سائنس کی دنیا سے


1۔ نئی شائع شدہ تحقیق کے مطابق روسی ویکسین نے کورونا وائرس کے خلاف کامیابی سے دفاعی نظام کو متحرک کیا۔

لینسٹ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق روسی ویکسین نے وائرس کے خلاف کامیابی سے اینٹی باڈیز پیدا کیں اور اس کے کوئی مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے۔ واضح رہے کہ روس وہ پہلا ملک تھا جس نے تحقیق کے نتائج شائع ہونے سے پہلے ہی اگست میں ویکسین کو ملکی استعمال کے لیے منظور کر لیا تھا۔ یورپی سائنسدانوں نے ویکسین کو اس تیزی سے منظور کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

2۔ نئی تحقیق کے مطابق چہرے کی حفاظتی ڈھال اور والو والے ماسک کورونا وائرس کے خلاف موثر حفاظت نہیں کر سکے۔

ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور باقاعدگی سے ہاتھ دھونا کرونا وائرس سے بچنے کے ثابت شدہ طریقے ہیں۔ تاہم سرجیکل ماسک کے بجائے چہرے پر پلاسٹک کی شفاف حفاظتی ڈھال اور والو والے ماسک کے استعمال میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں نے جب ان کی وائرس سے بچانے کی اہلیت کا جائزہ لیا تو عام سرجیکل ماسک کے مقابلے میں یہ زیادہ محفوظ نہیں پائے گئے۔ چھینک کے چھوٹے قطروں کی تیز بوچھاڑ روکنے کے باوجود کچھ دیر کے بعد یہ قطرے آسانی سے حفاظتی ڈھال کے دوسری طرف چلے گئے۔ اسی طرح ماسک میں موجود سانس لینے والے والو سے بھی قطروں کی ترسیل ممکن تھی۔ یہ تحقیق فزکس آف فلوئڈ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔

3۔ شہد کی مکھیوں کا زہر سینے کے کینسر کے جارح اور مشکل سے ٹھیک ہونے والے خلیات کو تیزی سے ختم کر سکتا ہے۔

یہ تحقیق نیچر پریسیژن اونکالوجی میں شائع ہوئی۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جب زہر کے بنیادی جوہر کو سرطان کی دواؤں کے ساتھ استعمال کروایا گیا تو اس نے چوہوں میں پھوڑے کی نمو پذیری کو انتہائی کامیابی سے محدود کر دیا۔ سائنسدان پر امید ہیں کہ اس نئی دریافت سے انتہائی خطرناک ”سہ منفی“ سینے کے کینسر ( 10 سے 15 فیصد کیسز جن کا کوئی کامیاب علاج نہیں ہے ) کے خلاف علاج میں مدد ملے گی۔

4۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق انسانی فضلے کا ٹرانسپلانٹ الکوحل کی لت سے چھٹکارا پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ہیپاٹالوجی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق انسانی فضلے سے حاصل کردہ جراثیم جب الکوحل کے عادی رضاکاروں میں ٹرانسپلانٹ کیے گئے تو دس میں سے نو میں الکوحل کی خواہش اور استعمال کم ہوگیا۔ تحقیق کاروں کے مطابق یہ طریقہ جسے ”فضلاتی جراثیمی ٹرانسپلانٹ“ کہا جا سکتا ہے، محفوظ ہے اور الکوحل کی خواہش اور استعمال میں قلیل مدتی کمی کا باعث ہو سکتا ہے۔

انسانی نظام ہضم کے ساتھ دسیوں لاکھ عصبی خلیے ہوتے ہیں جو نیوروٹرانسمیٹرز پیدا کرکے نظام ہضم اور دماغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کے مطابق نظام ہضم میں موجود جراثیم دماغ کی کیمسٹری کو متاثر کر سکتے ہیں۔

تحقیق میں استعمال شدہ فضلہ ایک ڈونر سے لیا گیا جس میں دو مخصوص جراثیم موجود تھے جو اینیما کے ذریعے فضلہ کے وصول کنندہ رضاکاروں کے نظام ہضم میں موجود نہیں تھے۔

5۔ نئی ایجاد کردہ برقیاتی جلد بالکل انسانی جلد کی طرح درد محسوس کر سکتی ہے۔

آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے ایک مصنوعی برقیاتی جلد تیار کی ہے جو بالکل انسانی جلد کی طرح درد محسوس کر سکتی ہے۔ یہ نئی دریافت جدید مصنوعی اعضاء، ہوشیار روبوٹس اور انسانی جلد کی نان انویسیو پیوندکاری میں نئے در وا کر سکتی ہے۔

ایڈوانس انٹیلیجنٹ سسٹمز نامی جریدے میں شائع شدہ اس تحقیق کے مطابق جلد ہمارے جسم کا سب سے بڑا عضو ہے جو ہر تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے۔ تاہم یہ احساس صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب درد ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے۔ ابھی تک کوئی ایسی برقیاتی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی جو انسانی جلد کے درد محسوس کرنے کی صلاحیت کا اسی طرح اظہار کرنے پر قادر ہو۔ نئی مصنوعی جلد دباؤ، گرمی اور سردی کے تکلیف دہ احساس کو فوری طور پر محسوس کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک سوئی مس کرنے کے نرم اور چبھنے کے تکلیف دہ احساس میں فرق کر سکتی ہے۔ انسانی جلد کے انتہائی پیچیدہ عصبی نظام کو کامیابی سے نقل کرنے کی یہ پہلی مثال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).