کسی راؤ انوار کی تلاش؟


’’پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی‘‘ ، آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ سلوگن خاصا مشہور ہواتھا۔ اس سے پہلے کے ادوار اور آج کل بھی پولیس غریب عوام کی چھترول کر کے ہی ’’مدد‘‘ کرتی آ رہی ہے۔ پولیس، برسراقتدار سیاستدانوں اور مافیاز کے درمیان گٹھ جوڑ کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ریاست مدینہ کے داعی اور تبدیلی کے پیامبر عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد پرانے انداز بدل جا ئیں گے اور معاملات مثبت رخ اختیار کریں گے لیکن اس قسم کی امیدیں نقش برآب ہی ثابت ہوئیں۔

قانون اور امن وامان کے حوالے سے موجودہ حکومت کے دوسال کے دوران معاملات رجعت قہقری کا شکار رہے اور نوبت بہ ایں جا رسید صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ خواتین کے اغوا اور آبرو ریزی کے واقعات روز کا معمول بن چکا ہے۔ پنجاب جو کبھی امن کا گہوارہ کہلاتا تھا خواتین حتیٰ کہ بچوں کی عزت سے کھیلنے والے جنسی درندوں کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آنے والے افسوسناک واقعہ نے جس میں فرانس میں مقیم پاکستانی خاتون کے ساتھ اس کے دوبچوں کے سامنے ریپ کیا گیا پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیاہے۔

یہ درندگی علاقہ غیر میں نہیں بلکہ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ہوئی۔ جس تھانے کی حدود میں یہ واقعہ ہو اوہ تکنیکی طور پرصوبائی دارالحکومت لاہور کا ہی حصہ ہے۔ عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف سارا ملبہ چندروز قبل ہی تعینات ہونے والے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے مظلوم خاتون پر ڈالنے کی مذموم کوشش کی۔ سی سی پی او لاہور جن کا سروس ریکارڈ قابل رشک نہیں اور شاید انہیں سیاسی بنیادوں پر ان کے سینئر افسر آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو ناراض کر کے لایا گیا ہے کہ حسب ضرورت ان سے اپوزیشن کی ٹھکائی کرائی جائے۔

آئی جی شعیب دستگیر نے ایسے افسر کو قبول کرنے کے بجائے منصب سے سبکدوش ہونے کو ترجیح دی۔ سی سی پی او جو کیٹگری ’سی ‘ میں ہونے کے باوجود اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں نے آتے ہی بڑھک ماری کہ اب میں آئی جی کو دیکھ لوں گا۔ سی سی پی او کے اصل الفاظ اخلاق سے اتنے گرے ہوئے تھے کہ انہیں یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا لیکن موصوف نے درندگی کا شکار خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس نے رات کے وقت موٹروے کے راستے گوجرانوالہ جانے کا فیصلہ کیوں کیا یعنی اس کے ساتھ بچوں کے سامنے جو زیادتی ہوئی بلاواسطہ طور پر وہ خود اس کی ذمہ دار ہے کیونکہ جی ٹی روڈ کے ذریعے گوجرانوالہ کا سفرزیادہ محفوظ ہے کہ اس سڑک پر ٹریفک زیادہ ہوتی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن جب حکومت موٹروے پر ٹول ٹیکس وصول کر رہی ہے تو سڑک پر فراہم کی جانے والی سروسز میں سفر کرنے والوں کے جان ومال کی حفاظت بھی اس کا فرض ہے۔ یہ بھی بڑی بودی دلیل ہے کہ خاتون کی کار میں پٹرول کیوں ختم ہوگیا۔ موٹروے کے اس نئے حصے پرجسے کھولے ہوئے قریبا ً پانچ ماہ ہو چکے ہیں سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بیرون ملک رہنے والی ا س مظلوم خاتون کو کیا معلوم کہ یہاں موٹروے پر پٹرول ہے اور نہ ہی قانون کی رٹ۔

واضح رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں پانچویں مرتبہ پولیس میں اعلیٰ ترین سطح پر تبدیلی ہوئی ہے۔ انعام غنی نے چند روز قبل ہی چھٹے آئی جی کے طور پر صوبے کا چارج سنبھالا ہے۔ نہ جانے کیوں وزیراعظم عمران خان اپنے معتمد وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ڈھنگ کا پولیس افسر کیوں نہیں دیتے جو خوش اسلوبی سے صوبے کے قانون اور امن وامان کے معاملات چلا سکے۔ دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ خاتون سے اجتماعی زیادتی کرنے والے دونوں ملزموں کا سراغ لگا لیا گیاہے، متاثرہ خاتون سے حاصل نمونے ملزموں کے ڈی این اے سے میچ کر گئے ہیں، ایک ملزم کا نام محمد عابد اور دوسرے کا وقار ہے۔

اس سلسلے میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے صوبائی وزرا اور آئی جی پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزموں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی اگر وہ ملزموں تک پہنچ گئے ہیں تو پھر گرفتاری میں مدد کرنے والوں کے لیے 25،25 لاکھ روپے کا انعام کیوں رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا، میرا متاثرہ خاتون سے بھی رابطہ ہوا ان کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ سی سی پی او عمر شیخ کے متاثرہ خاتون سے متعلق متنازعہ بیان کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہا آئی جی پنجاب نے سی سی پی او کو نامناسب بیان پر شوکاز نوٹس دیا اور 7 روز میں جواب مانگا گیا ہے، جواب پر قانونی کارروائی کی جائے گی آئی جی انعام غنی کا کہنا تھا کہ ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران عابد اور اس کی بیوی کھیتوں میں فرار ہوگئے، اس کی بچی ہمیں ملی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ متاثرہ خاتون کو وقت پر مدد فراہم نہیں کی جاسکی کیونکہ واقعے کے وقت موٹروے پولیس اس روٹ پر موجود نہیں تھی۔ جوں جوں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وقت قریب آ رہا ہے پولیس اور بیورو کریسی میں اپنے من پسند افسران تعینات کرنے کی خواہش جنون کی حد تک بڑھ چکی ہے حتیٰ کہ دو برسوں کے دوران پنجاب میں کوئی آئی جی بھی اوسطاً پانچ ماہ سے زیادہ مدت نہیں گزارسکا، جیسے ہی نیا آئی جی آتا ہے سا تھ ہی وہ اپنا سامان باندھنے کی تیاری کرنے لگتا ہے۔

جب کسی حکومت کو اپنی عوامی تائید و حمایت پر پورا یقین نہ ہو تو وہ ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے خان صاحب کے مشیروں نے انہیں سبق ازبر کر ادیا ہے کہ شہباز شریف جودس سال سے زیادہ عرصہ پنجاب میں وزیراعلیٰ رہے ہیں اور نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اختیارات استعمال کرتے رہے انہوں نے اتنا نوازا ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی شریفوں کی زر خرید غلام بن گئی ہے۔ حالانکہ معدودے چند دائمی وفاداروں کو چھوڑ کر بیورو کریسی اور پولیس حکم کی ہی غلام ہوتی ہے صرف آٹے میں نمک کے برابر ایسے افسران ہوتے ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ورنہ آوے کا آوا ہی بگڑاہواہے۔

اتنے کم عرصے میں اتنے تواتر کے ساتھ پولیس قیادت کی بار بار تبدیلی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ خان صا حب خود اپنے فیصلوں پر اعتماد کھوتے جا رہے ہیں ورنہ انہیں اس اندازسے حکومت چلانے کی کیوں ضرورت پیش آ رہی ہے، اب تو پنجاب میں اتنی تیزی سے انتظامی تبدیلیاں جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہیں۔ آخر کوئی وجہ تو ہو گی، یا تو خان صاحب کانوں کے اتنے کچے ہیں کہ اپنی ہی منتخب کردہ ٹیم پر اعتماد کرنے سے قاصر ہیں یا واقعی وہ جوبھی ٹیم لے کر آتے ہیں شریف برادران اس پر شب خون مار کر انہیں پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے ناکارہ کر دیتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ میرٹ پر خوب سے خوب تر کی تلاش کر کے ایک اچھی ٹیم تشکیل دی جائے اوران سے میرٹ پر ہی کام لیا جائے۔کبھی کبھی مجھے شک ہوتا ہے کہ وہ خفیہ ہاتھ جو ماضی میں خان صاحب کی مدد کرتا آیا ہے اور انہیں حکومت میں لانے کا بلا واسطہ ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اس پر بھی وزیراعظم کو کامل اعتماد نہیں رہا۔ جہاں تک موجودہ سی سی پی او لاہور کا تعلق ہے ان کو اپنے عہدے پر متمکن ہوئے چند روز ہوئے ہیں کو برقرار رکھنے کا بظاہر جواز نظر نہیں آتا۔

خود پی ٹی آئی کے اند رسے ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کو کوئی وزیر یا مشیر تیا ر نہیں۔ حالانکہ ناقدین کے مطابق زیادتی کاشکا ر خاتون کو مورد الزام ٹھہرانا نامناسب ہے لیکن پھر بھی کسی میں اتنی جرأت رندانہ نہیں کہ وزیراعظم کو مشورہ دے کہ ان سے فی الفور چھٹکارا حاصل کر لیں اس سے پہلے کہ ان کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیں۔ عمر شیخ پہلے پولیس افسر نہیں ہیں، ان سے پہلے کراچی کے سپر کاپ راؤ انوار ہوں یا پنجاب میں شہبازشریف کے چہیتے رانا مقبول جنہیں ان کی خدمات کے عوض سینیٹر بھی بنا دیا گیا یا ذوالفقار چیمہ جیسی نابغہ روز گار شخصیات لیکن کسی بھی حکمران کے اقتدار کو دوام نہیں دے سکے پھر موجودہ حکمران کیونکر اپنے’راو ٔانوار‘ تلاش کر رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).