدار پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جوناسمجھ کم پڑھے لکھوں کو بتا سکتے ہیں کہ حکومتوں کوگرایا نہیں، تبدیل کیا جاتا ہے، جس کے لیے جمہوری طریقہ ہی سب سے بہتر ہے، لیکن اس وقت اپوزیشن ایسے مرحلے سے گزر رہی ہے کہ غلط، صحیح، جائز ناجائز کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ حکومتی وزراء کے مطابق سابقہ دس سال کی لوٹ مار کے بعد پہلی بار ملک ترقی کی جانب گامزن ہے، اپوزیشن اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر حکومت کو آسانی سے ترقی کے راستے پر چلنے دیاگیا تو اپوزیشن کے لیے پھر اندھیرا ہی اندھیرا رہ جاتا ہے۔

تحریک انصاف حکومت بہت سے بحرانوں سے نبر آزما ہونے کے باوجود آہستہ سنبھل کر آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت ملکی معیشت بہتر بنانے کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی سے مخالف بھی دوست بنائے ہیں، یہ دوست خاص طور پر چین جیسا بڑا دوست ہماوقت ہر مشکل میں ساتھ ہے، روس اور امریکا بھی عمران خان کی دوستی کا دم بھر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اپوزیشن کے لیے حکومت گرانا آسان نہیں، جبکہ عوام بھی اپوزیشن کے احتجاج کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگرچہ جمہوریت میں کارکردگی کے حوالے سے حکومتوں کو ہٹانا، عام سی بات ہے، لیکن صرف نفرت اور مخالفت میں حکومتوں کو گرانے کی کوشش غیر اخلاقی اورغیر جمہوری ہے۔ اپوزیشن غلط اور صحیح سے قطع نظرصرف حکومت گرانے کی خواہشمند ہے، ایک غلط مقصد جب ذہن میں بیٹھ جاتا ہے اور سیاسی و ذاتی مفادات کی آنچ تیز ہو جاتی ہے تو انسان کے لیے غلط صحیح، جائز ناجائز کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔

اپوزیشن، حکومت مخالفت میں جمہوری و اخلاقی روایات سب کچھ بھول چکی ہے، اپوزیشن حکومت دشمنی میں اس قدر جذباتی ہوگئی ہے کہ قوم کا روشن مستقبل بھی نظر انداز کر رہی ہے۔ پاکستان اندھیروں سے نکل کر اب ترقی کے اجالوں کی طرف آ رہا ہے، یہ بات حکومتی مخالفین کو نہیں بھا رہی ہے، وہ ہر حیلے، ہر بہانے حکومت کو گرانے پر تلے ہوئے ہیں، لیکن حکومتی مخالفین اس طرف توجہ نہیں دے رہے کہ درمیان میں بائیس کروڑ عوام ہیں، عوام کے سمندر کو پار کرنا بہت مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے، لیکن اقتدار کی ہوس میں ہر کوئی سب کچھ بھول جاتا ہے۔

حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن نے جتنے کھیل کھیلنے تھے کھیل لیے، ایک آخری کھیل اے پی سی کا باقی ہے، اپوزیشن اس طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے حیرت ہے کہ یہ کھیل اس سے قبل کئی بار کھیلا جا چکا ہے اور ہر بار اپوزیشن کو ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اقتدار کی ہوس میں اپوزیشن کو ناکامیاں نظر نہیں آتیں، وہ ناک کی سیدھ میں اپنی ناک بچانے اور ذاتی مفادات کے حصول میں غلطی پر غلطی دہرانی کی عادی ہو چکی ہے۔

اس وقت ملک کے اندرونی اور بیرونی بے شمار دشمن کسی طرح بھی پاکستان میں یکسوئی اور امن دیکھنا نہیں چاہتے، کیونکہ اگر ملک میں یکسوئی اور امن رہا تو ملک تیزی سے ترقی کرتا چلا جائے گا اور پاکستان کے دشمن ہرگز اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان یکسوئی اور امن کے ماحول میں آرام سے ترقی کرتا رہے، اس لیے سازشوں میں متحرک ہیں، اپوزیشن غیر ارادی طور پر ملک میں افراتفری اور امن و امان کی صورتحال پیداکرنے کی کوشش کرکے ملک دشمن قوتوں کا ساتھ دے رہی ہے، پٹرول، چینی اور آٹے کے بحران اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں، لیکن یہ دونوں وار بھی خالی گئے، اپوزیشن کی جانب سے اب آخری گیم پلان اے پی سی کھیلنے کی تیاری ہو رہی ہے، لیکن اس کے اعلامیہ میں جو اہداف مقررکیے گئے، ان سب کا حصول فی الحال مشکل لگتا ہے، کیونکہ سیاسی کارکنوں کے احتجاج اور محض سینیٹ میں تبدیلی سے حکومت گرنے والی نہیں ہے۔

حکومت کو ہٹانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کا ایک پیج پر ہونا لازمی ہے۔ اپوزیشن کو اپنی توانائیاں منفی سر گرمیوں پر صرف کرنے کی بجائے اپنی سیاست کے سکڑنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، اگر اپوزیشن یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد جائیں گے اور گوجرانوالہ پہنچنے پرفون کال آئے گی تو ایسا ہر گز نہیں ہے اپوزیشن جماعتوں میں مفادات کے ٹکراؤ کے باعث اے پی سی کی کمیٹی نکلنے والی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).