جرم، قانون اور عدالت


ہماری اکثریتی آبادی غربت کے گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ زندگی، گردوغبار سے اٹی ہوئی گلیاں ٹوٹی دیواروں غلیظ نالیوں کے کنارے گزر جاتی ہے۔ غریب آدمی کو روٹی روزی کی دوڑ دھوپ میں پتا ہی نہیں چلتا کہ بچے کب پیدا ہوئے، کب جوان ہوئے اور کب گزر گئے۔ گزشتہ تہتر سالوں سے یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ ایسے افراد پر مشتمل کروڑوں کی آبادی کا کیا مستقبل ہے؟ تیسری دنیا کے متعدد ممالک کی زندگی ایسی ہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی فلاحی تنظیموں کا مقصد غریب عوام کو غربت کی چکی سے نکال کر زندگی گزارنے کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہے۔

یہ بات نئی نہیں ہیں کہ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور معاشرے میں جرائم کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں، خصوصاً ایسے معاشرے میں جہاں اکثریتی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزرانے پر مجبور ہو اور انصاف بکتا ہو۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جرم کے بعد معاشرے کا ردعمل کیا ہوتا ہے یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں مجرم کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں۔ اسی طور معاشرے کے اچھے یا برے ہونے اور اخلاقیات کے اعلیٰ یا پست ہونے کا معیار مقرر کیا جاتا ہے۔

جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور عدالتوں کا انصاف اہمیت کا حامل ہو وہیں معاشرے میں افراد کی رائے اور ردعمل اہم ہے۔ اب یکے بعد دیگرے ان کرداروں کا جائز ہ لیں اور خیال کریں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ میرا جسم، میری مرضی کے ناقدین کا ماننا ہے کہ اگر عورت ماڈرن اور چست لباس پہنے گی یا حجاب کے بغیر اور بن ٹھن کر بازار میں نکلے گی تو مردوں کے جذبات برانگیختہ ہوں گے ۔ اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات ہونا منطقی اور برحق ہے۔

حضور! حالیہ واقعے میں جب عورت گاڑی کے اندر لاک کرکے بیٹھی ہو تو درندے شیشے توڑ کر زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں تو یہ جواز اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ اب قانون کے محافظ کا ایک بھونڈا منطق سامنے آتا ہے۔ سی سی پی او لاہور عمرشیخ کی سوچ ایک مخصوص ذہنیت کی نمائندہ ہے جو مملکت خداداد کے باسیوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اب ایسی بیمار سوچ اور مائنڈ سیٹ کا دفاع کرنے والے حکمران مسلط ہوں گے تو یہی کچھ ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے ٹیکس پر عیاشیاں کرتے ہیں اور جب فرض سے غفلت برتنے پر سوال کیا جاتا ہے تو الٹا مظلوم کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

اب ہمارے ہاں انصاف واقعی اندھا ہے۔ ایک فلم میں جج کہتا ہے کہ کیس فائل ہونے کے بعد جج کو جلد اندازہ ہوجاتا ہے کہ مجرم کون ہے مگر وہ ثبوت تلاش کرتا رہتا ہے۔ خیر سے ہمارے ہاں انصاف کا نظام اتنا مہنگا اور صبرآزما کام ہے کہ بہت سے لوگ بے گناہی ثابت کرنے تک یا تو سزا پوری کرچکے ہوتے ہیں یا دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اسی دوران وہ اپنی جمع پونجی ختم کرکے ادھار لے لے کر ہمت ہار جاتے ہیں۔ اس واقعے میں ظلم کا شکار ہونے والی خاتون سمیت بیرون ملک کام کرنے والے کتنے پاکستانی یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ”خوشی کے ایام“ گزارنے کے بعد اپنے بچوں کو پاکستان کے ”روایتی معاشرے“، ”مہذب خاندانوں“ اور ”ریاست مدینہ“ میں اسلامی شعائر سکھانے کے لیے لے کر آتے ہیں جہاں کسی معمولی جرم کے لیے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروانے سے لے کر تفتیش اور عدالتی کارروائیوں میں زندگیاں بیت جاتی ہیں۔

وہ ان ممالک سے واپس آتے ہیں جہاں اگرچہ سزائے موت کا قانون نہیں مگر یا تو جرائم کی شرح کم ہے یا قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کا ساتھ نہیں دیتے اور قانون کی حکمرانی اور شفافیت موجود ہے۔ جہاں کانسٹیبل کو سرعام کچلنے والے سزا سے نہیں بچ پائے گا اور جہاں وزیراعظم اپنی کرسی بچانے کے لئے کسی کو احتساب سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ جہاں ریاستی ادارے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہوتے اور جہاں خاتون اول کی سفارش سے نہیں بلکہ کام اور اہلیت کی بنیاد پر تعیناتی ہوتی ہے۔ اب یہاں یہ مشکل ہے کہ حکومت پر تنقید کرو گے تو غداری کا پرچہ کٹے گا اور ان کے آقاؤں سے متعلق بات کی تو سرراہ اپنی سواری چھوڑ کر شمالی علاقہ جات کی سیر کو جانا پڑے گا اور اگر قسمت سے زندہ بچ گئے تو آپ کا سافٹ ویئر تبدیل ہوچکا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).