عمر خالد کی گرفتاری: جواہر لعل یونیورسٹی کے سابق طالبعلم رہنما دلی فسادات کی سازش کے الزام میں گرفتار


Umar Khalid

FB/Umar Khalid
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کے سابق رہنما اور تنظیم 'یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ' کے شریک بانی عمر خالد کو گرفتاری کے بعد 10 روز کے لیے پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا گیا ہے۔

اتوار کی شب دلی پولیس نے دلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں انھیں گرفتار کیا تھا۔

پیر کو ویڈیو لنک کے ذریعے ان کی عدالت میں پیشی ہوئی جس میں پولیس کی درخواست کے مطابق ان کا دس روزہ ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔

خالد کے والد سید قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ دلی پولیس کے خصوصی سیل نے رات 11 بجے ان کے بیٹے کو گرفتار کیا۔

پولیس دوپہر ایک بجے سے خالد سے پوچھ گچھ کر رہی تھی اور 11 گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد پولیس نے خالد کو فسادات کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

33 سالہ عمر خالد کے والد کا خیال ہے کہ ان کے بیٹے کو ’اس معاملے میں پھنسایا جا رہا ہے’۔

تنظیم ‘یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ’ کے مطابق ایف آئی آر 59 کے مطابق عمر خالد کو یو اے پی اے یعنی غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دلی فسادات میں پولیس نے مشتعل ہندو گروہوں کا ساتھ دیا: ایمنسٹی

ملک سے غداری، یونیورسٹی سے معطل

دلی یونیورسٹی کے ٹاک شو میں عمر خالد کی شرکت پر ہنگامہ

دلی میں مسلمانوں کے گھروں کو کیسے چن چن کر جلایا گیا

آخر یہ جے این یو کیا بلا ہے؟

تنظیم نے کہا ہے کہ دلی پولیس شہریت کے متنازع قانون سی اے اے کے خلاف مظاہروں کو مجرمانہ شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن سی اے اے اور یو اے پی ایس جیسے ’ظالمانہ قوانین کے خلاف جنگ جاری رہے گی‘۔

تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ دلی پولیس ہر طرح سے عمر خالد کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

دلی پولیس کی کرائم برانچ کا کہنا ہے کہ فسادات کے پیچھے گہری سازش تھی۔ فسادات کے معاملے میں 6 مارچ 2020 کو دائر اصل ایف آئی آر نمبر 59 اسی مبینہ سازش کے بارے میں ہے جس میں پہلا نام عمر خالد کا ہے۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمر خالد نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ انڈیا (فروری 2020) کے دوران فسادات کی منصوبہ بندی کی اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے ہجوم اکٹھا کیا۔

Getty Images

جب عمر خالد کی تقریر کا وزیر داخلہ امت شاہ نے ذکر کیا

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں دہلی فسادات کے معاملے میں جواب دیتے ہوئے عمر خالد کا نام لیے بغیر 17 فروری کی ان کی ایک تقریر کا بھی حوالہ دیا تھا۔

وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ یہ تقریر 17 فروری کو کی گئی تھی اور اس میں کہا گیا تھا کہ ‘ڈونلڈ ٹرمپ کی انڈیا آمد کے بعد ہم دنیا کو بتائیں گے کہ حکومت ہند عوام کے ساتھ کیا کر رہی ہے اور میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ ملک کے حکمرانوں کے خلاف باہر نکلیں’۔ اس کے بعد 23-24 فروری کو دہلی میں فسادات ہوئے تھے۔

مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں 17 فروری کی عمر خالد کی اس تقریر کا ذکر دلی پولیس کے خصوصی سیل نے بطور ثبوت پیش کیا ہے۔

لیکن حقائق کی جانچ کرنے والی کچھ بڑی ویب سائٹوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’عمر خالد کی تقریر کی ادھوری ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلا کر ان کے خلاف بدگمانی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی نامکمل تقریر سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ لوگوں کو مشتعل کر رہے ہیں’۔

جبکہ عمر خالد نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ‘جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا میں ہوں تو ہمیں سڑکوں پر نکلنا چاہیے۔ 24 تاریخ کو جب ٹرمپ آئیں گے تو ہم بتائیں گے کہ حکومت ہند ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مہاتما گاندھی کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ہم دنیا کو بتائیں گے کہ انڈیا کے عوام ملک کے حکمرانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس دن ہم تمام لوگ سڑکوں پر مکل آئیں گے’۔

ماہرین قانون کے مطابق لوگوں کو مظاہرہ کرنے کے لیے کہنا آئین کے مطابق جرم نہیں ہے بلکہ جمہوری حق ہے۔ جبکہ لوگوں کو تشدد پر اکسانا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

Getty Images

غداری کا معاملہ

عمر خالد کا نام پہلی بار فروری 2016 میں جے این یو کے طالب علم رہنما کنہیا کمار کے ہمراہ سرخیوں میں آیا تھا لیکن اس کے بعد سے بہت سارے معاملات میں اپنے کچھ بیانات کی وجہ سے خالد مسلسل سرخیوں میں رہے ہیں۔

مودی حکومت پر تنقید کی وجہ سے عمر خالد دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے لوگوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

اس تازہ واقعے سے پہلے فروری 2016 میں پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں افضل گورو کی برسی کے موقع پر منعقدہ پروگرام عمر خالد کو مہنگا پڑا تھا۔ اس وقت یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس پروگرام میں مبینہ طور پر انڈیا مخالف نعرے لگائے گئے تھے۔

کہا گیا تھا کہ نعرے بلند کرنے والوں میں جے این یو طلبہ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار اور چھ دیگر طلباء میں عمر خالد بھی شامل تھے۔ اس کے بعد عمر خالد پر غداری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ وہ پولیس ریمانڈ پر رہے اور کچھ عرصے بعد انہیں عدالت سے ضمانت مل گئی تھی۔

لیکن انڈین میڈیا کے ایک دھڑے نے انہیں ‘غدار’ کہا یہاں تک کہ ان کے ساتھیوں کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ بھی کہا گیا۔ عمر خالد بار بار یہ کہتے آئے ہیں کہ میڈیا نے ان کی ایسی شبیہہ بنا دی ہے جس کی وجہ سے وہ کچھ لوگوں کی نفرت کا شکار ہو رہے ہیں۔

جنوری 2020 میں عمر خالد نے وزیر داخلہ امت شاہ کو چیلنج کیا تھا کہ ‘اگر وہ ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘کو سزا دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ اپنی بات کے پکے ہیں تو پھر’ٹکڑے ٹکڑے’ تقریر کے لیے میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کریں۔ اس کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ نفرت انگیز تقریر کس نے کی اور کون غدار ہے’۔

SM Viral Image

SM Viral Image
عمر خالد نے برہان وانی کی ‘تعریف’ میں فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی تھی جس پر کافی تنقید ہوئی تھی

برہان وانی پر تبصرہ

جولائی 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی کشمیر میں وسیع پیمانے پر تشدد ہوا تھا اور اس واقعے کے بعد شدید مظاہرے ہوئے جس سے متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

برہان وانی کی آخری رسومات میں بھی بڑے پیمانے پر لوگوں نے شرکت کی تھی۔ جس کے بعد عمر خالد نے برہان وانی کی ‘تعریف’ میں فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی جس پر کافی تنقید ہوئی تھی۔

تنقید کے پیش نظر عمر خالد نے کچھ عرصے کے بعد اس پوسٹ کو ہٹا دیا تھا۔ لیکن تب تک سوشل میڈیا پر ان کے خلاف احتجاج شروع ہوچکا تھا۔ تاہم، بہت سارے لوگ ان کی حمایت میں بھی تھے۔

AFP

دلی یونیورسٹی کا پروگرام

فروری 2017 میں دہلی یونیورسٹی کے رامجس کالج کی ادبی سوسائٹی نے عمر خالد اور سٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید کو ٹاک شو میں شرکت کی دعوت دی۔

عمر خالد نے ‘قبائلی علاقے میں جنگ’ کے موضوع پر بات کرنا تھی۔ لیکن اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے تعلق رکھنے والے طلباء اس پروگرام کی مخالفت کر رہے تھے جس کے دباؤ میں رامجس کالج انتظامیہ نے دونوں مقررین کی دعوت منسوخ کردی۔

لیکن اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) اور آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن (AISA) کے ممبروں کے درمیان یونیورسٹی کیمپس میں پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔

FB/Umar Khalid

FB/Umar Khalid

عمر خالد پر حملہ

اگست 2018 میں عمر خالد پر مبینہ طور پر کچھ نامعلوم حملہ آوروں نے دلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہر حملہ کیا تھا۔ عینی شاہدین نے تب بتایا تھا کہ سفید قمیض پہنے ایک شخص نے آکر عمر خالد کو دھکا دیا اور فائرنگ کر دی۔ لیکن خالد کے گرنے کی وجہ سے انہیں گولی نہیں لگی۔

اس واقعے کے بعد عمر خالد نے کہا تھا ‘جب اس نے پستول میری طرف تانی تو میں ڈر گیا لیکن مجھے یاد آیا کہ صحافی گوری لنکیش کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘

FB/Muhammed Salih

FB/Muhammed Salih

پاکستان سے نام جوڑا گیا

بھیما-کوریگاؤں میں تشدد کے معاملے میں بھی گجرات کے رہنما جیگنیش میوانی کے ساتھ عمر خالد کا نام لیا گیا ہے کہ یہ دونوں مبینہ طور پر اپنی تقاریر سے لوگوں کو مشتعل کرتے تھے۔ عمر خالد کی تقاریر اور مختلف موضوعات پر بات کرنا سرخیوں میں شامل ہوتا رہا۔

ان تمام تنازعات کے درمیان عمر خالد کو اپنی تعلیم کے معاملے میں بہت سارے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور بہت کوشش کے بعد انہوں نے جے این یو میں اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ جمع کروائی۔

عمر خالد کو انگریزی اور ہندی دونوں زبانوں میں عبور حاصل ہے۔ انڈیا کے قبائلیوں پر ان کا خصوصی مطالعہ ہے۔انہوں نے دہلی ڈی یو اور جے این یو دونوں بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ کچھ سماجی تنظیموں کے ذریعے انسانی حقوق کے امور پر بات کرتے رہتے ہیں۔

عمر خالد نے کانگریس کے دور حکومت میں ہونے والے ‘بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر’ پر بھی سوالات اٹھائے تھے۔ انھوں نے اپنی متعدد تقاریر میں کہا تھا کہ ‘کچھ خاص قوانین کے تحت پولیس کے اضافی اختیارات کے ساتھ انسانی حقوق کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے’۔

گذشتہ سال عمر خالد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ‘سنہ 2016 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تین طلباء کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن میں صرف واحد طالبعلم تھا جس کا تعلق پاکستان سے جوڑا گیا تھا۔ مجھ سے بدسلوکی کی گئی اور دو بار الزام عائد کیا گیا کہ میں پاکستان گیا ہوں لیکن جب دلی پولیس نے ان دعوؤں کو جعلی ثابت کیا تو کسی نے مجھ سے معذرت نہیں کی۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp