کیا ہم ایک دوسرے کی بد دعاؤں میں ہیں؟


الفاظ اہمیت رکھتے ہیں، ان کے ذریعے خواہشات کی ادائیگی، امید کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ آپ کی سچائی اورجھوٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ غصہ، پیار، خلوص، دھمکی، دوستی دشمنی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ شر اور خیر پھیلانے کی قوت رکھتے ہیں۔ انسان الفاظ کے ذریعے ہی اپنے عزائم کا اظہار کرتا ہے اور پھر انہیں پورا کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ الفاظ کہیں فضاؤں رہ جاتے ہیں اور پلٹ کر ہماری زندگیوں میں داخل ہو کر ہماری خواہش کے مطابق اسے تبدیل کرتے ہیں۔

اسلامی شعائر پر ایمان رکھنے والوں کا قوی عقیدہ ہے کہ، دعا اوربد دعا کا اثر ہو تا ہے۔ اس کے لیے عمارتوں پر ماشا اللہ لکھنے، کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے، کسی اچھی بات پر ماشا اللہ کہنے اور دعا دینے کی ہماری ایک اچھی عادت ہے۔ لیکن بری اور تکلیف دہ باتوں پر بے اختیار ہمارے دل اور زبان سے کم بخت، بیڑا غرق اور خدا غارت کرے نکلتا ہے۔ یوں ہم من حیث القوم ایک دوسرے کی بد دعاؤں کے اثر میں ہیں۔ کسی بھی قسم کی اذیت سہنے پر ہماری زبان سے بے ساختہ مذکورہ الفاظ نکلتے ہیں۔ دیکھیے درج ذیل چند جملوں میں کون سا جملہ ہمارے لیے کہا گیا ہے۔

کمبخت قصائیوں کے منہ کتنے کھلے ہوئے ہیں۔
کتنا لیچڑ ہے کمبخت۔
کمبختوں نے کتنا زیادہ بل بھیج دیا ہے۔
آن لائن کچھ منگایا تو پکار پڑی ارے کمبختو ں نے لوٹ لیا۔
منحوس ٹرین لیٹ تھی۔
منحوس ہر سال سڑک بناتے ہیں اور ہر سال گڑھے پڑ جاتے ہیں۔
خدا غارت کرے ان بجلی والوں کو۔
پتہ نہیں کون کمبخت آ رہا تھا۔ ٹریفک جام میں آدھا گھنٹہ پھنسا رہا۔
اور تو اور ملکی سربراہ کو کوستے ہیں۔
یہ جب سے آیا ہے سکون غارت ہو گیا ہے، اور کمبخت کہتا ہے سکون قبر میں ہی ملے گا۔

ارے بیگم ذرا مجھے کوئی دوسری قمیص نکال دو، پتہ نہیں کس کمبخت نے اپنے کچن سے سالن کی تھیلی نیچے پھینک دی۔

کم بخت کس قدر برا گا رہا ہے۔
کم بخت چینل تو اتنے سارے ہیں پر کہیں سے بھی ڈھنگ کا پروگرام نہیں آتا۔
ابھی تو بڑھائے تھے کرائے، کمبختوں نے دوبارہ بڑھا دیے۔
پڑھائی ہو نا ہو، ان کمبخت اسکول والوں کو تو فیس سے مطلب ہے۔
کم بخت بجلی چوروں نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے۔
کم بخت بلاوجہ ہارن بجاتا ہوا جا رہا ہے۔
کمبختوں نے لاؤڈ اسپیکر کھول دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).