کتا دریا کی طرف گیا ہی کیوں تھا؟


کسی ماں کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک مرحلہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی اولاد کے سامنے اس کا دامن تار تار کر دیا جائے۔ یہ درندگی کی انتہا سے بھی کوئی پرے کی چیز ہے کہ اولاد کو سامنے کھڑا کیا جائے اور ان کی ماں کی عزت کا تماشا لگایا جائے۔ بلا شبہ جس طرح ان درندوں نے اولاد کے سامنے ممتا کو ذلیل کیا، ان کی جنت کی بے توقیری کی اور ان کی پہلی تربیت اجاڑی، بالکل اسی طرح پورے ملک کے سامنے ان درندوں کو بھی نمونہ عبرت بنانا چاہیے۔

پاکستانی قوم کی تو یہی آواز ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ ”رہنما“ سرعام سزا کو غیر انسانی رویہ کہتے پائے جاتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ ان دردندوں نے جو حرکت کی کیا وہ انسانی رویہ تھا؟ جس طرح کا جرم ہوتا ہے اسی طرح کی سزا دی جاتی ہے لیکن سر عام سزا کا یہ کمال ہے کہ اس سے جرم رک جاتا ہے۔ نبی کریم اور خلفائے راشدین کا سنہری دور اس کا شاہد ہے۔

سزا دینے کا مقصد کسی انسان کو تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کو ممکنہ تکلیف سے بچانا ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے موقعوں پر ”عبرۃ“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کے ساتھ ”اولی الالباب“ اور ”اولی الابصار“ کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ یعنی سرعام سزا دینے میں عقلمندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ کیا نشانیاں ہیں؟ یہی کہ جب کسی کو سرعام سزا ملے گی تو اس سے دوسرے لوگ عبرت پکڑیں گے، ان کے دلوں میں خوف پیدا ہو گا اور یوں وہ کسی جرم کا ارتکاب سے باز رہیں گے۔

مجرم کا دائرہ صرف جرم تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے جرم دو انتہائی اہم پہلو ہیں ؛ اول، وہ معاشرتی بگاڑکا سبب بنا اور دوم، وہ دوسروں کی جسمانی اور ذہنی آزاری کا سبب بنا ہے۔ سزا کا فلسفہ انہی دو چیزوں سے معاشرے کو محفوظ رکھنا ہے اور سر عام سزا چیز کو حد درجہ یقینی بناتی ہے جس کی قریبی مثال ضیاء الحق دور کا واقعہ بھی ہے۔

جنرل ضیا کے دور میں ایک بچہ اغوا ہوا جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا، قاتل گرفتار کیے گئے اور انہیں فیروز پور روڈ ( لاہور) میں سرعام پھانسی دی گئی جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا، اس کے بعد مدتوں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ کل جب قصور میں زینب کے ساتھ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا تو بھی عوام کو ضیا دور کا وہی واقعہ یاد آیا اور آج جب ایک ماں کو اس کی اولاد کے سامنے تار تار کیا گیا تب بھی لوگوں کو وہی واقعہ اور اس کے ثمرات یا د آنے لگے۔

ایک بات طے ہے اور بے شک اس کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیں کہ جرائم میں کمی یا روک تھام کا جو کام پولیس اور عدلیہ کی نفری اور تنخواہیں بڑھا کر نہیں کیا جا سکاوہ کام کسی مجرم کو سرعام عبرت ناک سزا دے کیا جا سکتا ہے۔ جب بھی اس واقعے کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اسے ”آمر کا فعل“ کہہ کر بحث کا رخ ہی یکسر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز کا دانشور بھی عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ چاہ کر بھی قرآن مجید کا مذاق تو اڑا نہیں سکتا لہذا اس طرح کے واقعات کو مولوی، مدرسے یا ضیا کے کھاتے میں ڈال کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے۔

حکمران بھی اسی منافقت کا شکار ہیں، جب سوال ہو کہ اقتدار کسے دیا جائے گا تو کہتے ہیں جسے عوام کی اکثریت ووٹ ڈالے گی لیکن جب معاملہ سرعام سزاؤں کا ہو تو اسی اکثریت کی رائے کو پس پشت ڈال کر آٹے میں نمک برابر دانشوروں کی سنی جاتی ہے یا مغربی این جی اوز کی۔ سچ ہے کہ مانگ کر کھانے والا اپنے فیصلوں میں کیونکر آزاد ہو سکتا ہے؟

بحث کا دوسرا پہلو جرم ہونے کے بعد عوام اور انتظامیہ کے رویے کے متعلق ہے۔ حکمران کا کام یہ ہے کہ جرم روکنے کی پوری کوشش کرے۔ اگر پھر بھی جرم ہو جائے تو مجرم کو قرارواقعی سزا دے، یہی حاکم وقت کا فریضہ ہے۔ نبی کریم اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی ایسے واقعات ہوئے لیکن فرق یہ ہے کہ وہاں مجرموں کو نمونہ عبرت بنایا گیا۔ آج بھی اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو دیکھا جائے گا کہ حاکم وقت کا ردعمل کیا تھا؟ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ لاہور موٹروے کیس میں انتظامیہ کا ردعمل بالکل معقول نہیں تھا۔

عورت دائیں بائیں فون گھما رہی ہے اور اسے جواب دیا جا رہا ہے کہ یہ ان کا ایریا نہیں ہے۔ جب جرم ہو گیا تو یہ بیان دیا گیا کہ غلطی عورت کی تھی، اسے آدھی رات کو باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا، پٹرول چیک کرکے نکلنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔ کوئی مہذب انسان یا معاشرہ اس طرح کی گفتگو کا حامل ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر آپ کو اس معاشرے میں زندہ رہنا ہے تو ماننا پڑے گا کہ غلطی عورت کی تھی۔ آئیے ساتھ مل اعتراضات کا ایک چارٹ بناتے ہیں کہ وہ اکیلی کیوں نکلی تھی؟

ماں کا کیا کام ہے کہ بچوں کے ساتھ جائے؟ اس نے بچوں کو وہیں کیوں نہ چھوڑا؟ اس نے باڈی گارڈ کیوں نہیں رکھے تھے؟ اس نے کار کے شیشے سٹیل کے کیوں نہیں لگوائے تھے؟ اس نے پاکستان کو فرانس کیوں سمجھ لیا تھا؟ اس نے یہ تصور بھی کیوں کر لیا تھا کہ ریاست مدینہ وجود میں آ گئی ہے؟ اس نے کوئی پستول یا گن وغیرہ کیوں نہیں خریدی تھی؟ اس نے عزت کے لٹیروں کو قانون سے کیوں نہیں ڈرایا؟ وہ جہاز سے بھی لاہور آ سکتی تھی؟

سب سے اہم بات کہ اس نے یہ واقعہ پڑھا ہی کیوں تھا کہ دریا کے کنارے کتا مر جائے تو ذمہ دار حاکم وقت ہوتا ہے؟ وہ چودہ سو سال پرانے دور میں کیوں زندہ تھی؟ اسے یہ کیوں معلوم نہیں تھا کہ اب حاکم خاموش رہتا ہے اور اس کے وزیرذمہ دار افسروں کا دفاع کرتے ہیں؟ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ پرانے وقتوں کی بات تھی جب حاکم ذمہ دارہوتا تھا، اب سوال یہ نہیں ہے کہ حاکم وقت ذمہ دار ہے یا نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے کا سوال یہ ہے کہ کتا دریا کی طرف گیا ہی کیوں تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).