وہ چینی لفظ جو امریکی پروفیسر کے خلاف نسلی پرستی کی تحقیقات کا سبب بن گیا


امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کے خلاف شکایت کی تفتیش کے دوران سامنے آنے والے چینی زبان کے بظاہر ایک بے ضرر لفظ نے ایک بحث کو جنم دے دیا ہے۔

بحث کا آغاز اُس وقت ہوا جب یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے حکام طلبا کی جانب سے پروفیسر گریگ پیٹن کے خلاف ایک شکایت کی تفتیش کر رہے تھے۔

مذکورہ پروفیسر نے گذشتہ ماہ ابلاغ یا کمیونیکیشن پڑھاتے ہوئے اپنے لیکچر میں مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم بات کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں درست لفظ نہیں آ رہا ہوتا تو اپنی بات جاری رکھنے کے لیے توقف کے طور پر ہم انگریزی میں ‘یو نو’ ہاں تو’ وغیرہ جیسے بے معنی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پروفیسر گریگ پیٹن نے کہا کہ یہ ایسا ہی جیسا ‘چین میں لوگ گفتگو میں توقف کے لیے عام طور پر ‘وہ’ ‘وہ’ ‘وہ’ بہت کہتے ہیں۔ چینی زبان میں اس کے لیے ‘نِگے’ ‘نگے’ ‘نگے’ کا لفظ بولا جاتا ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

چینی صدر کے نام کا غیرمہذب ترجمہ، فیس بک کی معافی

انڈین کھانوں کو ’بد ذائقہ‘ کہنے پر سوشل میڈیا پر کہرام

’نسل پرستانہ رویہ آسٹریلیا کے لیے کھیلنے کی راہ میں رکاوٹ‘

کیا میں اپنے نسل پرست فیس بُک فرینڈ کو چھوڑ دوں یا اس کی بات کا جواب دوں؟

کیا امریکی صدر نسل پرست ہیں، امریکہ میں بحث

یہ لفظ انگریزی زبان کے ‘این’ سے شروع ہونے والے ایک لفظ سے ملتا جلتا ہے جو سیاہ فام لوگوں کی تحقیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پروفیسر گریگ پیٹن کے لیکچر کا یہ حصہ انٹرنیٹ پر وائرل ہو گیا اور ایک تنازع کا سبب بن گیا۔

اس لیکچر پر کئی طلبا نے پروفیسر کے خلاف شکایت کر دی جس کے جواب میں یونیورسٹی کے ڈِین، پروفیسر جیفری گیرٹ نے طلبا کو بتا دیا کہ پروفیسر گریگ پیٹن کو ابلاغ کا کورس پڑھانے سے روک دیا گیا ہے۔

پروفیسر جیفری گیرٹ کا کہنا تھا کہ ‘عملے کی طرف سے ایسے الفاظ کا استعمال برداشت نہیں کیا جا سکتا جس سے کوئی طبقہ معاشرے سے کٹ جائے، یا ہمارے طلبا کی دل آزاری ہو اور’ان کی نفسیات پر کوئی برا اثر ہو۔’

یونیورسٹی کا مزید کہنا تھا کہ جب اس معاملے کی تفتیش جاری تھی تو پروفیسر گریگ پیٹن نے خود ہی استعفے کی پیشکش کر دی تھی۔

اس جھگڑے کی خبر جب چین پہنچی تو بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ پروفیسر کو دی جانے والے سزا سے چینی زبان بولنے والوں کے خلاف تعصب کا اظہار ہوتا ہے۔

ایک نقطے نے محرم سے مجرم ۔۔۔

چینی زبان میں ‘نِگے’ ایک عام لفظ ہے جسے لوگ تب استعمال کرتے ہیں جب وہ کوئی لفظ بولنے سے ہچکچا رہے ہوتے ہیں یا ذہن میں درست لفظ سوچ رہے ہوتے ہیں۔

تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ چینی زبان کا یہ بظاہر بےضرر لفظ تنازع یا غلط فہمی، حتیٰ کہ جھگڑے کا باعث بنا ہوا۔

جولائی 2016 میں چین میں جب ایک سیاہ فام شخص نے کسی چینی کو ریل گاڑی میں یہ لفظ بولتے سنا تو اس نے بھی اسے تحقیر آمیز لفظ سمجھا اور دونوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا۔

اس واقعہ کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر پھیل گئی تھی جس میں سیاہ فام شخص کو چیخ چیخ کر یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ‘اگر تم نے اب یہ لفظ بولنے کی کوشش کی تو پھر دیکھنا۔۔ آئندہ کبھی یہ لفظ نہ استعمال کرنا۔’

اِس سال اپریل میں تائیوان کی ایک ویب سائٹ یو ڈی این نے خبر لگائی تھی کہ مقامی ساحل پر ایک ریستوران کے باہر ایسی ہی غلط فہمی کی وجہ سے دو افراد لڑائی پہ اتر آئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ، باسکٹ بال کے مشہور چینی کھلاڑی یاؤ مِنگ نے بھی کچھ عرصہ قبل بتایا تھا کہ جب وہ امریکہ میں ایک میچ کھیل رہے تھے اور انھوں نے یہی لفظ استعمال کیا تو انہیں بھی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔

امریکہ

چین کے معروف باسکٹ بال کھلاڑیی یاؤ منگ (بائیں جانب)

ایک عالمی غلطی

البتہ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں ہونے والے تنازع میں ایک طالبہ سی سی چِن نے پروفیسر کا دفاع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکچر کا مقصد صرف طلبا کو ابلاغ کے بارے میں بتانا تھا اور مذکورہ پروفیسر محض ‘ایک ایسی غلطی کی وضاحت کر رہے تھے جو دنیا بھر میں لوگ کرتے ہیں۔’

‘اس بات پر پروفیسر پر پابندی لگا دینا ایک غلطی اور نامناسب فیصلہ ہے کہ انھوں نے چینی زبان کا ایک ایسا لفظ استعمال کیا جس کا تلفظ انگریزی کے ایسے لفظ سے ملتا ہے جو تحقیر آمیز ہے۔’

مِس چن کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے میں ‘اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ چینی ایک حقیقی زبان ہے اور اس میں ایسے تلفظ پائے جاتے ہیں جن کا انگریزی زبان سے کوئی لینا دینا نہیں۔’

انٹرنیٹ پر پروفیسر گریگ پیٹن کی بحالی کے لیے مہم بھی چلائی جا رہی ہے جس پر اب تک گیارہ ہزار سے زیادہ صارفین دستخط کر چکے ہیں۔

ادھر چین میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا یونیورسٹی نے فیصلہ سنانے میں جلد بازی کا مظاہرہ تو نہیں کیا۔

اس حوالے سے چینی زبان کی سماجی رابطوں کی مشہور ویب سائٹ ویبو پر ہزاروں افراد مختلف ہیش ٹیگز کے تحت اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں جن میں اکثریت کا خیال ہے کہ یونیورسٹی کے اس اقدام سے لگتا ہے کہ چینی زبان کو دبایا جا رہا ہے۔

یوں ایک پروفیسر کے خلاف ایک بظاہر تحقیر آمیز لفظ کے استعمال سے شروع ہونے والے بحث چین میں ان الزامات کی شکل اختیار کر گئی ہے جن میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چینی زبان سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

ویبو پر ایک صارف نے لکھا کہ ‘کیا اب امریکہ میں چینی بولنے پر پابندی لگا دی گئی ہے؟’

‘اس کا تعلق سیاست سے ہے’

چین

چین میں لوگوں کی بڑی تعداد سیاہ فام امریکیوں کی تحریک ‘بلیک لائیوز میٹر’ کی حامی نظر آئی ہے

یاد رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں چین میں لوگوں کی بڑی تعداد سیاہ فام امریکیوں کی تحریک ‘بلیک لائیوز میٹر’ کی حامی نظر آئی ہے۔

چین میں اکثر لوگ صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے چین کے خلاف جذبات بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کبھی اس وبا کو ‘چینی وائرس’ کبھی ‘ووہان وائرس’ اور کبھی “کنگ فُلو’ کے نام سے پکارتے رہے ہیں۔

گذشتہ عرصے میں چینی ذرائع ابلاغ میں ایسی مثالیں پیش کی جاتی رہی ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو چینی لوگوں کے بارے میں مبینہ نسل پرستانہ رویے کا مرتکب پایا گیا ہے۔

ویبو پر شائع ہونے والے چند پوسٹ میں صارفین کا موقف تھا کہ پروفیسر پیٹن کو معطل کر کے یونیورسٹی نے اصل زبان کی بجائے محض ‘سیاسی درستگی’ کو ترجیح دی ہے جس میں بات کہنے والے کی نیت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ الفاظ کو پکڑ لیا جاتا ہے۔

ویبو پر کئی صارفین کا کہنا تھا کہ گزشتہ مہینوں میں چینی اور سیاہ فام، دونوں نسل کے لوگوں کو امریکہ میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لیے انھیں آپس میں لڑنے کی بجائے مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ وہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں۔

ایک صارف نے لکھا ‘ہمیں اس نسلی فرق کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔’

ادھر امریکہ میں بھی یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے اساتذہ اور طلبا بھی پروفیسر کی معطلی پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی کے چینی طلبا کی تنظیم کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ ‘کسی زبان کو دوسری زبان پر فوقیت حاصل نہیں۔’

‘ ایک اقلیتی گروہ کی طرف سے اپنے حقوق کے اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی دوسرے گروہ کے حقوق پامال کرنا شروع کر دیں۔ ہمیں اپنی زبان استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp